پی ایس پی کا کامیاب جلسہ ، نئی سیاسی طاقت کے ابھرنے کا اشارہ

بدھ 24 جولائی 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

پاک سرزمین پارٹی نے الیکشن 2018 میں شکست کے بعد بظاہر تو چپ سادھ لی تھی، لیکن حالیہ جلسہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس خاموشی کی تہہ میں طوفان چھپا ہوا تھا، جو بالاخر باہر نکل آیا۔ پی ایس پی کے سربراہ سید مصطفی کمال نے اپنی پارٹی کی تشکیل کے وقت قومی سیاست کی بات زیادہ کی لیکن ان کے موقف کو زیادہ پذیرائی نہ ملی، ابھی حالیہ دنوں میں انہوں نے کراچی کے مسائل پر ایک مرتبہ پھر گفتگو شروع کی خاص طور پر پانی کی کمی ایک ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اور موجودہ تحریک انصاف بری طرح ناکام ہوئی ہیں بلکہ بحران اب سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔

اس کامیاب جلسے سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ کراچی کے عوام نے شہر کے مسائل کے حل کیلئے ایک مرتبہ پھر مصطفی کمال کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔

(جاری ہے)


کراچی شہر کے میئر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد اس شہر کے مسائل اور وسائل کا انہیں فہم و ادراک ہے، تقریباً دو ماہ قبل پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم (خالد مقبول صدیقی گروپ) نے کراچی میں جلسے کیے اور تینوں پارٹیاں خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں! گویا برسراقتدار پارٹیوں سے شہر کراچی کے عوام نے مایوسی کا اظہار کردیا تھا، اب گنجائش پیدا ہوچکی تھی جسے پی ایس پی کی قیادت نے بھانپ لیا اور اپنی ورکنگ تیز کردی، یہی وجہ ہے کہ وہ دو ماہ کے بعد ہی ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔

گویا ایک نئی سیاسی طاقت کے ابھرنے کا اشارہ دیدیا۔ سید مصطفی کمال نے اگر اسی ردھم کو برقرار رکھا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ آئندہ بلدیاتی الیکشن میں تمام پارٹیوں کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک مصروف ترین وقت کراچی میں گذارا اور چند ایک تقریبات میں شرکت کی ، انہوں نے توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے پر توجہ دی، ایوان صدر کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی مہیا کرنے کے عزم کا اظہار کیا، لیکن گورنر ہاؤس سندھ کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کا گورنر سندھ کو مشورہ نہیں دیا ۔

گورنر ہاؤس میں سندھ میں سولر کے ساتھ ساتھ ونڈ انرجی بھی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ونڈ ٹربائن لگائی جاسکتی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کئی وفاقی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں ۔ ایسا ہی پروجیکٹ وہ ان کے لیے بھی شروع کرواسکتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان کے صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے باوجود وہ شہر کراچی کے لیے کوئی ایک پروجیکٹ بھی شروع کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، اگرچہ انہوں نے سیاسی طور پر خود کو غیرجانبدار رکھا ہوا ہے، لیکن وفاق کے نمائندے گورنر عمران اسماعیل اپنی سیاسی سرگرمیوں کو آہستہ آہستہ بڑھا رہے ہیں۔

انہوں نے حیدرآباد کا دورہ کیا اور ایاز لطیف پلیجو سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور ان کے ہمراہ پریس کانفرنس بھی کی ، گویا یہ تاثر ابھرا کہ اندرون سندھ کی سیاسی قیادت بھی وفاقی حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے کے لیے تیار ہے۔
گویا گورنر سندھ عمران اسماعیل صوبہ سندھ میں اپنا سیاسی مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ حکومت کی تبدیلی کی جو گونج سنائی دیتی رہی اس کا کہیں اختتام نہیں ہوا۔

لیکن بہت زیادہ اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانا اور چلانا بہت مہنگا سودا ہے۔ اس صورتحال کا تجربہ تحریک انصاف کو وفاق میں ہوچکا ہے۔ اس لیے اس پروجیکٹ کو اس وقت تک آگے بڑھانا بہت مشکل ہوگا جب تک پاکستان پیپلز پارٹی اندرونی طور پر کمزور نہ ہوجائے۔
حلیم عادل شیخ کو تحریک انصاف سندھ کا صدر مقرر کردیا گیا ہے۔ عوامی سطح پر وہ ایک متحرک اور فعال شخصیت ہیں۔

تحریک انصاف کو تنظیمی لحاظ سے جن کمزوریوں کا سامنا ہے وہ انہیں دور کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو گذشتہ بلدیاتی الیکشن میں اسی وجہ سے شکست ہوئی تھی، چنانچہ حلیم عادل شیخ کے لیے یہ ایک چیلنج ہوگا کہ گلی محلے کی سطح پر وہ پارٹی کو کس انداز سے منظم کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے گذشتہ جلسے بھی اسی وجہ سے ناکام رہے تھے کہ یونین کونسل کی سطح پر پارٹی زیادہ فعال نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی شخصیت ابھی بھی عوام کو جمع کرنے کے لیے معتبر ہے، لیکن تنظیمی معاملات کیلئے سیکریٹریت کا فعال اور منظم ہونا ہی اصل کامیابی کی ضمانت ہے۔
پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس فائل کردیا گیا، ان کے ساتھ دیگر لوگ خاص طور پر اومنی گروپ اور سمٹ بینک کے چیئرمین حسین لوائی بھی شامل ہیں۔

ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی گرفتار ہیں۔ وفاقی سطح پر پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن میں خاموش ساتھی کی حیثیت سے نظر آرہی ہے۔ فاٹا الیکشن میں اسے شکست ہوئی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی جلسے بھی کیے لیکن ان کے امیدواروں کو پذیرائی نہ مل سکی۔ سینٹ میں چیئرمین کے خلاف وہ تحریک عدم اعتماد کا حصہ بنے لیکن ان کے ڈپٹی چیئرمین کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروادی گئی، اس لیے ان کا انداز موجودہ حالات میں دفاعی نوعیت کا نظر آتا ہے۔


وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جو بجٹ کے دوران وفاق پربرس رہے تھے، اب نسبتاً دھیمے انداز سے چلتے نظر آرہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آصف علی زرداری کی اس خاموشی میں کوئی طوفان تو چھپا ہوا نہیں ہے ؟
اقتصادی اعشاریے ابھی تک حکومت کے کنٹرول میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی بھی اپنے ہدف کے حصول میں تھوڑے ڈھیلے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔


ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے کمرشل بینکوں کو بھی کرنسی کے لین دین کا اختیار دیدیا گیا ہے ، گویا منی چینجر کمپنیوں کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کا سفر شروع کردیا گیا ہے۔ حکومت کو تمام بینکوں کی شیئر ہولڈنگ سے باقاعدہ ایک ایکسچینج بینک کے لیے بھی سوچنا چاہیے۔
سعودی عرب سے ادھار پر خام تیل کی ترسیل شروع ہوچکی ہے۔ کراچی کے ساحلوں پر پہنچنے والے بحری جہاز خام تیل کی پہلی کھیپ تیل کی درآمد کے بوجھ کو کسی حد تک کم کرنے میں کامیاب رہے گی۔
وزیراعظم عمران خان کوامریکہ میں پاکستانیوں نے بھرپور پذیرائی دی ہے، اگر اسی طرح وہ سرمایہ کاری میں بھی دلچسپی لیں تو پاکستان کی اقتصادی مشکلات کسی طرح کم ہوجائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :