ایم کیو ایم کو منانے کی کوششیں تاحال ناکام

ہفتہ 8 فروری 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کراچی کے بعد چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بھی ایم کیو ایم کو منانے کی کوشش کی، لیکن بات خیرسگالی جذبوں سے آگے نہ بڑھ سکی، جبکہ ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ق) کا سیاسی پریشر بھی ہلکی سی خفگی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے قائدین نے عارضی مرکز بہادر آباد میں ڈیرے جما رکھے ہیں، اور گاہے گاہے پیپلز پارٹی سے ورکنگ ریلیشن شپ بڑھانے کی بھی بات ہورہی ہے، پیپلز پارٹی اور وفاق میں آئی جی سندھ کی تقرری پر جو مفاہمت تھی، وہ عارضی ثابت ہوئی اور وزیراعظم عمران خان کی جی ڈی اے کے رہنماوں سے ملاقات کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی، وزیراعظم آفس اسلام آباد میں آئی جی سندھ سید کلیم امام نے ملاقات کے بعد فاتحانہ انداز میں دوبارہ کراچی میں قدم رکھا۔

اس سیاسی تناظر نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ، آخر ایم کیو ایم کس قسم کی یقین دہانی کے بعد اقتدار کا حصہ رہنے پر تیار ہوگی۔

(جاری ہے)

 

یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس سال ہونے والے بلدیاتی الیکشن آہستہ آہستہ اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ اس مرتبہ میئر کراچی پی ٹی آئی سے ہوگا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو جب 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کراچی کی اکثریتی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ہے تو اب یہ اس کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے، کہ کراچی میں میئر کی نشست اس کے پاس ہو۔

تحریک انصاف پورے زور کے ساتھ بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ یہ ثابت کرسکے کہ شہر کراچی کا سیاسی مینڈیٹ اب اس کے پاس ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کیلئے یہ صورتحال قابل قبول دکھائی نہیں دیتی۔ 
ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار، سید مصطفی کمال اور وسیم اختر کے روپ میں تین مرتبہ اپنا میئر منتخب کرواچکی ہے، اب اس کی خواہش ہے کہ یہ اہم ترین عہدہ ایک مرتبہ پھر اسی کے پاس رہے۔

 
پیپلز پارٹی کا کراچی میں ووٹ بینک دس فیصد سے بھی کم ہے، اسے یہاں سیاسی ساکھ کے خراب ہونے کا اندیشہ نہیں، اس کا میئر بن ہی نہیں سکتا، اسی وجہ سے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری ایم کیو ایم کو سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی نشستوں سے اٹھا کر اقتدار کا حصہ بننے کی دعوت دے رہے ہیں، اس دعوت کے پس پردہ ایم کیو ایم کی میئرشپ جیتنے میں مدد کرنے کی پیشکش پنہاں ہے، اور ایم کیو ایم کی خاموشی کی تہہ میں یہ خواہش چھپی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

ایم کیو ایم نہیں چاہتی کہ وہ کراچی کی لیڈرشپ سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائے، سیاست میں یہ بات بہت اہم ہے کہ مسلسل اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے ووٹر ناراض ہوجاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اقتدار اپنی حمایت کو برقرار رکھنے کیلئے بھی حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے کراچی کی میئر شپ ایم کیو ایم کے لیے آب حیات سے کم نہیں۔

 
آئی جی سندھ سید کلیم امام کا تبادلہ اگر چہ مؤخر ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ و زیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیراعظم پاکستان کو خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے بعض وزراء سیاسی تیر اندازی کی مشق کا مظاہرہ کرنے میں کوتاہی نہیں برتتے اور گاہے گاہے ان کی بیان بازی جاری ہے، اگر دیکھا جائے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ سیاست فقط بیان بازی کا ہی دوسرا نام بن چکا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی بدامنی کیس کو پھر سے سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ میئر کراچی ، آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔
کراچی بدامنی کیس 2011 میں اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان ، افتخار چوہدری کے ازخود نوٹس سے شروع ہوا تھا، مختلف اوقات میں اتار چڑھاؤ سے یہ کیس جاری رہا ۔ اسی کیس کا کرشمہ تھا کہ 2013 میں کراچی آپریشن شروع ہوا۔

 
نیشنل ایکشن پروگرام اور ایپکس کمیٹی کا وجود میں آنا اور پھر اسی مقدمے میں سیاسی پارٹیوں کے اسلحہ بردار ونگ ہونے کی بازگشت سنی گئی۔ لیکن آج تک سیاسی جماعتوں کے ”ملیشیاء ونگ“ ختم کرنے پر پیشرفت نہیں ہوئی۔ 
شہر کراچی میں کئی سو کنٹینرز جو اسلحہ سے بھرے ہوئے غائب ہوئے تھے، ان کی بازیابی بھی ممکن نہیں ہوسکی، جبکہ غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی بھی ایک سوالیہ نشان ہے، کراچی میں لینڈ مافیا کا ذکر بھی اسی کیس کا حصہ تھا۔

شہر کراچی کی زمین کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا ٹاسک بھی مکمل نہیں ہوا ۔اگر موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں، تویہ کراچی کے شہریوں کیلئے خوش آئند ہے، اس وقت اسٹریٹ کرائمز نے شہریوں کا جینا دو بھر کررکھا ہے۔ 
کراچی سرکلر ریلوے، کراچی کی مردم شماری ، گرین لائن منصوبہ، K4 منصوبہ کی بندش جیسے مسائل منہ کھولے ہوئے ہیں۔

اگر ان کو سماعت کا حصہ بنایا جائے تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی نشست ڈاکٹر اجمل کی ناگہانی موت سے خالی ہوئی تھی، اب اس پر تقرری بھی سیاسی رنگ اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس حوالے سے بعض خبروں میں انکشاف ہوا ہے کہ بعض لوگوں کی کوشش ہے کہ یہاں کسی سندھی زبان سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کو وائس چانسلر تعینات کیا جائے ، کیونکہ کراچی یونیورسٹی میں آج تک ایسا نہیں ہوا۔

اس وقت وائس چانسلر تلاش کمیٹی نے جس شخصیت کو انٹرویوز کے بعد پہلی پوزیشن دی ہے وہ ڈاکٹر فتح محمد برفت ہیں، جو اس وقت سندھ یونیورسٹی جام شورو میں وائس چانسلر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت قائمقام وائس چانسلر بھی تعیناتی کے امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر خالد عراقی کا تعلق طالبعلمی کے زمانے میں پی ایس ایف سے رہا ہے۔ یوں صورتحال بہت ہی دلچسپ ہے جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ کیا فیصلہ سامنے آتا ہے، تعلیمی اداروں کو سیاسی ، لسانی اور مذہبی عصبیتوں سے پاک رکھتے ہوئے فیصلے کرنا بہت ضروری ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :