Episode 54 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 54 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”کلثوم! عمر کا سنا تھا کہ شادی کیلئے مان نہیں رہا۔“ دادی کی آواز کلثوم کی آواز سے بھی دھیمی تھی۔ عشوہ کے اسٹور کی طرف بڑھتے قدم رک گئے۔
”خالہ جی! آپ فکر مت کریں۔ صرف اسی بات پر ضد کر رہا تھا کہ اس کی تعلیم نامکمل ہے۔ کیریئر بنانا ہے۔بہت سا پڑھنا ہے۔ اس کے علاوہ تو کوئی اعتراض نہیں اسے۔“ کلثوم نے دادی کی فکر اور پریشانی کو کم کرنا چاہا۔
”آپ جی کو غم بالکل نہ لگائیں۔ ایسی موہنی صورت ہے عشوہ کی۔ دیکھ کر سارا غصہ وصہ بھول جائے گا۔“ کلثوم نے نرمی سے دادی کے دونوں ہاتھ دبائے۔ دادی کے خدشات شاید کم ہو گئے تھے تاہم عشوہ کے دل میں پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔
”ہائے! انہیں تو بہت غصہ آتا ہے۔ مجھے ڈانٹیں گے۔“ وہ تکیے کے نیچے رکھی عمر کی تصویر کو پھر سے بغور دیکھنے لگی تھی۔

(جاری ہے)

یہ تصویر کلثوم اسے دے کر گئی تھیں۔
”تصویر میں تو بہت اکھڑا اکھڑ سے لگتے ہیں۔“ اس نے خوف زدہ ہو کر سوچا۔ یہ تصویر ایک لا ابالی سے کالج بوائے کی تصویر تھی تاہم تصویر کے برعکس وہ خاصا ذمہ دار بھی تھا۔ چھوٹی عمر سے سنجیدگی اور تنہائی ساتھی بن گئی تھی۔ ہاں! وہ بے حد غصیلا تھا۔ اس کو بہت غصہ آتا تھا اور یہ اس کی شخصیت میں واضح کمی تھی۔
شاید والدین‘بہن‘بھائی نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر کلثوم اس کی ہر جائز ناجائز مان لیا کرتی تھیں‘اسی وجہ سے وہ بے حد ضدی ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ خود پسند بھی۔ اپنی ”میں“ سے نکلنا اسے گوارا نہیں تھا اور اسی ”میں“ نے اسے ہمیشہ عشوہ سے ایک فاصلے پر رکھا تھا۔ اوّل روز سے قائم اس فاصلے کو پندرہ سالوں کی رفاقت بھی پاٹ نہیں سکی تھی۔
حالانکہ شادی کے روز پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر وہ ٹھٹک کر رہ گیا تھا۔ سرخ عروسی لباس میں سجی سنوری سی عشوہ نے دھڑکنوں میں تلاطم مچا رکھا تھا۔ تیکھے نقوش رکھنے والے قدرے اکھڑ اکھڑ سے عمر فاروق کے چپکے چپکے سے عشق میں مبتلا عشوہ کو اسے روبرو دیکھنے کا تجربہ خاصا مشکل ترین لگ رہا تھا۔
”بچی سے نرمی سے بات کرنا اور یہ پکڑو۔“ انہوں نے ایک درمیانے سائز کی مخملی ڈبیا زبردستی اس کے ہاتھ میں تھمائی۔
”یہ کیا ہے؟“ عمر نے بُراسا سا منہ بنا کر پوچھا۔
”عشوہ کیلئے چین ہے۔“ چچی امی نے دلارسے کہا۔
”تو خود ہی مہارانی صاحبہ کو دے دیجئے گا۔“ اس نے صاف جھنڈی دکھائی۔
”پگلے! دلہن کو یہ تحفہ تم ہی کو دینا ہے۔“ چچی امی کو ایسے نازک وقت میں جی بھر کے ہنسی آ گئی۔
”میں کیوں دوں… خواہ مخواہ سر چڑھ جائے گی۔“ دوستوں کی پڑھائی پٹیاں بھی یاد آ گئی تھیں اور وہ ان کی جلن اور حسد کو سمجھے بغیر سب کچھ ذہن نشین کرکے آیا تھا۔
خصوصاً اس کا قریبی دوست اور کلاس فیلو دانش تو جل بھن کر کباب ہو گیا تھا۔
”ہماری ماؤں کو تو ہمارا احساس تک نہیں ہے… ورنہ ہم بھی ایک عدد بیوی کے شوہر ہوتے۔ تم خوش نصیب ہو… کل کو تمہارے جتنے ہی تمہارے بیٹے ہوں گے۔ بڑے بھائی لگو گے ان کے… میرے پھوپھی زاد بھائی خالد کی طرح…“ وہ سیخ کباب بنا جا رہا تھا۔ پہلی مرتبہ عمر بھی کچھ اترایا‘وہ جو سمجھ رہا تھا کہ اس کے دوست خوب ہی اس کا مذاق اڑائیں گے‘ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
الٹا وہ حسد و رشک سے مغلوب ہو کر رہ گئے تھے۔ عمر کو اپنی یہ اہمیت خاصی بھائی تھی۔ اس کی انا اور ”میں“ کی بھی بہت تسکین ہوئی۔
”دیکھو! بیوی کے غلام مت بن جانا۔“ دانش نے اس کے کان بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور ادھر چچی امی نجانے کیا کیا سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”تحمل سے بات کرنا بچی سے۔“
”پھر بچی!“ وہ بھنا اٹھا۔
”بچی ہی تو ہے…“ چچی امی بھی ناراض سی ہو گئیں۔ ”اب جاؤ بھی۔“ انہوں نے زبردستی اسے کمرے میں دھکیلا جب وہ چلا گیا تو ہ سوچنے لگی تھیں۔ ”خود بھی تو بچہ ہے عمر۔ خیر! اس کی عمر میں بھائی صاحب (عمر کے والد) ایک بچے کے باپ بن گئے تھے۔ سنبھل جائے گا آہستہ آہستہ۔“ وہ اسی بات پر مسرور تھیں کہ انہوں نے اپنے سارے ارمان جی بھر کے پورے کئے ہیں۔
جب سے انہیں کینسر تشخیص ہوا تھا۔ تب سے وہ خوف زدہ ہو گئی تھیں۔ ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا تھا۔
اس گھر کیلئے انہیں عشوہ جیسی نرم‘حلیم اور ہر سانچے میں ڈھل جانے والی لڑکی چاہئے تھی اور انہیں یقین تھا کہ عشوہ ان کے بعد نہ صرف اس گھر کو بلکہ عمر اور عروسہ کو بھی سنبھال لے گی‘کیونکہ وہ جوہر شناس تھیں اور انہوں نے سیپ میں بند ”موتی“ کو پرکھ لیا تھا۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi