”میثاق جمہوریت سے اعلان لاہور“

جمعرات 25 مارچ 2021

Saif Awan

سیف اعوان

مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کا ساتھ کبھی طویل عرصے تک قائم نہیں رہا ۔1985سے 2000 تک دونوں جماعت ایک دوسرے کیخلاف محاذ آرائی میں مشغول رہیں۔پھر لندن میں میاں نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان معاہدہ ”میثاق جمہوریت“طے پایا۔یہ معاہدہ تو یقینی طور پر اس دن ہی ختم ہو گیا تھا جس دن بینظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئی ۔

لیکن عملی طور پر یہ معاہدہ اس دن ختم ہوا تھا جس دن سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں مسلم لیگ(ن) نے تنگ آکر پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔2008سے 2013تک مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی کی حکومت کی اتحادی کے طور پر حکومت میں شامل ہوئی لیکن یہ سفر جلد ہی ختم ہو گیا۔اس کی بنیادی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی پر کنٹرول نہ پانے کی وجہ سے مسلم لیگ ن وفاق سے الگ ہو گئی۔

(جاری ہے)

مجھے ابھی بھی یاد ہے آصف زرداری جب صدر پاکستان تھے اور شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے ۔اس دوران بجلی کی مسلسل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک پہنچ گیا تھا ۔ان دنوں بجلی صرف پندرہ منٹس آتی تھی اور دو دو گھنٹے غائب رہتی تھی۔انہی دنوں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے اپنا دفتر مینار پاکستان ہی منتقل کرلیا تھا کیونکہ وہی شہبازشریف نے بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاجی کیمپ لگالیا تھا۔

ہم دو تین دوست روزانہ اس کیمپ آفس کی رپورٹنگ کیلئے جاتے تھے ۔جہاں شہباز شریف ہاتھ سے ہوا دینے والا پنکھا بھی اپنے ہاتھ میں رکھتے اور دفتر امور بھی سر انجام دے رہے ہوتے تھے۔
پھر وقت بدلا میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز اور بینظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم کی دس جماعتوں کے ساتھ ملکر معاہدہ ”اعلان لاہور“کیا ۔

یہ معاہدہ لاہور میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی رہائشگاہ جاتی امراء پر طے پایا ۔لیکن یہ معاہدہ 16مارچ کو ہی ختم ہو گیا تھا جس دن آصف زرداری نے لانگ مارچ کیلئے نواشریف کی واپسی کی شرط رکھ دی تھی۔مجھے آصف زرداری کی اس شرط پر بے حد حیرت ہوئی ۔ہر پاکستانی کو بخوبی معلوم ہے کہ نوازشریف آٹھ ہفتوں کی ضمانت پر لند ن گئے ہیں وہ جس دن دوبارہ پاکستان آئیں گے ۔

پنجاب پولیس اور رینجرز کے دستے ہمراہ لے کر ایئرپورٹ پر ان کو فوری گرفتار کرنے پہنچ جائیں گے۔نوازشریف مال روڈ پر پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے چائے تو نہیں پی رہے جو مال روڈ سے گزرتے ہوئے لانگ مارچ میں بھاگ کر شامل ہو جائیں گے۔آصف زرداری کے اس بیان کے بعد اگلے دن پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے تو واضع کہہ دیا تھا کہ افسوس ہے ہماری قیادت نے کسی اور کا دیا ہو سکرپٹ پڑھ دیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی پی ڈی ایم کا اعلان لاہور باقاعدہ دو دن قبل ختم ہوا جب بلاول بھٹو نے کہا میرا پورا خاندان کبھی سلکٹ نہیں ہوا جبکہ لاہور کا ایک سیاسی خاندان ماضی میں سلکٹ ہوتا رہا ہے۔مریم نواز نے سمجھداری سے کام لیا اور فورا اپنی جماعت کے لوگوں کو ذاتی بیان دینے سے روک دیا۔
آصف زرداری ،فریال تالپور،بلاول بھٹو ،اومنی گروپ برادران،ڈاکٹر عاصم ،آغا سراج درانی ،شرجیل میمن سب جیلوں سے باہر ہیں اور تو اور لیاری گینگ وار کا سربراہ عزیر بلوچ تیرا کیسز میں باعزت بری ہو چکا ہے ۔

جو آصف زرداری کا فرنٹ میں تصور کیا جاتا ہے ۔پھر آصف زرداری کو کونسی مصیبت پڑی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے لڑے۔آصف زرداری کو بھی معلوم ہے کہ اگر نوازشریف اور مولانا صاحب کے پیچھے لگ کر میں نے استعفے دے دیے تو سندھ حکومت بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔پھر پیپلزپارٹی ہمیشہ کیلئے سڑکوں پر ہی رہے گی۔اس لیے آصف زرداری اب آہستہ آہستہ پی ڈی ایم سے کنارہ کشی کرتے جائیں گے۔

کیونکہ وہ کسی صورت بلاول بھٹو کو جیل میں جاتا نہیں دے سکتے۔پیپلزپارٹی جو کسی وقت میں پاکستان کی سب سے بڑے اینٹی اسٹبلشمنٹ جماعت تصور کی جاتی تھی اب آصف زداری کے کنٹرول میں آنے کے بعد اسٹبلشمنٹ کی حمایتی جماعت بن گئی ہے۔جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف جن کو ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کا بندہ کہا جاتا تھا وہ اب کھل کر اسٹبشلمنٹ کی سیاست میں مداخلت کیخلاف میدان عمل میں آگئے ہیں ۔پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ سے مقتدر حلقے ہی طاقت کا محور رہے ہیں ہر کسی کو ان کے ساتھ ہی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔اب یہ آنے والے چند ماہ میں معلوم ہو جائے گا کہ نوازشریف مقتدر حلقوں سے سمجھوتہ کرتے ہیں یا اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :