Episode 49 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 49 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

ایک رات کی بات

”عشوہ بیٹی! ایک بات کہوں؟“ بھابھی بیگم پالک کے پتے چننے میں اس کی مدد کر رہی تھیں۔ وہ جو بڑی نفاست کے ساتھ باریک باریک پالک کاٹ رہی تھی‘بھابھی بیگم کے لہجے کی سنجیدگی سے کچھ ٹھٹک کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔
”کیسی بات؟“
”کچھ خاص نہیں‘کیا پتا… میرا وہم ہو۔“ صاف لگ رہا تھا۔
وہ بات ٹالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اب کے عشوہ سچ مچ ٹھٹکی۔
”بھابھی بیگم! بتایئے نا‘یوں تو میں الجھتی رہوں گی۔“ وہ چھری پرات میں رکھ کر ان کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
”کام چھوڑ کر کیوں بیٹھ گی ہو؟ ابھی بچیاں آ جائیں گی‘بھوک بھوک چلاتی ہوئی۔“ انہوں نے چشمہ درست کرتے ہوئے چھری خود پکڑ لی تھی۔ ”عروسہ کب تک آتی ہے اسکول سے؟“
”اسکول کہاں‘اب تو خیر سے کالج جاتی ہے۔

(جاری ہے)

“ عشوہ نے مسکرا کر تصحیح کی تھی۔
”ہاں! وہ ہی… موا کالج… نجانے کون سا طلسم ہے‘اس چار دیواری کے اندر‘بچیوں کے رنگ ڈھنگ ہی بدلنے لگتے ہیں۔“ ان کی اپنی پوتی نوری بھی عروسہ کی کلاس فیلو تھی۔ عشوہ نے یہی سمجھا تھا کہ وہ اپنی پوتی نوری کی بات کر رہی ہیں۔
”خیر تو ہے۔؟“ وہ خواہ خواہ مسکرا دی۔
”ہاں بنو! سب خیر ہے۔“ وہ کلس کر بولیں۔
”بھابھی بیگم! صاف صاف کہیں نا… پہیلیاں میری سمجھ میں کہاں آتی ہیں۔“
”اسی سادگی سے مجھے اندیشے لاحق ہیں… بیٹی! جوان ہوتی بچی کی ماں ہو۔ ماشاء اللہ سے عمیمہ نویں جماعت کے پرچے دے گی اس دفعہ۔ آنکھیں کھلی رکھا کرو۔ اردگرد پر دھیان دیا کرو۔“ ان کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔
”کیا کروں بھابھی بیگم! تین بچیاں ہیں۔
ان کے سو طرح کے کام… اوپر سے میری بوجھل طبیعت۔ میں تو اب مزید چاہتی نہیں تھی‘مگر اللہ کی رضا… پھر یہی سوچ لیا کہ کیا پتا‘وہ رحیم رب مہربانی کر دے۔ تین بیٹیاں ہیں۔ کیا پتا‘اس دفعہ بیٹا ہو جائے۔ آپ سے بھلا کون سی بات چھپی ہے۔ عمر نے کیسا طوفان اٹھا دیا تھا کہ مزید بچہ نہیں چاہئے۔ گھر میں اتنے دن بدمزگی رہی تھی۔“ عشوہ نے بجھے بجھے لہجے میں بتایا۔
”تمہاری کون سا عمریا بیت گئی ہے۔ ابھی سولہ کا سن بھی نہیں لگا تھا۔ جب دادی نے بیاہ دیا۔ یوں لگتا ہے‘ابھی کل کی بات ہے۔ کالج کے دوسرے سال میں تو عمر تھا۔ ادھر عمر کے ماں باپ تو تھے نہیں۔ خالہ جنت مکانی عروسہ کی ماں کلثوم کو شوق چڑھا تھا عمر کو دولہا بنانے کا۔ ابھی تک یاد ہے مجھے۔ عمر شادی کیلئے مانتا ہی نہیں تھا۔ گھر سے بھاگ جانے کی دھمکیاں تک دیں۔
مگر کلثوم نے اس کی ایک نہیں سنی تھی۔ اس کے سر پر سہرا سجا کر ہی دم لیا۔ بھانجے کی ”خوشی“ دیکھنے کا شوق تھا۔ بیماری نے کلثوم کو چاٹ کر رکھ دیا تھا۔ اب تو کلثوم کو گئے ہوئے بھی کئی برس بیت گئے۔ دیکھو! وقت بیتتے پتا ہی نہیں چلا۔“ بھابھی بیگم نے تاسف سے آہ بھری۔ عشوہ خود بھی حیران حیران سی بیتے ماہ وسال کو سوچنے لگی۔
”اب‘تم پالک چڑھا لو۔
بچیاں بھی آتی ہوں گی۔ اپنا خیال رکھا کرو۔ چہرہ تو بالکل اتر گیا ہے۔ انشاء اللہ اس دفعہ بیٹا ہی ہوگا۔“ فارغ بیٹھنا انہیں کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا۔ ”ٹوکری سے آلو لے آؤ‘میں چھیل دیتی ہوں۔“
”جی…“ وہ آلو اٹھا کر لے آئی تھی۔ ساتھ ساتھ چائینز رائس کیلئے بھی تیاری کر رہی تھی۔ عمر کو لنچ میں چاول کھانا پسند تھا۔ بچیاں بھی شوق سے کھا لیتی تھیں۔
وہ اپنے لئے آلو پالک بنا رہی تھی جبکہ اور کسی کو سبزیوں سے خاص رغبت نہیں تھی۔ خصوصاً عروسہ تو گوشت میں بھی سبزی دیکھ کر خوب ناک بھوں چڑھاتی تھی۔ اکثر جس روز وہ اپنی پسند کا مینیو ترتیب دے لیتی تو عمر بچیوں اور عروسہ کو باہر کھانا کھلانے لے جاتا تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنی پسند کو اہمیت دینا ترک کر چکی تھی۔ اس کی خواہش ہوتی تھی کہ عمر اور بچیاں گھر کے کھانے کو ترجیح دیں۔
”بھابھی بیگم! آپ کچھ کہنا چاہ رہی تھیں؟“ وہ پالک چڑھا کر آئی تو کچھ یاد آنے پر پھر سے پوچھنے لگی۔
”آں… ہاں۔“ بھابھی بیگم آلو‘چھیل کاٹ چکی تھیں۔ اب کچھ ٹٹولنے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح وہ کنفیوز ہو گئی۔
”عشوہ! یہ عروسہ بیٹی کچھ بدلی بدلی نہیں دکھنے لگی؟“
”کیا مطلب؟“ عشوہ توقع کے عین مطابق پریشان ہو گئی۔
”بیٹی! برا مت ماننا۔ بچی پر دھیان رکھو‘یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ عمر کی خالہ زاد ہے۔ تم اس کی بھابھی ہو۔ ماں جیسا پیار بھی تم ہی نے اسے دیا ہے۔ یہ بننے اور بگڑنے کی عمر ہوتی ہے۔ کچی پکی سی عمر۔ ہر چمکتی چیز جی کو بھاتی ہے۔“ انہوں نے عام سے لہجے میں بہت خاص بات کی تھی۔
”جی…“ وہ سر ہلا کر رہ گئی۔
”تمہارے بھائی کی کوئی خیر خبر آئی؟“ بھابھی بیگم کو کچھ خیال آیا تو پوچھنے لگیں۔
”فون تو تقریباً پندرہ بیس دن میں کئی مرتبہ کرتا ہے۔“ عشوہ کی آواز بھرا سی گئی۔ فائق اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ اے لیول کے بعد باہر گیا تو پھر پلٹنے کو دل ہی نہ چاہا۔ اس کے چلنے جانے کے بعد پہلے جان چھڑکنے والی دادی چل بسیں۔ بابا بھی نہ رہے۔ اب میکے کے نام پر صرف ایک بھائی کا آسرا تھا اور وہ بھی پردیس میں نجانے کون کون سی ڈگریاں اکٹھی کر رہا تھا۔ نجانے یہ جنون‘یہ شوق‘یہ علم حاصل کرنے کی پیاس‘یہ کتابوں سے عشق اس نے خاندان میں سے کس ”علم دان“ سے چرایا تھا۔ عشوہ کے بابا اور امی تو واجبی سے تعلیم یافتہ تھے۔ خود عشوہ کی اس وقت شادی کر دی گئی تھی‘جب نویں جماعت کی نئی نکور کتابوں اور بیگ کو دیکھنے اور برتنے کا موقع بھی نہیں مل سکا تھا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi