
بلاول کو دھمکیوں پر پیپلزپارٹی کا اظہار تشویش
بدھ 22 جولائی 2020

مبشر میر
پیپلز پارٹی نے برملا وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ کو قصوروار قرار دیا ہے۔ اور اعلان کیا ہے اگر بلاول بھٹو زرداری کو خراش بھی آئی تو اس کا ذمہ دار وزیراعظم پاکستان کو تصور کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع نے الزام لگاتے وقت کہا ہے کہ ان کی جانب سے مذمتی بیان نہیں آیا۔
سیاسی را ہنما ں کو کسی بھی حوالے سے دھمکی آمیز پیغامات آنا تشویش کی بات ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن بھی ان کے رابطے میں آئے، پیپلز پارٹی کی تشویش بجا ہے۔
(جاری ہے)
یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ سابق طالبان ترجمان احسان اللہ احسان جس کا اصل نام لیاقت علی بتایا جاتا ہے، جو قبائلی علاقے کے ضلع مہمند میں پیدا ہوا، اپریل 2017 میں خود کو پاکستان سیکیورٹی اداروں کے حوالے کرنے والا فروری 2020 میں کس طرح فرار ہوا۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے اس فرار کی تصدیق کی تھی ، لیکن چار ماہ گذرنے کے بعد بھی اس کے متعلق مزید معلومات عوام کو نہیں بتائی گئیں۔
وفاقی وزرات داخلہ کی ذمہ داری ہے کہ سیکیورٹی اداروں سے مزید معلومات حاصل کرکے ایوان بالا اور قومی اسمبلی کو آگاہ کرے کہ ایک فرارشدہ شخص کس طرح اپنا سوشل میڈیا اکا نٹ چلارہا ہے اور رکنِ قومی اسمبلی کو دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔
ملک میں جعلی ڈگری کی بازگشت کم ہوتے ہی دہری شہریت کی خبریں نقارے کی طرح بجنے لگیں! وزیراعظم عمران خان کے مشیروں کے اثاثے اور شہریت عوام کے سامنے پیش کردیے گئے۔ تحریک انصاف کے لوگ اس کو بھی اپنی حکومت کی کارکردگی میں شمار کررہے ہیں کہ مشیروں کے بارے میں اس قدر معلومات پہلی مرتبہ دی گئی ہیں ۔ موجودہ مشیروں پر منتخب اراکین اسمبلی کی تنقید گاہے گاہے ہوتی رہتی تھی اور وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیانات بہت زوردار انداز سے سامنے آئے تھے۔ اب مشیروں کی جائیداد اور شہریت نے وفاقی حکومت کو ایک مرتبہ پھر کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے ، سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب نے ایسے لوگوں کی وفاقی کابینہ میں موجودگی کو ملک کیلئے خطرہ قرار د یا ہے۔ حیرت ہے کہ ہزاروں بیوروکریٹس کی دہری شہریت پر آج تک خاموشی کیوں رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی تقریبا 22 ہزار بیوروکریٹس بھی غیرملکی شہریت رکھتے ہیں ، کسی حکومت نے ان کے خلاف بھی ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔
دیگر مشیروں کی کارکردگی اپنی جگہ لیکن توانائی کے مشیر ندیم بابر کی کارکردگی سوالیہ نشان کی زد میں رہی ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی جو سندھ اور بلوچستان میں گیس کی تقسیم کا فریضہ ادا کرتی ہے، گذشتہ تین برس سے مستقل ایم ڈی کے بغیر چلائی جارہی ہے تاکہ اپنی مرضی کے فیصلے ایک قائمقام ایم ڈی سے کروائے جاسکیں، اسی طرح ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پارکو کے ایم ڈی کی تقرری بھی ندیم بابر کی وجہ سے تاخیر کا شکار بتائی جاتی ہے۔ جہاں وہ من پسند افراد کو عہدہ دلوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اخبارات میں ان کے حوالے سے کئی اہم انکشافات بھی ہوئے لیکن ابھی تک وہ وزیراعظم کے ایڈوائزر اسکواڈ کا حصہ ہیں ۔
بعض اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت ، بلدیاتی اداروں کی اگلے مہینے مدت ختم ہوتے ہی ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور الیکشن کو ایک برس کیلئے م خر کرنے کی بھی ٹھان رکھی ہے۔ حیرت ہے ابھی گذشتہ دنوں ملک شام میں پارلیمنٹ کے الیکشن ہورہے تھے جہاں آٹھ برس سے زائد عرصے سے خانہ جنگی ہورہی ہے، آدھی آبادی ملک سے ہجرت پر مجبور ہوگئی لیکن الیکشن کے عمل کو معطل نہیں کیا گیا۔
ایسی ہی مثالیں ہمارے ہمسایہ ملک ایران کی ہیں جب ایران عراق جنگ جاری تھی لیکن الیکشن ایک مرتبہ بھی منسوخ یا معطل نہیں کیے گئے تھے۔ کورونا وباکے ہوتے ہوئے اور خانہ جنگی سے تباہ حال ملک نے نئے نمائندے منتخب کرنے کیلئے الیکشن کا انعقاد کرلیا۔ ہمارے صوبے اسے آڑھ بناتے ہوئے عوام سے نمائندگی کا حق چھیننے کے درپے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اپنی مرضی کی نئی حلقہ بندیاں بھی ایجنڈے کا حصہ بتایا جاتا ہے۔
اصل صورتحال یہ ہے کہ جمہوریت کا صرف راگ الاپا جاتا ہے اس پر عملدرآمد حقیقی معنوں میں کرنے کی جرا ت نہیں۔ ہر صورت وسائل پر قابض رہنا سیاسی جماعتوں کو خواہش اور تمنا ہے۔ بلدیاتی نظام م ثر نہ ہونے کی وجہ سے مون سون کی بارش نے کراچی کے عوام کیلئے زندگی جہنم سے بدتر بنادی ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ پاکستانی عوام بالعموم اور کراچی کے رہنے والے بالخصوص بنیادی ضرورتوں کے حصول کیلئے میڈیا میں آواز اٹھانے پر مجبور ہیں ۔
کمشنر کراچی دودھ اور گوشت کے مقرر کیے گئے نرخ پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہوگئے ہیں، اب صوبائی حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ بیوروکریسی معاونت کیلئے م ثر ہے، لیکن سیاسی نظام اور عوام کی سہولت کیلئے بلدیاتی نظام کس حد تک ضروری ہے۔ میونسپل مسائل کسی صو بائی حکومت سے حل نہیں ہوسکتے۔
کورونا میں کمی کا عندیہ دیا جارہا ہے، وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیراعلی سندھ ہا س میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اجلاس کی صدارت کی اور عیدالاضحی کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔ پاکستان میں صحت یاب افراد کا تناسب 77 فیصد بتایا جارہا ہے، جو کہ خوش آئند ہے۔
اگر چہ سندھ پولیس اور کئی کارپوریٹ اداروں کے افراد بھی کورونا کا شکار ہوئے ہیں، لیکن صورتحال میں تیزی سے بہتری آرہی ہے۔ عالمی ا داروں کی رائے ہے کہ 2021 میں اقتصادی سرگرمیاں جزوی طور پر بحال ہوسکیں گی ، اس لیے آنے والا وقت بہت مشکل نظر آرہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
مبشر میر کے کالمز
-
ہمتِ مرداں ،مددِ خدا
جمعہ 5 فروری 2021
-
دل دہلادینے والا مچھ واقعہ
پیر 11 جنوری 2021
-
کورونا وبا کی دوسری لہر میں شدت
جمعہ 27 نومبر 2020
-
(ن لیگ) کا فوج مخالف بیانیہ
جمعہ 6 نومبر 2020
-
کراچی میں اپوزیشن کا جلسہ
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
جزائر پر وفاق اور سندھ کا تنازعہ
جمعہ 9 اکتوبر 2020
-
اے پی سی میں شہری سندھ کی نمائندگی نہ ہوسکی
جمعرات 24 ستمبر 2020
-
وزیراعظم کے دورہ کراچی کی گونج
جمعرات 10 ستمبر 2020
مبشر میر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.