''ملکی سیاست اور انتخابی اتحاد''

منگل 29 جون 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان میں کثیر الجماعتی سیاسی نظام ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس سینکڑوں سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔موجودہ سیاسی منظر نامہ میں پنجاب میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ(ن) اور الیکٹبیلز، سندھ میں پی پی پی اور لسانی گروپس،کے پی کے میں پی ٹی آئی، جے یو آئی اور اے این پی جبکہ بلوچستان میں باپ اور سیاسی شخصیات طاقتور ہیں۔ قومی سطح پر کوئی بھی جماعت تنہا الیشکن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت بھی سیاسی اتحاد کے نتیجہ میں قائم ہے۔ اتحادی صرف حکومت تک حکمران جماعت کے ساتھ ہی رہیں گے۔ الیکشن سے قبل نئے اتحاد بنتے اور موجودہ اتحاد ختم ہوتے نظر آرہے ہیں۔2023ء کے الیکشن کے نتائج یکطرفہ طور پر کسی جماعت کے حق میں نہیں ہونگے۔
الیکشن سے قبل طاقتور سیاسی شخصیات کی جماعتی وابستگیاں بھی تبدیل ہونگی۔

(جاری ہے)

مستقبل کی سیاست میں ہونے والی یہ تبدیلیاں آئندہ کی حکمران جماعت کی طرف اشارے ثابت ہونگی۔

نئی سیاسی بساط پر چہرے مہرے آگے پیچھے ہونگے ان سیاسی چالوں کو بروقت سمجھتے ہوئے پاکستانی سیاست کے سب سے سنجیدہ کردار آصف علی زرداری متحرک ہوچکے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری پاکستان کی اتحادی سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ مفاہمت اور مختلف الخیال شخصیات کو ساتھ لیکر چلنے کا بہترین تجربہ رکھتے ہیں۔پنجاب میں سردار ذوالفقار علی کھوسہ اور منظور وٹوسے معاملات طے ہوچکے ہیں۔

پی ٹی آئی میں آصف علی زرداری کے بہت سے پرانے دوست موجود ہیں جو وقت پر متحرک ہونگے۔ جہانگیر ترین فیکٹر بھی پنجاب میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔پی پی پی کی قیادت سب کے ساتھ رابطہ میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کی سطح پر اپنی تنظیم اور اپنے ووٹ بنک
کے سہارے کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے اس لیے بڑے نام اور نئے چہروں کو شامل کرنیکے بعد ہی ووٹرز کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

اسی پالیسی پر پنجاب میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ آصف علی زرداری کے لاہور میں قیام اور ملاقاتوں کے نتائج آئندہ چند دنوں میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری آزاد کشمیر کی الیکشن مہم میں اپنی توانا?یاں لگا رہے ہیں۔ ماضی کی روایت ہے مظفرآباد میں حکومت اسی کی بنتی ہے جو اسلام آباد میں موجود ہو۔ اس تاریخ کو بدلنے کی کوشش ضرور ہوگی۔

اگر پی پی پی بہتر نتائج حاصل کر نے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کے اثرات پنجاب میں بھی پڑیں گے۔ پی پی پی کی قیادت نے عوامی طاقت کو بڑھانے کا ٹاسک بلاول بھٹو اورآصفہ بھٹو کے سپرد کیا ہے جبکہ آصف علی زرداری اہم سیاسی شخصیات پر توجہ مرکوز کیے ہوِئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت ابھی تک دو مختلف بیانیوں کے ساتھ تقسیم ہے۔ ایک طرف نواز شریف اور مریم نواز ہیں جو صرف احتجاجی سیاست کو کامیابی سمجھتے ہیں۔

مزاحمتی سیاست سے مفاہمت کی سیاست کا راستہ بنانے کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں محاذآرائی سے بچ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔فی الوقت ن لیگ تقسیم ہے۔ عدالتی ریلیف ن لیگ کے لیے بہت اہم ہے اسکے بعد ہی قیادت کسی ایک طرف لگ سکتی ہے۔ اسی منتشر سیاسی سوچ نے پی ڈی ایم کو ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن کی کامیابی کے بعد غیر موثر کردیا۔

اب موجودہ حکومت کورخصت کرنے کا وقت گزر گیا۔
ملکی سیاسی قیادت کے لیے اب 2023ء کا الیکشن ہی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ سیاسی تقسیم اور نظریاتی سیاست کے کمزور سے کمزرو ہوتے اس ماحول میں کامیابی کا واحد راستہ اب سیاسی اتحاد ہی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی اتحاد کی نسبت انتخابی اتحاد زیادہ کامیاب رہے۔ میاں نواز شریف بھی ایک انتخابی اتحاد آئی جے آئی کی تشکیل کے بعد عوامی لیڈر بنے۔

نوے کی دہائی میں پی پی پی اور اینٹی بھٹو سیاست تھی۔ آج حالات بہت مختلف ہیں ایک جماعت یا اسکا لیڈر پاپولر ووٹ بنک کے ذریعے اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا۔ نواز شریف یا مریم نواز، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں لیڈر شپ ضرور موجود ہے۔ پاکستان میں اب ایک جماعت کی کامیابی ممکن نہیں۔
موجودہ سیاسی منظر نامہ میں متقدر طاقتوں کی حمایت بھی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوسکتی اس لیے پاپولر ووٹ کے ساتھ سیاسی مفاہمت ضروری ہے۔

اس طرز سیاست کے ماہر آصف علی زرداری نے دورہ لاہور کے دوران عام انتخابات سے بہت پہلے ہی پنجاب میں اینٹی (ن) لیگ اتحاد کے لیے ابتدائی ہوم ورک کا آغاز کردیا ہے۔ سب سے اہم پیش رفت حکومتی اتحادی ق لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الہی سے ملاقات ہے۔ پرویز الہی اور آصف علی زرداری کو اکھٹے کام کرنے کا تجربہ ہے اور دونوں سنجیدگی سے سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔

کسی بھی سیاسی حریف کے ساتھ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی کی حد تک لیکر نہیں جاتے۔وضع داری انکی سیاست کا خاصہ ہے۔ زرائع کے مطابق(ق) لیگ حکمران جماعت سے آئینی مدت تک اتحاد برقرار رکھے گی۔اسکے بعد ن لیگ کے خلاف اتحاد کا حصہ ہونگے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ٹی آئی اور انکے ووٹر کا انحصار عمران خان کی کرشماتی شخصیت پر ہی ہوگا۔ اس سوچ کے حامل پی ٹی آئی کے فیصلہ ساز اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ 2018ء میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اور جہانگیر ترین فیکڑ کا کردار سب سیاہم تھا۔

جبکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہیوی ویٹ جہانگیر ترین ہی کامیابی کی اصل وجہ تھے۔ 2023میں پی ٹی آئی اس حمایت سے محروم ہی رہے گی۔ کیونکہ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ صوبہ کا متبادل نہیں۔ پنجاب میں جہانگیر ترین اور پرویز الہی فیکٹر ہی فیصلہ کن ہوگا۔ باقی پی ٹی آئی اور ن لیگ پاپولر ووٹ بنک کے سہارے عددی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں جماعتوں سے اہم شخصیات پی پی پی کا رخ کریں گء۔

آصف علی زرداری اس یقین کے ساتھ لاہور سے رخصت ہوئے۔ اس اعتماد کی سیاسی وجوہات بھی سمجھ آتی ہیں۔
حتمی رائے یا کامیابی کا تجزیہ ابھی قبل از وقت ہے لیکن پنجاب میں پی پی پی نے جس انتخابی اتحاد کے لیے ابتدائی ورک کیا وہ مستقبل کی سیاسی سمت کے عین مطابق ہے۔ عدالتی فیصلے اور حکومتی اقدامات بھی سیاسی منظر نامہ کی تبدیلی میں اہم ثابت ہونگے۔

فی الوقت یہی حقیقت ہے کہ سیاسی اتحاد کا وقت گزرگیا اب پی ڈی ایم اور جلسے جلوس اہم نہیں رہے۔ انتخابی اتحاد ہی سیاسی کامیابی کے پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ پاپولر ووٹ بنک کے ساتھ سیاسی تعاون ضروری ہوگا جس کو سیاسی تعاون حاصل رہا کامیاب رہے گا۔
2023میں ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پی پی پی اپنے قابل ذکر ووٹ بنک کے باوجود انتخابی اتحاد سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتیں اس لیے جو جتنی جلدی اپنے معاملات طے کرلے گا فائدے میں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :