فرض کریں

جمعہ 2 جولائی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

فرض کریں:اگر نوازشریف 2017میں وزارت عظمیٰ سے نہ ہٹائے جاتے تو آج سی پیک کہاں تک پہنچ چکا ہوتا ۔نوازشریف نے 1998میں پہلی موٹروے مکمل کی جب نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے تو انہی کے دور میں ہی ایم 9تک موٹرویز پہنچ چکی تھیں۔سی پیک میں موٹرویز،ایئرپورٹس اور ایم ایل ون کے منصوبے شامل تھے۔سی پیک کے تحت ملک بھر میں نو نئے ایئرپورٹس بننے تھے جن میں ایک اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ نوازشریف کے دور میں ہی مکمل ہوگیا۔


فرض کریں:اگر نوازشریف وزیراعظم ہوتے تو آج پاکستان کی معاشی حالت خطے کے دیگر ممالک سے کئی گنا بہتر نہ ہوتی۔مجھے ابھی بھی یاد ہے 2017میں ہم پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن چیمبر میں بیٹھے تھے ۔ابھی نوازشریف کیخلاف پاناما لیکس کا فیصلہ نہیں آیا تھا۔

(جاری ہے)

میں ایک اردو اخبار کی خبر پڑھ کر اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کو سنا رہا تھا کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک خبر دی کہ جس انداز سے پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے اگر اسی صورتحال کے مطابق معاشی رفتار جاری رہی تو 2025تک پاکستان دنیا کی دس بڑی معاشی طاقتوں کے برابر کھڑا ہوگا اور پاکستان کے 2018کے انتخابات میں نوازشریف کی جماعت دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی۔

لیکن شاید نیویارک ٹائمز اخبار میں اداریہ لکھنے والے کو معلوم نہیں تھا کہ یہاں گراؤنڈ سیٹ کی جاچکی ہے اور آر ٹی ایس بیٹھانے کا منصوبہ تیار ہوچکا ہے۔
فرض کریں:اگر 2018کے الیکشن ڈے پر آر ٹی ایس نہ بیٹھتا تو آج عمران خان وزیراعظم نہ ہوتے اور وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کا ہوتا تو عمران خان آج پھر روزانہ پاکستان کی کسی سڑک پر دھرنہ دیے بیٹھے ہوتے ۔


فرض کریں: وزیراعظم کے الیکشن سے پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار 26حلقوں کی دوبارہ گنتی کا عمل نہ روکتے تو آج عمران خان وزیراعظم نہ ہوتے کیونکہ الیکشن ڈے کے فوری بعد 36قومی اسمبلی کے حلقوں کو دوبارہ کھولنے کی درخواستیں الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی جن میں سے صرف ابھی دس حلقے ہی کھولے تھے جہاں سے تحریک انصاف کے زیادہ لوگ کامیاب ہوئے تھے۔

ان دس حلقوں میں سے صرف ایک سیٹ پر ہی تحریک انصاف کا امیدوار کامیاب ہوا۔یہ امیدوار موجودہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری ہیں جو اس وقت سپریم کورٹ سے دوبارہ سٹے پر قائم ہیں۔
فرض کریں:اگر وزیراعظم کے الیکشن میں آصف زرداری عمران خان کے مقابلے میں شہبازشریف کو ووٹ دیتے تو آج عمران خان وزیراعظم نہ ہوتے۔لیکن آصف زرداری نے عمران خان اور شہبازشریف کے مقابلے میں اپنا امیدوار خورشید شاہ کو نامزد کیا۔

پھر اسی طرح صدر کے الیکشن میں آصف زرداری نے عارف علوی اور مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں اپنا امیدوار اعتزاز احسن کھڑا کیا۔پھر سب سے نے دیکھا عمران خان وزیراعظم بنے،عارف علوی صدر اور ان سب کے باوجود آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور اور خورشید شاہ کو جیل بھی جانا پڑا۔خیر آصف زرداری اور فریال تالپور سے جیل سے باہر آگئے لیکن خورشید ابھی بھی جیل میں ہیں ۔

یہاں ایک اور مزے کی بات ہے خورشید کاغزوں مں جیل میں ہیں لیکن وہ دو سال سے سندھ کے ایک سرکاری ہسپتال میں زیر علاج بھی ہیں۔
فرض کریں:اگر نوازشریف اپنے دور حکومت میں بجلی کے منصوبے مکمل نہ کرتے 11ہزار کے قریب میگاواٹ بجلی کی پیدوار نہ بڑھاتے تو آج ملک میں لوڈشیڈنگ کا کیا عالم ہوتا؟لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ نوازشریف اور شہبازشریف نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھالوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ نوازشریف نے ملک سے دہشتگردی بھی ختم کردی۔

شاید اگر کچھ لوگوں کی یاداشت تیز ہوتو ان کو یاد ہوگا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم نے امریکہ کا سات دن کا طویل ترین دورہ کیا تھا ۔اس دورے کے دوران راحیل شریف کو امریکہ نے شمالی وزیرستان آپریشن کیلئے 7ارب ڈالر دیے ۔اب معلوم نہیں یا سات ارب ڈالر کی رقم سے سویلین انتظامیہ کو بھی کوئی ایک ڈالر بھی ملا یا یا اکیلی فوجی قیادت نے ہی استعمال کیا۔

خیر جو بھی ہوا لیکن ملک سے دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی۔دو دن قبل ٹویٹرپر ایک ”سیانی کڑی “نامی کے اکاؤنٹ سے آصف زرداری دور کی لوڈشیڈنگ کے متعلق ٹویٹ کی گئی جس کے جواب میں میں نے ان کو بتایا کہ مجھے ابھی بھی یاد ہے ہم آفس جانے کی بجائے سب سے پہلے مینار پاکستان ہر روز پہنچتے تھے کیونکہ وہاں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاجی کیمپ لگایا ہوتا تھا شہبازشریف اپنے دفتر کام بھی وہی سر انجام دیتے تھے۔


فرض کریں یا اب نہ کریں موجودہ صورتحال میں سب آصف زرداری دور کے بحران دوبارہ واپس کیوں آرہے ہیں ۔”مہنگائی،غربت،بیروزگاری،لوڈشیڈنگ،دہشتگردی،عالمی تنہائی،سیاسی عدم استحکام اورپکر دھکڑآصف زرداری کے دور میں بھی عروج پر تھی اور آج عمران خان کے دور میں بھی وہی بحران عروج پر ہیں ۔جبکہ تک ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا ملک میں ایسے ہی بحران جنم لیتے رہیں گے۔فی الحال عمران خان کو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں ہے کیونکہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا ان کی انا کا مسئلہ ہے ۔جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں وہ نہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھیں گے اور نہ یہ بحران ختم ہو نگے۔عوام جیسے تیسے بھی باقی دو سال صبر شکر کرکے گزارلیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :