مریم نواز قدآور شخصیت کیسے بن گئی؟

ہفتہ 27 فروری 2021

Saif Awan

سیف اعوان

کچھ لوگوں کو حالات سیاست میں آنے پر مجبور کردیتے ہیں کچھ لوگ شغل اور ٹائم پاس کیلئے سیاست میں انٹری مارتے ہیں اور کچھ تو پیدائشی سیاستدان ہوتے ہیں۔سیاست اور صحافت کا بھی آپس میں گہرہ تعلق ہے کبھی صحافت کے سہارے کچھ لوگوں اقتدار کے ایوان میں پہنچ جاتے ہیں اور کچھ لوگ صحافت کی وجہ سے جیلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔صحافت آزاد اور غیر جانبدار ہوتو اپنی نظر کا پیمانہ برابری کی سطح پر رکھتی ہے اوراگر صحافت غلام ہویا دباؤ میں ہوتو تعصب کی عینک سے چند شخصیات کو دیکھتی ہے ۔

صحافت نے بہت سے لوگوں کو عزت و دوام بخشا ہے ۔ان میں موجودہ وزیراعظم عمران سرفہرست ہیں۔جن کوشہرت کی بلندیوں پر صحافت نے ہی پہنچایا ہے ۔
جن لوگوں کیلئے سیاست میں انٹری کے لئے حالات پیدا کیے گئے ان میں مریم نواز سرفہرست ہیں ۔

(جاری ہے)

1999میں جب سابق آرمی چیف جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹایا تو اس وقت ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نے سیاست کے میدان میں انٹری دی ۔

بیگم کلثوم نواز کی سیاست میں انٹری کوئی شوقیہ نہیں تھی وہ صرف اپنے شوہر میاں نوازشریف،دیور شہبازشریف ،بیٹے حسین نواز اور بھتیجے حمزہ شہباز کے قید میں ہونے کی وجہ سے میدان سیاست میں آئی ۔ایک طرف پاکستان میں بیگم کلثوم نواز ڈکٹیٹر مشرف کو دن رات سڑکوں پر للکار رہی تھی دوسری طرف لندن میں موجود میاں نوازشریف کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز بھی حکومت برطانیہ،امریکہ اور سعودی بادشاہ شاہ سلمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔

شاہ سلمان میاں نوازشریف کو اپنے چھوٹے بھائی کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔جنرل مشرف نے جب نوازشریف حکومت کا تختہ الٹایا تو شاہ سلمان نے اظہار ناراضگی اوراپنے غصے کا بھی کھل کے اظہار کیا تھا۔شاہ سلمان اور حسن نواز سے رابطوں کیلئے اس وقت مریم نواز نے پہلی مرتبہ اپنا کردار ادا کیا۔مریم نواز کے ذریعے ہی حسن نواز اور شاہ سلمان میاں شریف اور بیگم کلثوم نواز سے رابطے کررہے تھے۔

قصہ مختصر مریم نواز اورحسن نواز نے وہ دن بہت مشکل سے گزارے کیونکہ ان دونوں کو پہلے ایسا کوئی تجربہ نہیں تھا۔نواز شریف کی رہائی میں شاہ سلمان کا اہم کردار تھا۔شریف خاندان کی سعودی عرب روانگی کے بعد مریم نواز اور بیگم کلثوم نواز خاموش ہو گئیں اور حسن نواز لندن میں دوبارہ اپنا کاروبار سنبھالنے لگے۔پھر حالات نے کروٹ لی اور اس بار میاں نوازشریف کے ساتھ ان کے بیٹے حسین نواز نہیں بیٹی مریم نواز جیل گئیں۔

مریم نواز جیل جانے سے دو سال قبل سیاست میں کچھ حد تک متحرک ہو چکی تھیں لیکن جیسے ہی پاناما لیکس کا فیصلہ آیا مریم نواز شیرنی کی طرح میدان سیاست میں آگئی۔پھر مریم نواز جیل سے ایک بڑی قد آور سیاسی شخصیت بن کر نکلی ۔
آج ہر طرف مریم نواز کا طوطی بول رہا ہے ۔مریم نواز کی ایک پریس کانفرنس پر کئی کئی دن میڈیا پر تبصرے اور ٹاک شوہوتے ہیں ۔

مریم نواز کچھ لوگوں کی توقع کے برعکس مقبول لیڈر بن گئیں ہیں ۔کل تک جو لوگ مریم نواز پر ڈان لیکس اور نوازشریف کی سیاست ختم کے الزامات لگاتے نظر آتے تھے آج وہی لوگ مریم نواز کی لیڈر شپ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔مریم نواز نے جن حالات میں سیاست کا آغاز کیا وہ انتہائی مشکل ترین تھے ۔مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کو لگ رہا تھا کہ مریم نواز جیل سے نکلنے کے بعد دوبارہ خاموش ہو جائیں گی لیکن آج مریم نواز کا ہر لفظ بامعنی اور بامقصد بن چکا ہے۔

اس کی واضع مثال این اے 75میں ری پولنگ اور سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کرانے کے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ریماکس میں تبدیلی ہیں ۔اسی دوران سونے پر سہاگہ حمزہ شہباز کی ضمانت بھی ہے۔مریم نواز پارلیمانی سیاست میں بھی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پالیمنٹ کی بالادستی کی بات کررہی ہیں ۔
آج طاقتور دیوتا بھی مریم نواز کی عوامی طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں یہ وہی دیوتا ہیں جو کل تک نوازشریف کی جماعت کو ختم کرنے اور مریم نواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کرانے کی پلائننگ کررہے تھے آج وہ مریم نواز سے رابطے بحال کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔

دیوتاؤں کو بھی اب چاہیے کہ وہ سیاستدانوں کو سیاسی مسائل آپس میں حل کرنے دیں اور خود سیاست سے ہمیشہ کیلئے الگ کرلیں ۔کیونکہ مسلسل مداخلت سے دیوتاؤں کی عزت اور وقارمیں فرق آرہا ہے عوام طاقتور دیوتاؤں کیخلاف ہوتے جارہے ہیں۔لہذا دیوتا صرف اپنی حدود اور دائرہ کار میں رہ کر خدمات سرانجام دیں اور ملک سیاستدانوں کو چلانے دیں کیونکہ اسی میں ہی سب کی بہتری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :