Episode 16 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 16 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

وہ ہفتہ واری تعطیل پر بھی اسے گھر نہیں جانے دیتی تھی۔اس کا خیال تھا کہ گھر والوں کے درمیان عبد اسے بالکل فراموش کر دیتا ہے۔وہ تقریباً ہر روز ملتے تھے۔اگر کبھی عبد مصروفیت کی بنا پر جا نہیں پاتا تو وہ خود آ جاتی تھی۔
اکثر لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ان رشک کرنے والوں میں سرفہرست جازم‘ثوب اور علی بھی شامل تھے۔جازم کی علی کے ساتھ خاصی دوستی تھی‘بلکہ جازم کی رمشا کے ساتھ بھی خاصی انڈر اسٹینڈنگ نظر آتی تھی۔
کیونکہ جازم اور رمشا آپس میں کزن بھی تھے۔
جب وہ اکرام ہاؤس جاتا تو اکثر جازم سے سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔اب وہ روایتی حریفوں کی طرح اس سے نہیں ملتا تھا‘بلکہ کافی دوستانہ انداز میں بات چیت ہوتی تھی۔
عبد کی ماما کا خیال تھا کہ عید کے فوراً بعد رمشا کو گھر لے آئیں گے۔

(جاری ہے)

مگر رمشا نہ جانے کیوں ٹال مٹول کر رہی تھی۔اس دن بھی اسی بات پر دونوں کے درمیان تکرار ہو گئی تھی۔

”تم اپنی ماما کو ابھی ڈیٹ فکس کرنے کیلئے مت بھیجنا۔“اس دن وہ لانگ ڈرائیو کیلئے شہر کی سڑکیں روند رہے تھے۔
”کیوں؟“ عبد نے حیرت سے پوچھا۔
”بس‘ابھی میرا موڈ نہیں۔“لہجے میں بلا کی بے نیازی تھی۔
”واہ‘کیا کہنے محترمہ کے موڈ اور مزاج کے۔“عبد طنزیہ انداز میں گویا ہوا۔
”اچھا‘طنز کرنے کی ضرورت نہیں۔میں جو کہہ رہی ہوں وہ ہی ہوگا۔
“ وہ حکمیہ انداز میں انگلی اٹھا کر بولی۔
”تم جو کہہ رہی ہو وہ نہیں ہوگا۔اب جو میں چاہوں گا وہ ہی ہوگا۔“عبد بھی اسی کے انداز میں بولا۔
”تم زبردستی کرو گے؟“
”کر بھی سکتا ہوں۔آفٹر آل تم میری منکوحہ ہو۔“وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولا۔
”میں اسی لئے نکاح نہیں کروانا چاہتی تھی‘کیونکہ تمہارے جیسے پینڈو فوراً حق جتانے لگتے ہیں۔
“اس نے نخوت سے ناک چڑھا لی۔
”یہ پینڈو آپ کی چوائس ہے۔“ عبد نے گویا اسے چڑایا تھا اور وہ چڑ بھی گئی۔
”اب ساری زندگی اسی بات کے طعنے دینا۔“
”یہ کوئی غلط بات بھی نہیں‘میں نے ٹھیک ہی تو کہا ہے۔“عبد نے کمال اطمینان سے کہا۔
”تم بھلا غلط کہہ سکتے ہو‘بہرحال مجھے ابھی دو‘تین سال تک رخصتی نہیں کرنا۔“ اس نے حتمی انداز میں کہا۔
”کیوں پی ایچ ڈی کا ارادہ ہے؟“
”ہونہہ! مجھے پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں۔جب میں ڈاکٹر نہیں بن سکی تو پھر کچھ اور کیوں بنتی؟یہ تو پاپا کی ضد تھی جو میں نے بمشکل گریجویشن کر لیا۔“اس کا انداز عجیب سی تپش لئے ہوئے تھا۔
”تو کیا ڈاکٹر بننے کا شوق تھا؟“
”پلیز!میرے اس شوق کا ذکر مت کرو۔جب میں کسی ڈاکٹر کو دیکھتی ہوں یا کسی ڈاکٹر کی تعریف ہوتی سنتی ہوں تو مجھے آگ لگ جاتی ہے۔
“وہ ایک دم چلا اٹھی تھی۔اس کا انداز عبد کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ پریشان ہو گیا۔
”اگر تم کوشش کرتی تو ڈاکٹر بن سکتی تھی۔“
”پلیز عبد! کچھ اور بات کرو۔“ وہ ناگواری سے بولی۔
”شادی کی بات بھی پسند نہیں‘اسٹڈیز کی بات بھی پسند نہیں‘تو پھر کون سی بات کی جائے؟“وہ بے بسی سے بولا۔
”کوئی بہت اچھی بات‘جو میرا دل خوش کر دے‘جو میری انااور سلگتے دل پر پھوار بن کر برسے‘جو میرے غصے کو ٹھنڈا کر دے یا میرے دل میں ہمہ وقت بھڑکنے والی انتقام کی آگ کو بجھا دے۔
“وہ عجیب سے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بڑبڑاتی چلی گئی تھی۔
”یہ جو تم نے فلسفہ بگھارا ہے‘میری سمجھ میں نہیں آیا۔“
”یہ فلسفہ تمہاری سمجھ میں آ بھی نہیں سکتا۔“وہ تلخ ہوئی۔
”میں تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔“ عبد نے کچھ سوچ کر گاڑی کی رفتار آہستہ کر دی۔
”بتاؤ!“وہ متوجہ ہوئی۔
”تم بہت عجیب لڑکی ہو رشی!“
”وہ تو میں ہوں۔
“اس نے اعتراف کر لیا۔
”کچھ سر پھری بھی ہو۔“
”تم نے سچ کہا۔“وہ ٹھنڈے پانی کی طرح سرد ہو گئی۔
”کچھ خبطی بھی ہو۔“
”بالکل…“
”دیوانی… دیوانی بھی لگتی ہو۔“
”پہلے نہیں تھی‘جب سے تمہیں دیکھا ہے‘بس دیوانی ہو گئی ہوں۔ کچھ اور سوچ کے تمہارے طرف آئی تھی۔مجھے تو پتا نہیں تھا کہ تم اتنا پیارا دل رکھتے ہو۔“وہ آہستگی سے بولی تھی۔
”کچھ پراسرار بھی لگتی ہو‘اک پہیلی ہو۔“
”ہاں واقعی۔“اس نے تسلیم کر لیا۔
”کچھ انوکھی بھی ہو۔“
”مانتی ہوں۔“
”عجیب نہیں‘عجیب تر ہو۔“ وہ گویا گردان کئے جا رہا تھا اور رمشا ”ہاں‘ہاں“ کی مہر لگا رہی تھی۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi