اتحادیوں کی سیاست اور سیاسی ذمہ داری

جمعہ 31 جنوری 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیر اعظم عمران خان نے سیاسی بحران اور عدم استحکام سے بچنے کیلئے اپنی پارٹی کے منتخب نمائندوں اور اتحادیوں سے براہ راست رابطے کیے۔ کے پی کے، پنجاب اور بلوچستان میں حکمران جماعت کے اندر اور اتحادیوں کے ساتھ اختلافات سامنے آئے تو وزیر اعظم نے سیاسی انداز اپنایا، پنجاب میں اراکین اسمبلی سے ملاقات کی اور عثمان بزدار کے حق میں یکطرفہ فیصلہ سنا دیا۔

کے پی کے میں 3وزرا صوبائی کابینہ سے الگ کر دیے گئے، اس طرح بلوچستان نے بھی وزیر اعلیٰ جام کمال اور صوبائی سپیکر عبدالقدوس بزنجو کے درمیان سیاسی انداز میں سیز فائر ہوا۔ ق لیگ، اور ایم کیو ایم سے بھی معاملات طے پانے کی اطلاعات ہیں۔ تبدیلی سرکار میں سیاسی معاملات پریشر گروپ اور تینوں وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی کی خواہش اور حکومتی کار کردگی کے حوالے سے اختلافی بیانات تک پہنچ چکے تھے۔

(جاری ہے)

اس لئے حکومت کا بر وقت معاملات کو کنٹرول کرنا ضروری تھا۔ وقتی طور پر سیاسی درجہ حرارت کسی حد تک کم ضرور ہوا ہے۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ اور جی ڈی اے سے معاملات کس حد تک خوش اسلوبی سے طے پائے ہیں۔ مصالحت کی کوششیں کیا رنگ لاتی ہیں۔۔؟ کیا حکمران پارٹی کو صرف مزید وقت حاصل ہوا ہے یا سیاسی استحکام بھی آئے گا۔

اتحادیوں کی خواہشات پوری کرنا آسان نہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کی خبریں بھی مسلسل آتی رہتی ہیں۔ قیاس آرائیوں کا بازار بھی ہمیشہ ہی گرم رہتا ہے۔سب سے بڑھ کے پاکستان میں سیاسی حمایت کو مخالفت میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔یہ تو آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ حکومت کو کیا حاصل ہو ا۔ مگر ڈیڑھ سال کے قلیل عرصہ میں عام پاکستانی حکومت سے مایوس ہی نظر آتا ہے۔


مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے سیاسی بصیرت اور لچکدار رویے سے اپنی مدت اقتدار تو ضرور مکمل کر لی لیکن اس جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کی وجہ سے عوامی حمایت قائم نہ رکھ سکے۔یہ سیاسی تاریخ کا سبق ہے معاملات کو سلجھانا اور حکومت کو چلانا ایک کٹھن کام ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج تک بجلی کے بحران کے حوالہ سے اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔

راقم الحروف انہی سطور میں حقائق کی روشنی میں بجلی کے بحران کا ذمہ دار 1996ء میں بر سر اقتدار نواز شریف اور مشرف کو متعدد با ر لکھ چکا ہے۔اس کے باوجود اکثریت حقائق کو سمجھنے اور تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ تبدیلی سرکار ناکام ہوتی جارہی ہے۔ یہ موجودہ حکومت کے لیے اچھا نہیں۔جتنی جلدی ہو اس تاثر کو زائل کرنا ہوگا۔


 یہ بھی تلخ حقیقت ہے پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان نے مفاہمت کو کچھ اس طرح بدنام کیا کہ اسے گالی بنا کر پیش کیا گیا۔ آصف علی زرداری اور نواز لیگ کے اقتدار کی پانچ پانچ سالہ ٹرم پوری ہوئی وہ مفاہمت تھی یا باریاں تھیں، مک مکا تھا یہ سب ماضی ہے، اب تبدیلی سرکار اتحادیوں کے ساتھ بر سر اقتدار ہے۔عمران خان سیاسی رویوں کی بجائے اخلاقی بنیادوں پر دعوے کیا کرتے تھے۔

جب ق لیگ اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملانا پڑا تو اخلاقی دعووں کی تو قلعی کھل گئی اور اپنے سیاسی فیصلوں کو درست ثابت کرنے کیلئے میرے کپتان نے یو ٹرن کو ضروری قرار دے دیا۔ابھی تو عمران خان کو نظام حکومت چلانا ہے قوم کو ڈیلیور کیا کرتے ہیں اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ خوش قسمتی سے آج تمام ملکی ادارے مکمل طور پر آئینی حدود کے اندر عمران خان کے ساتھ ہیں۔

حکومت کو ڈیلیور کرنا ہے تو سیاسی استحکام ضرور ی ہے۔مسلم لیگ ق کے صدر چوہدر ی شجاعت حسین نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ مخلص ہیں، نیک نیتی کے ساتھ چل رہے ہیں، ہمیں عہدوں یا وزارت کی ضرورت نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک معاشی طور پر مضبوط ہو اورملک پر چھائے ہوئے مہنگائی کے بادل چھٹ جائیں۔
وفاقی حکومت کے صوبوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن درست ہوں گے تو چاروں صوبوں میں موجودہ ایماندار حکومت کے آنے کے ثمرات یکساں طور پر میسر آئیں گے۔

الزامات کی سیاست سے وقت گزارا جا سکتا ہے بہتری نہیں آ سکتی، عوام بہتری چاہتے ہیں اب سیاسی تناؤ یا الزامات سے معاملا ت زیادہ دیر نہیں چلائے جا سکتے۔ ایک طرف معاشی صورتحال دن بدن دگرگوں ہوتی جا رہی ہے مہنگائی، اشیائیضرورت کی قلت اور منصوبہ بندی میں کمزوری واضح محسوس کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کے وزیر اعظم کو غلط بریفنگ کی باتیں سامنے آتی ہیں۔

سندھ واحد صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہے۔ متعدد بار سندھ میں گورنر راج اور سندھ کو فتح کرنے کی سیاسی باتیں ہوتی رہیں۔اس تمام صورتحال کا نقصان بالخصوص کراچی اور سندھ کی عوام کو ہو رہا ہے وہاں کراچی میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے خود پریشان ہیں۔ پیپلز پارٹی نے غیر محسوس طریقے سے کراچی میں کام کیااور پیپلز پارٹی کی پوزیشن پہلے سے بہترہوئی ہے۔

پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے بھی اتحاد کی بات کی اورپی ٹی آئی کی وفاقی حکومت سے محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کی۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کراچی کے موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ائیر پورٹ پر انکا استقبال کیا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے اچھی ورکنگ ریلیشن شپ کا خوشگوار آغاز ایک ہی ملاقات کے بعد بے یقینی کا شکار ہو گیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے وفاق اور سندھ کے درمیان آئی جی سندھ کے تبادلے پر حامی بھری تو اگلی ہی ملاقات میں جی ڈی اے کے مطالبات کے سامنے بے بس نظر آئے اور آئی جی کے تبادلے کا معاملہ ڈیڈ لاک کا شکار ہو گیا۔اسلا م آباد اور پنجاب میں آئی جی کی تعیناتی اور تبدیلی معمول کی بات ہے جبکہ صوبہ سندھ میں پی ٹی آئی نے اس کام کو بھی ایک مسئلہ بنا دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے اس مسئلہ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا یہ ایک نہیں دو پاکستا ن ہیں یہ ایک اور مثال ہے نیا پاکستان ایک مذاق ہے۔وزیر اعظم نے آئی جی اسلام آباد کو غیر قانونی احکامات نہ ماننے پر تبدیل کر دیا تھا دوسری طرف سندھ کے منتخب نمائندوں نے سنیارٹی کی بنیاد پر حکومت کو پانچ نام بھجوائے تو وزیر اعظم اپنا کام نہ کر سکے۔


آئی جی کی تقرری وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے ایسے موقع پر جب آئی جی بڑے اعتماد میں کہیں میں جانے والا نہیں اپنی مرضی سے جاؤں گا اور اونچی جگہ جاؤں گا۔پھر ایسا ہی ہو۔اس مسئلہ کا حل نہ ہونا پی ٹی آئی کے سیاسی دیوالیہ پن کو واضح کرتا ہے۔ اتحادی حکومت کو بچانے کیلئے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا ضروری ہے لیکن نظام کو بچانا اور عوام کو ڈیلیور کرنا سیاسی ساکھ بچانے کیلئے اس سے بھی ضرور ی ہے۔

جی ڈی اے سندھ میں عوامی طاقت نہیں رکھتی جبکہ سندھ میں چند با اثر سیاسی وڈیروں کا سیاسی گروپ ہے،اس کے سامنے وزیر اعظم کا بے بس نظر آنا جمہوریت اور جمہوری نظام کیلئے بہتر نہیں۔اب بھی وقت ہے عمران خان وزیر اعظم پاکستان بنیں اور سیاسی اتحاد کو عوامی مفاد کیلئے استعمال کریں تا کہ عوام کا جمہوریت پر اعتماد بڑھے۔عوامی مسائل حل ہو سکیں۔سیاست تو چلتی رہیگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :