Episode 31 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 31 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

میں بڑے شوق اور جذبے کے ساتھ فش کڑی بنا رہی تھی۔ مچھلی کو بیسن لگا کر پہلے سے رکھ دیا تھا۔ پیاز بھی گولڈن کر لی تھی۔ فش بھی فرائی ہو چکی تھی۔ بس آدھے گھنٹے کا کام تھا۔ ساتھ ساتھ اٹالین سلاد کی تیاری بھی کر رہی تھی۔ یہ مینیو ڈیڈی کی پسند کے مطابق صبح ہی میں نے ترتیب دیا تھا۔ کوفتہ بریانی دم پر تھی۔ اسی پل فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ میں وقتاً فوقتاً سلیب پر رکھے نوٹس پر بھی نگاہ ڈال رہی تھی۔

”اف‘اب فون سننے لاؤنج میں جاؤں۔“ میں نے بھنا کر سوچا۔ فون بے چارا بج بج کر خاموش ہو گیا تھا۔ تب ہی مما اور بڑی مما سٹنگ روم سے برآمد ہوئیں۔ نجانے کون سی میٹنگ کرکے فارغ ہوئی تھیں۔
”کس کا فون تھا ساجی!“
”ابن اہیثم کا ہوگا۔“ میں نے رٹا لگاتے ہوئے۔ سلاد کیلئے خربوزہ کاٹنا شروع کر دیا۔

(جاری ہے)

”ہیں۔ وہ کون ہے؟“ بڑی مما بے حد حیران ہوئیں۔
فون کی گھنٹی پھر سے بجنے لگی تھی۔ بڑی مما ابن اہیثم کے متعلق تفصیل پوچھنے کا ارادہ ترک کرکے فون اسٹینڈ کی طرف بڑھ گئیں۔ کچھ دیر بعد مجھے بڑی مما کی افسردہ سی آواز سنائی دی۔
”کچھ دن بعد آئیں گے۔ کسی گھریلو پرابلم کی وجہ ان کا پروگرام ملتوی ہو گیا ہے۔“
”اس کے نصیب ہی ٹھنڈے ہیں۔“ مما کی متفکر اور شدید پریشانی میں ڈوبی آواز سنائی دی تو میں نے چونک کر ان دونوں خواتین کے متفکر چہروں کی طرف دیکھا۔
کس کے نصیب ٹھنڈے ہیں۔ یہ پوچھنے کی ضرورت تو نہیں تھی۔ مما کا اشارہ یقینا میری ذات گرامی کی طرف تھا۔ شاید کچھ مہمانوں کو آنا تھا اور اب ان کا پروگرام بدل گیا تھا۔ یقینا انہیں بھی میرے موٹاپے کی بھنک پڑ چکی ہوگی۔ ایسا ایک دو مرتبہ پہلے بھی ہو چکا تھا۔
میری ذات کے ساتھ بے شمار مسائل کا انبار بھی جڑا ہوا تھا۔ ایک تو میری نالائقی‘دوسرا میرا پھیلا ہوا وجود۔
تیسری یہ گز بھر لمبی زبان‘جو نئے نئے مہمانوں کو دیکھ کر منہ کے اندر رکتی ہی نہیں تھیں۔ کمبخت تیز گام کی طرح چلتی جاتی تھی۔
پچھلے دنوں کچھ خواتین آئی تھیں۔ میرے گورے چٹے خوب بھرے بھرے سراپے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی رہیں۔ بعد میں کہلا بھیجا‘انہیں آٹے کی بوری نہیں چاہئے۔ بس مجھے بھی غصہ آ گیا۔ بڑی مما کی پرسنل ڈائری میں سے ان خواتین کا فون نمبر چرا کر وہ لتے لئے کہ یاد ہی کرتی رہیں گی تمام عمر اس شاندار بے عزتی کو۔
ساحیہ مراد کو آٹے کی بوری کہنے کا خمیازہ بھگتنا تو تھا ہی۔میں نے بھی ان کے گنجے بیٹے کی شان میں ایسے ایسے القابات کہے تھے کہ بے چاری تمام عمر جلتی بھنتی رہیں گی۔
یہ دوسری منحوس ترین ٹیلی فون کال تھی۔ جو میری زندگی میں بھونچال لانے کا باعث بنی۔
مما کی پریشانی نے مجھے بھی سچ مچ پریشان کر دیا تھا‘مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ مما کو ان دنوں مجھے پڑھائی کی افادیت پر لمبے لمبے لیکچر دینے کا بھی خیال نہیں رہا تھا۔
دوسرا حیرت کا جھٹکا مجھے تب لگا۔ جب آرٹس کی کتابیں میری رائٹنگ ٹیبل پر سج گئیں۔ مما نے اپنی ضد چھوڑ دی تھی۔ ان دونوں کے سر سے مجھے ڈھیر سارا پڑھانے کا بھوت اتر چکا تھا۔ اب وہ مجھے سلم اینڈ اسمارٹ دیکھنا چاہتی تھیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے سلمنگ سینٹر کی میڈم سے بات بھی کر لی تھی۔
ادھر میرے کچن میں گھسنے پر شدید پابندی لگ چکی تھی۔
میں اپنے پسندیدہ سبجیکٹ دیکھ کر اس قدر خوش نہیں ہوئی تھی‘جس قدر کچن میں گھسنے پر پابندی نے مجھے ادھ موا کیا تھا۔ مما مجھے صبح صبح پالک کا بدمزا پانی پلا کر دلیے کی ایک چھوٹی سی پیالی پکڑا دیتی تھیں۔ تین دن اس ناانصافی اور ظلم کے بعد میں نے اپنے زرخیز دماغ سے کچھ نئی ترکیبیں نکال لی تھیں۔ کبھی ڈیڈی اور کبھی پاپا سے دو تین سو روپے لینا میرا معمول بن گیا تھا۔ کیونکہ مما اور بڑی مما نے مجھے دبلا کرنے کیلئے جو عہد کر رکھا تھا۔ اس عہد کو مدنظر رکھ کر میری پاکٹ منی بھی بند ہو چکی تھی۔
اب مما مجھے پڑھائی پر نہیں‘بلکہ ڈائٹنگ پر بڑے بڑے اور لمبے لیکچر دیتی تھیں۔
ان دنوں مما کی سب سے بڑی ٹینشن میرا بڑھتا ہوا وزن تھا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi