شکوہ جواب شکوہ

بدھ 1 جولائی 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
بات ایسی تو نہیں کہ جس پر طوفان برپا کیا جائے اور جب محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کی طرف سے معذرت کر لی جائے تو پھر اس پر کیا لکھنا مگر اس پر لب کشائی کی وجہ حقائق سے پردہ اُٹھانا مقصود ہے تاکہ اس غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔

مگر شکوہ جواب شکوہ تو ہم نے شاعرِ مشرق سے سیکھا ہے جو شہر لاہور کی دانش گاہ سے تعلیم حاصل کر کے پوری قوم کو شعور و آگہی بخش گئے۔ اب اگر محترمہ کی طرف سے شکوہ کیا گیا ہے تو لاہوری خون فشار کا شکار تو ہوگا۔ مگر انتہائی ادب کے ساتھ ڈاکٹر صاحبہ سے التماس ہے کہ ہم اس بات کو دل سے مانتے ہیں کہ آپ کی لاہور یوں کے لیے گراں قدر خدمات ہیں اور آپ نے بہت ہی درد دل کے ساتھ ان الفاظ کا استعمال کیا ہو گا کیونکہ یقیناً آپ کو لاہور سے اُسی طرح محبت ہو گئی جیسے کسی بھی محب وطن پاکستانی کو ہونی چا ہیے، اس بات میں بھی صداقت ہے کہ لاہور میں کورونا کا معاملہ بہت سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے اور لاہور میں بہت ہی بے احتیاطی بھی برتی گئی ہے مگر میرا موقف ذرا سا مختلف ہے میرا خیال ہے کہ لاہور میں دوسرے شہروں سے لوگوں کے آنے جانے کی وجہ کچھ اثرات مرتب ہو ئے ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ ہی نے تو عدالتی حکم پر عمل پیرا ہو کر لاک ڈاؤن کھولا تھا اور اس کے کھولنے کے اثرات تو ہونے ہی تھے۔

(جاری ہے)


پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کھولنے کے بعد کورونا کی دوسری لہر کے آنے کے شواہد واضع طور پر دیکھے گئے ہیں۔ اس کی مثال ایران کی ہے جہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کورونا کی دوسری لہر نے بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح امریکہ اور اٹلی یہاں تک کہ برطانیہ میں بھی دوسری لہر کے خدشات کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ساری قومیں جاہل ہیں اور ان کو کسی بھی طرح اس کا ادرک نہیں۔

اس کے علاوہ آپ نے اس بات کا جو جواز پیش فرمایا تھا اس کے لیے آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ غلط یا سازشی تھیوریاں بیرون ملک سے پھیلائی جا رہی ہیں ابھی حال ہی میں کورونا کے حوالے سے غلط تھیوریاں پیش کرنے پر برطانیہ نے چند اسرائیلی چینلز پر پابندی عائد کی ہے ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کام لاہور سے نہیں بلکہ کہیں اور سے ہو رہا ہے اس لیے سنی سنائی باتوں کی بجائے تحقیق سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور آپکو اپنی خبر رساں ایجنسیوں کو فا ل بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ آپکو حقائق کا علم ہو سکے۔


 اب یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ آپ کی حکومت نے عوام کو ایجوکیٹ کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اور ان حالات سے نمٹنے کے لیے کس طرح کی تیاری کی ہے۔اور ہاں آپ کی وہ ’ٹائیگرفورس‘ آج کل کہاں ہے؟ سوالات اور بھی ہیں جن کو تفصیل سے ذرا آگے چل کر زیر بحث لا ئیں گئے۔
اب اگر محترمہ آپ اپنے الفاظ واپس لے لیتیں تو یقین جانیے لاہور یوں کا دل بہت بڑا ہے آپکی معذرت نہ تو درکار تھی اور نہ ہی مسیحا سے ہم معذرت کے کبھی طلب گار تھے کیونکہ لاہور ئیے آپکی خدمات کو کبھی پس پشت نہیں ڈالیں گے اور ویسے بھی یہ الفاظ اگر کسی اور نے کہے ہوتے تو شاید لاہور یوں کے لیے واقعی نا قابل برداشت ہوتے مگر آپ نے ایک مسیحا کی حیثیت سے مسیحائی کی ہے اور اپنی محنت اور لہو سے جو گلشن کی آبیاری کی ہے اس کا احسان چکانا مشکل بھی ہے اور نا ممکن بھی۔

آپ تو لاہوریوں کو جانتی ہیں کہ ان میں بلا کا حو صلہ بھی ہے اور دریا دلی بھی کیونکہ اس شہر میں کو ئی کہیں سے بھی تشریف لائے، زندہ دلانِ لاہور اُس کے لیے دروازے کھول دیتے ہیں۔ کیا کمال لوگ ہیں جناب۔ اس شہرمیں پورے ملک سے لوگ آکر بستے ہیں۔ یہ داتا گنج بخش او ر بی بی پاک دامن کا شہر ہے ان سب کے لیے اپنے دامن میں ایثار رکھتا ہے، محبت رکھتا ہے، بھائی چارہ رکھتاہے، اخوت رکھتاہے ، اس کے ساتھ ساتھ نیک نیتی سمیٹے ہوئے ہے۔

پاکستان کے لیے1940ء کی قرارداد کا امین ہے اور پاکستان کی بنیاد کا مؤجب اور اسلام پسندی کا گہوارہ ہے کہ جہاں جامعہ پنجاب بھی ہے اور جامعہ اشرفیہ بھی جہاں جامعہ المنتظر بھی ہے تو جامعہ لاہور بھی اور سب سے بڑھ کر اس شہر میں انسانیت موجودہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ اس عظیم شہر کی لازوال تاریخ ہے، اس شہر نے کبھی باہر سے آنے والوں کے لیے دروازے بند نہیں کیے بلکہ اپنے دل کو مزید وسیع اور اپنی پلکوں کو فرشِ راہ کیا ہے۔

کسی بھی آنے والے مسافر یا مہاجر پر زمین تنگ کرنے کی بجائے اپنے پنکھ کھول کر اور بڑھا لیے تاکہ کوئی پاکستانی مایوس نہ ہو، یہ شہر زندہ دلان کا شہر ہے اس میں سب ہم وطنوں کے لیے اُتنی ہی گنجائش ہے کہ جتنی و سعت دلوں کی زمین ہونی چاہیے۔یہ شہر مہمان نوازوں کا شہر ہے اسی شہر نے بے شمار ذی شعور اور قابل لوگ پیدا کیے ہیں کہ جن میں شورش کا کشمیری، نواز شریف، عمران خان، حامد میر، وسیم اکرم کا نام سر فہرست ہے اس کے علاوہ اور بہت سے لوگ ہیں کہ جن کا نام تاریخ میں رہتی دنیا تک سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

یہ شہر ہمیشہ سے ہی علم و دانش کا مرکز رہا ہے۔چاہے وہ تُرکوں کا دور ہو یا مغلوں کا، علمی حوالے سے اس شہر کی ایک الگ ہی پہچان رہی ہے۔اس شہر کے پڑھے لوگ نہ صرف پاکستان کے کونے کونے بلکہ دُنیا بھرمیں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے رہنے والوں نے کبھی پٹھان، بلوچی، سندھی اور پنجابی کی آواز بلند نہیں کی بلکہ اپنی زبان تک قومی زبان پر نچھاور کر دی ۔

آج بھی لاہور میں رہنے والا ایک ایک فرد پنجابی بولنے کی بجائے اُردو زبان بولنے کو اہمیت دیتا ہے۔
اس شہر کے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کی طرح اس کا مزاج اپنے آنے والوں کے لیے شجر سیایہ دار کی طرح ہے کہ جس کی ٹھنڈک میں بیٹھ کر ہر آنے والا اس کا اثیر ہو کر رہ جاتا ہے۔
محترمہ یاسمین راشدہ صاحبہ!ہم نے تو آپکا انتخاب کر کے اپنی جہالت مان لی مگر اب آپ بھی مان لیجئے کہ آپ کی حکومت نا اہل ہے آپ کی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ملک آج اس مقام تک پہنچا ہے۔

اگر آپ نے ہیلتھ اور تعلیم کے شعبہ میں کو ئی خاطر خواہ کام کیا ہوتا تو پاکستان کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔
 اب جن سوالات کا ذکر میں نے پہلے کیا تھا ذرا ان پر نظر ڈال لیتے ہیں۔محترمہ نہایت احترام سے ہمیں بھی تو بتائیے کہ آپ نے کتنے نئے ہسپتال بنائے ہیں؟ کتنے ہسپتالوں کے نظام کو بہتر کیا ہے؟ کتنے نئے میڈیکل کالج بنائے ہیں؟ کتنے نئے نرسنگ سکول بنائے ہیں؟ کتنی نئی لیب بنائی ہیں؟ کتنے نوجوان ڈاکٹرز اور نرسز کو حکومتی اخراجات پر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر بھجوایا ہے؟ کیا ہیلتھ کارڈ تمام پاکستانیوں تک پہنچ چکا ہے؟ کیا بزرگ پنشنرز تک ہیلتھ کارڈ سب سے پہلے پہنچانا آپکی ذمہ داری نہیں تھی؟ کیا آپ نے بجٹ میں پنشنرز کی پنشن میں کوئی اضافہ کیا؟ کیا آپ نے تعلیم بالغاں کا کوئی نظام متعا رف کروایا ہے کہ لوگوں کے شعور اور علم میں اضافہ کیا جا سکے؟ کیا آپ نے قوم کے غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے کوئی وضائف مقرر کیے؟کیا آپ نے قوم میں آگہی پھیلانے کے لیے تعلیمی اداروں اور خاص کر یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر کوئی عملی اقدامات کیے؟ کیا آپ نے آنے والے چند سالوں میں پانی کی کمی جیسے مسائل پر کوئی حکمت عملی وضع کی؟ کیا آپ نے الیکشن کمیشن میں شفافیت لانے کے لیے کوئی قدم اُٹھایا؟کیا آپ نے ملکی انڈسٹری کو بچانے کے لیے کوئی پلاننگ کی؟ کیا آپ نے احتساب کر لیا؟ کیا آپ نے ملک کی لوٹی ہو ئی دولت واپس سٹیٹ بنک میں جمع کروادی؟ کیا آپ نے گورنر ہاوسز اور وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا؟ کیا آپ نے بجلی، پانی اور گیس کے ذخائر سے اس بے چاری غریب قوم کو اُن کا حق دے دیا؟ کیا آپ نے میڈیا کو حقیقی آزادی دے دی کہ جس کا آپ نے اُن سے وعدہ کیا تھا؟کیا آپ نے پچاس لاکھ گھر بنا کر غریبوں کے حوالے کر دئیے؟کیا کالا باغ اور بھاشا ڈیم بن گئے؟ کیا سٹیل مل میں باہر سے لوگ آکر نوکریاں حاصل کرنے میں کا میاب ہو گئے؟ کیا آپ نے تمام کرپٹ سیاستدانوں کو رولا لیا؟ کیا آپ نے قومی اداروں کو مضبوط کر کے ان کی گورننس کو درست فرما دیا؟کیا آپ نے سانحہ ماڈل ٹاون کا حساب لیا؟ کیا آپ نے سانحہ بلدیہ ٹاون کے مجرموں کو سزا دلوا دی؟ کیا آپ نے پولیس کے نظام کو درست کر دیا؟
اگر ایسا کچھ نہیں ہوا توان لوگوں پر رشک کیجیے کہ جنہوں نے ابھی تک آپکی حکومت کو برداشت کیا ہوا ہے آپ کی حکومت کی مجبوریوں اور مشکلات کے ساتھ سمجھوتاکیا ہے آپ کی بات پر یقین کیا ہے آپ پر بھروسہ کیا ہے آپکو موقعہ دیا ہے کہ آپ اس ملک کی تقدیر بدلیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :