سندھ میں پیپلزپارٹی کا فارورڈ بلاک ،افواہیں ،سرگوشیاں

بدھ 4 ستمبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

 سابق صدر آصف علی زرداری کے بچوں کے حوالے سے کئی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں جس میں ذاتی زندگی اور آپس کے تعلقات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ترجمان بلاول ہاؤس خاموش ہیں اور پی پی پی کے ذرائع اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ بہت سے ٹاک شوز اور دیگر تجزیاتی ذرائع اس بات پر بھی اظہار رائے کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ ڈیل بھی آخری مراحل میں ہے۔


وزیراعلیٰ سندھ نے بھی اپنی منفی گولہ باری کو خاموش کردیا ہے۔ آغا سراج درانی کے حوالے سے آنے والی خبریں ابھی تک تصدیق یا تردید کے مرحلے سے نہیں گزریں۔آصفہ بھٹو زرداری کو فعال کرنے کی ایک کوشش جاری ہے، اگر واقعی کوئی فاروڈ بلاک ترتیب پارہا ہے تو اس کی روک تھام کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

(جاری ہے)

کیا انہوں نے اس صورتحال کو قبول کرلیا ہے، یہ سوالات زبان زدِ عام ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی سنی جارہی ہے کہ آصف زرداری سے وابستہ کیا جانے والا کاروباری گروپ ”اومنی “ بھی ریکوری کے لیے حامی بھرچکا ہے۔

بعض افراد بڑے وثوق کے ساتھ ایک بڑی رقم کا ذکر بھی کررہے ہیں۔ اسلام آباد سے ایسی خبریں اکثر سنائی دیتی ہیں کہ ڈیل کس کی جانب سے ہورہی ہے، اور کس کے ساتھ معاملات طے پارہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ ان کے خلاف بھی تحقیقات ہورہی ہیں جبکہ انہوں نے سکھر میں احتساب کے عمل کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بات کی ہے کہ سیاستدانوں کا وقار مجروح کردیا گیا ہے۔

کرپشن کے بڑے بڑے کیس سیاستدانوں سے منسوب ہوئے ہیں ، اس لیے موجودہ دور میں سیاستدان زیادہ بدنام ہوئے ہیں۔ گویا سیاست ایک گالی بن گئی ہے، میرا خیال ہے کہ جو شخص عوام کی گواہی (ووٹ) سے ملک کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرتا ہے، اس کو احتساب کے کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔اس پر خورشید شاہ کی ناراضگی بے وجہ معلوم ہوتی ہے، اگر ان کے خلاف بھی تحقیقات ہورہی ہیں تو انہیں بھی اس کا سامنا کرنا چاہیے۔

دراصل پاکستان میں سیاست ایک پیشے کے طور پر اپنائی جاتی ہے ، لوگ اسے کاروبار سمجھ کر اس میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ کئی حوالوں سے قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔
کشمیر بنے گا پاکستان پر بہت سی سیاسی جماعتوں کے ساتھ سماجی تنظیمیں اور تعلیمی ادارے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

وزیراعظم کی 30 منٹ کی تحریک پر کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں کشمیر کاز کے حوالے سے عوام باہر نکلی ، لیکن عوام تمام تر توانائی جلوس جلسہ اور ر یلی میں صرف کررہے ہیں۔ کشمیریوں کی مدد کس طرح کرنی ہے ،اس کے لیے کوئی پروگرام سامنے نہیں آیا۔ بھارت کی طرف سے اگر جنگ کا خطرہ ہے تو قوم کو کس طرح تیار ہونا چاہیے، اس پر گفتگو نہیں ہوتی۔ نوجوان نسل کو اسکاؤٹنگ اور گرل گائیڈ سے متحرک کرنے کا پروگرام سامنے نہیں آیا۔

وفاقی حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں کو بالخصوص اور دیگر تمام اداروں میں ہنگامی حالات سے نبروآزما ہونے کی شارٹ ٹریننگ دی جائے۔
دونوں ممالک(پاکستان/بھارت) کے پاس انتہائی خطرناک اور مہلک ہتھیار موجود ہیں۔ میزائل سسٹم بھی وموجود ہے۔ خدانخواستہ جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھارت کسی دباؤ کو قبول نہیں کررہا ہے، اس لیے خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔

کراچی میں بارش کا چوتھا دور شروع ہوا تو اس مختصر دورانیے کی بارش نے بھی شہر کی زندگی مفلوج کردی۔ حیرت کی بات ہے کہ بلدیاتی اداروں کے علاوہ صوبائی اور دیگر سب بیک وقت فیل ہوتے جارہے ہیں۔ شہر کے نشیبی علاقے مسلسل پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں میئر کراچی نے جو سابق میئر مصطفی کمال کا چیلنج قبول کرتے ہوئے ان کو ڈائریکٹر گاربیج تعینات کیا، اگرچہ یہ ایک اعزازی عہدہ تھا، لیکن مصطفی کمال میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس ٹاسک کو بنیاد بناتے ہوئے کراچی کے عوام کے دل جیت سکتے تھے۔

 
میئر کراچی ایک دن بھی اپنے فیصلے پر قائم نہ رہ سکے اور آرڈر واپس لے لیا۔ گویا وہ اپنی پارٹی کے سامنے اور دیگر حوالوں سے بھی بہت کمزور ثابت ہوگئے۔ ان کے اس اقدام سے ایم کیو ایم کی ساکھ بہت متاثر ہوئی۔ یہ ایسے ہی ہوا کہ کئی بار بانی ایم کیو ایم سیاست سے دستبرداری کا اعلان کرتے اور پھر کارکنوں کے اصرار پر سب کچھ واپس ہوجاتا۔ چند گھنٹوں کے لیے شورشرابہ جاری رہتا اور پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا۔

میئر وسیم اختر نے ایسے ہی وقت کی یاد تازہ کردی، مصطفی کمال کو عہدہ دیا اور پھر کارکردگی دیکھے بڑے آرڈر واپس لینا ان کی جانب سے نہ صرف غیر سنجیدہ بلکہ شرمناک حرکت ثابت ہوئی۔ فاروق ستار نے اس صورتحال میں دوبارہ ایم کیو ایم میں رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ خالد مقبول صدیقی اور دیگر موجود قائدین کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔

ایم کیو ایم کے میئر نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر پارٹی کو بہت زیادہ نقصان پہنچادیا ہے۔ 
محرم الحرام کے ایام کا آغاز ہوچکا ہے۔ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگادی گئی ہے۔ سیکورٹی کے بہت سخت اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کیونکہ ٹارگٹ کلنگ کے چند ایک واقعات نے سیکورٹی اداروں کو پریشان کردیا ہے۔ انتہائی قابل شخصیت ڈاکٹر عسکری کو قتل کیا گیا ہے۔

یقینا ایک بہت بڑا قومی نقصان ہے، وہ ایک ماہر سرجن تھے۔
وزیراعظم عمران خان، عمر کوٹ میں ہندو برداری سے خطاب کے لیے نہ آسکے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ہی یہ فریضہ انجام دیا، ویسے بھی وہ علاقہ اُن کے مریدوں کا ہے، انہی کی دعوت پر عمران خان تشریف لانے والے تھے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں یہ ایک اچھا اقدام تھا۔ سندھ میں ہندو برادری کثیر تعداد میں آباد ہے۔

ان کو پاکستان میں تحفظ کا احساس دلانا، بین الاقوامی سطح پر بہتر اور احسن اقدام تصور کیا جائے گا۔پاکستان کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لئے متعدد اقدامات کرچکا ہے۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے، اس کے ساتھ ملک میں استحصالی طبقات کے خلاف بھی جنگ جاری رہنی چاہیے، تحریک انصاف کراچی میں واٹر ٹینکر مافیا کے خلاف جنگ کب جیتے گی، اس کا بھی ہم سب کو انتظار ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :