بلوچستان میں عام انتخابات کا ایک سال مکمل ، 373افراد لاپتہ ،255مسخ شدہ لاشیں برآمد

اتوار 11 مئی 2014 07:33

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11مئی۔2014ء)بلوچستان میں عام انتخابات کا ایک سال مکمل ہوگیا365دنوں کے دوران تین سو73افراد لاپتہ ہوئے255مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ لاپتہ افراد میں سے صرف ایک شخص بازیاب ہوا ملک میں ہونے والے عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہوگیا لیکن بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کے حل سے متعلق کسی قسم کی قابل ذکر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں تشکیل پانے والی مخلوط حکومت نے صوبے میں ماورائے آئین و قانون لاپتہ کئے جانے والے افراد کی بازیابی کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ایک سال مکمل ہونے پر اس حوالے سے قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی جبری طور پر لاپتہ کئے جانے والے افراد کی بازیابی کیلئے برسرپیکار ”وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز “ کے چیئر مین نصر اللہ بلوچ نے ”خبر رساں ادارے“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے معاملے پر حکومتی کارکردگی کو انتہائی مایوس کن قرار دیا انہوں نے انکشاف کیا کہ گیارہ مئی 2013ء سے 11مئی 2014ء تک تین سو 65دن بنتے ہیں اور اس دوران 373افراد ماورائے آئین و قانون گرفتار و لاپتہ کئے جاچکے ہیں جبکہ اس دوران 255سے زائد گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں جہاں تک لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ ہے تو سپریم کورٹ کے حکم پر ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ کئے جانے والے کاہو بگٹی کی ڈیرہ سال بعد بازیابی ممکن ہوسکی اس کے علاوہ کوئی شخص بازیاب نہیں ہوا ملنے والی 255لاشوں میں سے 130کی شناخت ہوئی ہے رواں سال جنوری میں خضدار کے علاقے توتک سے ملنے والی لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی جو ایک سو سے زائد ہیں گوکہ اجتماعی قبر کی دریافت اور ملنے والی لاشوں سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل تشکیل دیا گیا لیکن اس حوالے سے بھی ہمارے خدشات اور تحفظات ہیں نصر اللہ بلوچ نے بتایا کہ خضدار کے علاقے توتک میں مزید اجتماعی قبروں کی موجودگی کا انکشاف ہوا اور ہمیں علاقے کے مقامی افراد نے بتایا ہے انہوں نے وہاں سے ملنے والی مزید نو لاشیں دیکھی ہیں جنہیں میڈیا پر نہیں لایا گیا اور باقی قبروں کو بلڈوز کردیا گیا ہے جو یقیناً قابل مذمت عمل ہے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر اقتدار میں آنے کے بعد تمام قوم پرست جماعتوں کو سانپ سونگھ گیا ہے اور انہوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے یہاں تک کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مخالف تک کرنے کی جرائت نہیں کی گئی ان قوم پرستوں کو یہ ڈر ہے کہ کہیں تحفظ پاکستان نامی قانون کی مخالفت پر ان کا اقتدار نہ چلا جائے اپوزیشن میں رہ کر لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوے کرنے والے اقتدار میں آکر عوام سے کئے گئے وعدے بھول گئے بلکہ موجودہ حکومت خفیہ اداروں کے اختیارات کو محدود کرنے کی بجائے ان کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیا ہے تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نام سے قانون سازی سے خفیہ اداروں کو مزید اختیارات حاصل ہونگے موجودہ حکمرانوں نے تو لاپتہ افراد کے مقدمات کے ملٹری ٹرائل پر بھی رضامندی ظاہر کی جو ہم سمجھتے ہیں لوگوں کو لاپتہ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کو تحفظ فراہم کرنے اور لواحقین کو انصاف سے محروم کرنے کے مترادف ہے ۔