''وعدے، ترجیحات اورحقائق''

بدھ 9 ستمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وطن عزیز میں سیاسی پروگرام اور منشور کو اہمیت نہیں دی جاتی، اس لیے سیاسی جماعتیں نعروں اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی پر ہی اپنی سیاست کو آگے بڑھاتی ہیں۔اسی آصول کے تحت پی ٹی آئی نے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔نعرہ تھا تبدیلی، اور بیانیہ تھا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں کرپٹ ہیں۔ تبدیلی کا مطلب سیاسی وابستگی تبدیل کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت اور کرپشن کے خلاف بیانیہ صرف اپوزیشن کا احتساب۔

عمران خان کے برسر اقتدار آتے ہی یہ تاثر مضبوط ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تبدیلی سرکار نے دو سال میں عام آدمی کے لیے کچھ نیا بھی نہیں کیا۔ تاحال پی ٹی آئی اپنے سیاست وعدوں اور اپوزیشن کے خلاف سخت موقف پر ہی قائم ہے۔
تبدیلی سرکار کی حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر اپوزیشن یا کسی تجزیہ نگار کی رائے ایک طرف رکھیں۔

(جاری ہے)

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے ٹھوس اقدامات کا آغاز کردیاہے۔

بعض پراجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں اور بعض پر کام تیزی سے جاری ہے۔نئے قرضوں کے لیے 20ارب روپے مختص کر دیئے، 7نئی یونیورسٹیاں،13اقتصادی زونز، 6نئے ہسپتال قائم کر رہے ہیں۔لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر اظہار اطمینان کیا۔ نیا پاکستان ہاوسنگ سیکم، صحت انصاف کارڈ، یوتھ لون، بلین ٹری، وزیراعظم عمران خان کی یو این او میں شاندار تقریر، یہ ہے پی ٹی آئی کی دوسالہ کارکردگی اور وعدوں کی تکمیل کی امید، جینے کے لیے سب سے بہتر طریقہ گھبرانا نہیں۔


اظہار تشکر کی ایک قرار داد میں پنجاب حکومت کی دو سالہ کارکردگی کو وزیر اعظم عمران خان کے وژن کی عکاس قرار دیا گیا۔جب کہ حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔
وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے صوبہ پنجاب میں 2سال کے دوران5 آئی جی پولیس تبدیل ہوئے۔ پولیس ریفارمز, تھانہ کلچر کی تبدیلی غیر سیاسی پولیس ایسا کچھ ممکن نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی سے وابستہ ایک طبقہ تو اس حد تک تبدیلی پر یقین رکھتا تھا کہ جب عمران خان آئے گا تو اگلے روز ہی بیرون ملک سے سرمایہ آئے گا۔

ملکی قرضے ختم ہوجائیں گے۔ بیرون ملک سے لوگ روزگار کے لیے پاکستان آئیں گے۔ایک کروڑ نوکریاں، پچاس ہزارگھر، کفایت شعاری ہوگی۔وزیر اعظم سائیکل پر آفس آیا کرے گا۔ وی آئی پی کلچر ختم، ٹرین حادثہ کے نتیجہ میں وزیر فوری استعفی دے گا۔دو سو قابل افراد ہیں جو پاکستان کو بدل دیں گے۔ کوئی کرپٹ نہیں بچے گا۔کرپٹ عناصر جیلوں میں ہونگے۔تعلیم عام اور مفت ہوگی۔

گویا ریاست مدینہ قائم ہوگی۔
 دوسال میں ہوا کیا۔۔۔عام آدمی بہتر جانتا ہے۔اب وزیراعلی کی طرف سے جاری کردہ سینکٹروں صفحات پر مشتمل کارکردگی رپورٹ کو پڑھے گا کون۔۔۔۔؟
منشور، پروگرام اور کارکردگی پر سیاسی قیادت کو پرکھنے کی تو روایت ہی نہیں۔دلفریب نعرے، مخالفین کی بہتر انداز میں تضحیک اور اقتدار میں شامل رہنے کے خواہش مند مقامی بااثر افراد کی حمایت سے اقتدار کا حصول آج بھی ممکن ہے۔

ووٹ کو عزت دینے کا ن لیگ کا بیانہ کتنا دلفریب ہے جبکہ ن لیگ کی سیاست ووٹ کی بجائے اقتدار ہی کی رہی۔حصول اقتدار کے لیے آئی جے آئی تشکیل ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت سب من بھاتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کی غیر آئینی حکومت اسلامی جبکہ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار جمہوریت پر شپ خون ہے۔5جولائی توبہترین دن مگر 12اکتوبر ظلم کی داستان ہے۔

اس طرح کی سیاست میں سیاسی پروگرام کہاں اور منشور کی کیا
 حیثیت۔۔؟ یہ ہے ہماری سیاست کا گھن چکر۔کراچی ڈوب گیا تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ وہاں پہنچ گے اورکراچی کے عوام کے مسائل سنے۔ ریلیف کے لیے پاک آرمی سب سے آگے رہی۔ دوسری طرف سیاست کے علمبرداروں نے کراچی کے پانی میں خواہشات کے مگر مچھ تک چھوڑ دیے۔ سیاسی الزام تراشی کا طوفان امڈ آیا۔

وزیر اطلاعات شبلی فراز سندھ حکومت کو پیسے دینے پر تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کو بلدیاتی اختیارات کی کمی کا شکوہ رہا۔ نیب میں پیش ہونے سے قاصر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سیاسی ملاقات کے لیے کراچی جا پہنچے۔ بالآخر وزیراعظم عمران خان کو بھی کراچی کا دورہ کرنا پڑا۔شہر قائد سے 14نشتیں جیتنے والے عمران خان وہاں 14گھنٹے بھی نہ رکے۔پیکج کا اعلان ہوا پھر وفاق اورسائیں سرکار کے درمیان تلخ و شیریں بیانات کا سلسلہ جاری رہا۔ شو مئی قسمت وعدے سب سیاسی، ترجیحات میں اقتدار سرفہرست اور حقائق صرف تلخ یہ ہے ہماری سیاست۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :