”فوڈ ڈپلومیسی“

جمعرات 28 نومبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

گورنر ہاؤس سندھ میں کراچی ایڈیٹرز کلب کے تعاون سے فوڈ ایکسی لینس ایوارڈز کی تقریب منعقد ہوئی جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل نے صوبوں میں ہم آہنگی کے لیے فوڈ ڈپلومیسی اپنانے کا مشورہ دیا۔ گورنر سندھ کا مشورہ بہت صائب ہے، وفاقی وزارتِ صوبائی ہم آہنگی جو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی قیادت میں کام کررہی ہے، اسے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ویسے بھی ان کی وزارت کوئی نمایاں پروجیکٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے موقع غنیمت جانتے ہوئے میاں نواز شریف کے علاج کی غرض سے لندن جانے کے حوالے سے ایک طنزیہ شعر بھی سنایا۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی جانب ”احساس“ پروگرام کی افادیت پر روشنی ڈالی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وفاق کے کئی پروجیکٹس وفاق، صوبہ تناؤ کی وجہ سے سندھ میں شروع نہیں کیے جاسکے۔

(جاری ہے)

کراچی جیسا بڑا شہر مسائل میں مزید گھرچکا ہے ، اسی تناؤ کی وجہ سے بیوروکریسی مزے لے رہی ہے اور عوام دربدر ہوچکی ہے۔
وزیراطلاعات سندھ سعید غنی نے بھی ایک تقریب میں وفاق کو کراچی کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا، سوال یہ ہے کہ اندرون سندھ کے مسائل کا ذمہ دار کون ہے، سندھ حکومت یا وفاق؟
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، آئی جی سندھ سید کلیم امام کے درمیان تناؤ زیادہ نظر آرہا ہے خاص طور پر ایم کیو ایم لندن کے ایک ٹارگٹ کلر نے جب وزیراعلیٰ کے حوالے سے بیان دیا تھا، تو اس کے بعد سے معاملات معمول پر نہیں۔


وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں پولیس افسران اور دیگر سیکورٹی اداروں کے افسران بھی موجود تھے، وزیراعلیٰ بہت برہم تھے کہ اس کی تحقیقات ہونگی کہ یوسف ٹھیلے والا نامی شخص جو کہ ٹارگٹ کلر ہے،اس نے کس کی ایماء پر ان کا نام لیا۔ مذکورہ شخص نے دعویٰ کیا کہ سید مراد علی شاہ نے خفیہ طور پر ان سے ملاقات میں کہا تھا کہ دنیا کے سامنے تم مرچکے ہو، اب تمھیں دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کو چاہیے کہ اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائیں تاکہ سچائی سب پر عیاں ہوسکے۔
اس کے ساتھ ساتھ محکمہ اینٹی کرپشن کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ بیوروکریسی میں بااثر افسران پر ہاتھ ڈالنا ناممکن ہے، انہیں بااثر سیاسی افراد کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اکثر اوقات چھوٹے درجے کے ملازمین کو دھرلیا جاتا ہے، کئی افسران جن پر بڑی بڑی کرپشن کے الزامات ثابت بھی ہوئے، ان کے خلاف کارروائی عمل میں نہ آسکی، حتیٰ کہ وہ ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔


سندھ رہبر کمیٹی کے روح رواں مولانا راشد محمود سومرو نے اعلان کیا ہے کہ احتجاج کی نئی تاریخ دی جائے گی۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے صوبائی دارالحکومتوں کے دھرنے میں شرکت نہیں کی تھی، سندھ میں بھی چند ایک مقامات پر جے یو آئی ف کے کارکنوں نے ہی قلیل مدتی دھرنا دیا تھا۔ اب رہبر کمیٹی پہلے آل پارٹیز کانفرنس سے فیصلے کروا کر حکومت پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی اپنانا چاہتی ہے، لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی عدم دلچسپی سے جے یو آئی ف کی احتجاجی سیاست سندھ میں قدرے کمزور دکھائی دیتی ہے۔

جے یو آئی ف اگر اضلاع کی سطح پر احتجاج یا جلسہ جلوس کا انعقاد کرتی ہے، تو اسے پیپلز پارٹی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یقینا سندھ کے اضلاع میں پیپلز پارٹی اس نوعیت کے احتجاج کا حصہ لینے سے گریز کرے گی۔ چنانچہ جے یو آئی ف کے سندھ میں احتجاجی پروگرام کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔
عوامی مسائل کے حل کی طرف پیشرفت بہت کم ہے۔ کراچی میں سول سوسائٹی اپنے مسائل کے حل کے لیے دن بدن متحرک ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

80فیصد سے زائد شہر پرائیویٹ شعبہ چلارہا ہے۔ تعلیمی ادارے، میڈیکل کلینک، سیکورٹی ایجنسیاں ، ٹرانسپورٹ، ایمبولینس سروس، غرباء کو کھانا کھلانا، بوڑھے اور معذور افراد کیلئے خیراتی ادارے چلانا، ٹرانسپورٹ ٹریکنگ، سی سی ٹی وی کیمرے، الغرض کئی طرح کی سہولتوں کو مہیا کرنے میں کراچی کا پرائیویٹ شعبہ اور سوشل سروس اپنی مثال آپ ہے۔
موبائل ایپ کے ذریعے ٹرانسپورٹ آنے سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے، اب بس سروس بھی شروع ہوگئی ہے، جس پر سندھ حکومت سیخ پا ہورہی ہے۔

حکومت صرف دفتروں اور پولیس اسٹیشن پر نظر آتی ہے۔ شہر میں کاروبار میں رکاوٹیں ڈالنے میں پولیس کے لوگ سرفہرست ہیں۔
چونکہ وہ سیاسی اثرورسوخ اور کئی معاملات کے بعد تعیناتی حاصل کرتے ہیں، اس لیے رشوت ستانی اور زبردستی پیسہ بنانے کی عادات ختم نہیں ہورہی ہیں۔ اگر ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینا حکومت کا عزم ہے تو اسے ملک کو پولیس کے ذریعے چلانے کی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی، کراچی کے تھانے اور ٹریفک سیکشن عوام میں بدنام ہوچکے ہیں۔

اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کی رپورٹ کے مطابق رواں سال ابھی تک صرف شہر کراچی سے 26ہزار گاڑیاں چوری ہوئیں جن میں سے بمشکل 1500کے لگ بھگ بازیاب کروائی جاسکیں۔دیگر کرائمز کا تناسب بھی خطرناک حد تک موجود ہے۔
صوبائی ہوم سیکریٹری کبیر قاضی نے ایک محفل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشی سرگرمیوں میں کمی سے اسٹریٹ کرائمز ہورہے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ بھی ایسی باتیں کرچکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں رخنے ڈالنے کی ایک وجہ پولیس بھی ہے، عدالتی نظام سے انصاف نہ ملنا بھی ہے۔ حکومت کا عوام کے لئے کچھ نہ کرنا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
حکومتی کارکردگی تو یہاں آکے بے نقاب ہوچکی ہے کہ کتے کے کاٹے کا علاج لاڑکانہ اور حیدرآباد میں ممکن نہیں، جہاں محترمہ بینظیر بھٹو شہید میڈیکل یونیورسٹی اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہے، ویکسین دستیاب نہیں ہورہی ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت عوام کیلئے کیا کررہی ہے ؟
سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سندھ حکومت کیلئے مشکل صورتحال پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

کراچی کا ووٹر ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں اور تحریک انصاف سے سخت نالاں ہے، آئندہ بلدیاتی الیکشن میں امیدواروں کو سخت مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :