Episode 15 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 15 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

اس کا مزاج ہی ایسا تھا۔ پل میں تولہ‘پل میں ماشہ‘کبھی دھوپ بن جاتی‘کبھی چھاؤں‘کبھی بادل کی طرح گرجنے لگتی اور کبھی بارش بن کر برسنے لگتی۔
مزاج کی اسی گرمی کی وجہ سے عبد سے بھی دو‘تین مرتبہ معمولی جھڑپ کر چکی تھی۔ چونکہ بات معمولی نوعیت کی ہوتی تھی۔ اسی لئے عبد اسے منا بھی لیتا تھا‘سو مزید بات بڑھتے بڑھتے رہ جاتی تھی۔ مگر اس دن ان کا سنجیدہ نوعیت کا جھگڑا ہو گیا۔
اس نے بات ہی کچھ ایسی کی تھی کہ عبد کو غصہ آ گیا۔
اس دن عبد اس کے فون کرنے پر آیا تھا۔ اگرچہ وہ کافی مصروف تھا‘مگر رمشا کی ضد کے سامنے اکثر ہتھیار پھینک دیتا تھا۔ سو جب وہ نہ‘نہ کرنے کے باوجود بھی آ گیا تو رمشا گویا فتح کے احساس سے سرشار ہو گئی۔
”مجھے یقین تھا‘تم ضرور آؤ گے۔

(جاری ہے)

“ وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔ عجیب سا مغرورانہ انداز تھا۔

گویا وہ جانتی تھی کہ عبد کبھی انکار کر ہی نہیں پائے گا۔
”آنا تو مجھے تھا ہی… آپ کے حسن میں کشش ہی بہت ہے۔“ وہ سادگی سے بولا۔
”ایک بات تو بتاؤ۔“ ملازمہ جوس لے کر آئی تو اسے لنچ کی ہدایات دینے کے بعد رمشا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”پوچھو۔“
”مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟“ وہ اس سوال پر کچھ چونکا۔
”جتنی تم مجھ سے کرتی ہو‘شاید اس سے بھی کچھ زیادہ… میں خود اپنے جذبات کو سمجھ نہیں پایا ہوں۔
تمہاری محبت میرے دل پر بہت اچانک یا بہت آہستہ آہستہ اتری تھی۔ تاہم میں خود کو بے بس پانے لگا تھا۔“ عبد نے اپنی دلی کیفیت کا بے جھجکے اقرار کیا۔ رمشا سر سے پیر تک مسرور ہو گئی۔
”تم میری خاطر کوئی ایسا کام کر سکتے ہو جو تم نہیں کرنا چاہتے‘مگر میری محبت تمہیں مجبور کر دے؟“ اس کا انداز بہت عجیب سا تھا اور لہجہ اور تاثرات عجیب تر۔
”کیا مطلب؟“ وہ الجھ گیا۔
”اگر میں کہوں‘تم جاب چھوڑ کر بزنس کر لو تو؟“ رمشا گویا تول تول کر بول رہی تھی۔ عبد کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی۔
”میں اپنے کیریئر کی شروعات میں جاب چھوڑ دوں؟ مگر کیوں؟ جبکہ میں اپنی جاب سے مطمئن ہوں۔“
”مگر میں تمہاری اس جاب سے مطمئن نہیں ہوں۔ کیا تم میری ضروریات پوری کر سکوں گے؟“ رمشا کا انداز چبھتا ہوا تھا۔
”جو کچھ میرے بس میں ہوا‘ضرور کروں گا۔ تاہم اگر تم اپنے باپ کی دولت کے ساتھ میرا موازنہ کرو گی تو پھر معذرت ہے۔ میں جو کچھ ہوں تمہارے سامنے ہوں اور تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں ایک معمولی سا سپاہی ہوں۔ کسی لینڈ لارڈ کا بیٹا نہیں ہوں۔ مجھے اپنی جانب پر اور اپنے نسب پر فخر ہے۔“ عبد نے دوٹوک لہجے میں گویا اپنی بات واضح کر دی۔
”اگر تمہیں ایک چانس دیا جائے پھر بھی نہیں؟“ وہ لائم جوس کی کو گھونٹ گھونٹ حلق میں اتار رہی تھی۔
”تمہاری بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی‘آخر تم چاہتی کیا ہو؟“
”میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں‘اگر تمہیں پارٹنر شپ کی آفر ہو تو؟“ وہ ایک اور گلاس جوس سے لبالب بھر رہی تھی۔
”اس کیلئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ میرے پاس نہیں ہے۔
“ عبد نے جوس کا گلاس میز پر رکھ دیا۔
”تمہارے لالہ نے اتنا بڑے بے حد اسٹائلش سا کلینک سیٹ کیا ہے۔ ان کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آیا؟“
”ہماری کچھ آبائی زمینیں تھیں‘جو ماما نے بیچ دیں‘کچھ پیسوں سے گھر بنا لیا تھا اور کچھ بینک میں محفوظ تھے جو کام آ گئے۔“ عبد نے تحمل سے بتایا۔ رمشا جانتی تھی کہ عبد کو اس کی باتیں ناگوار گزر رہی ہیں۔
مگر وہ پھر بھی باز نہیں آ رہی تھی۔
”اگر پاپا تمہیں اپنے بزنس میں شمولیت کی آفر کریں؟“
”دیکھو رمشا! میرا مائنڈ کبھی بھی بزنس کی طرف نہیں رہا۔ میں اپنی جاب میں ریلیکس فیل کرتا ہوں۔ اگر مجھے بزنس کی فیلڈ میں جانا ہوتا تو میرے لئے یہ ناممکن نہیں تھا۔“ عبد نے ابھی تک ضبط کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔
”پھر بتاؤ میری محبت میں تم کیا چھوڑ سکتے ہو؟ جاب نہیں‘ہاکی نہیں؟ گھر والے بھی نہیں؟ تو پھر مجھے بتاؤ کہ تم میری محبت میں اپنی کس عزیز چیز کو چھوڑ سکتے ہو؟“ اس کے لہجے میں بچوں جیسی ضد تھی۔
”تمہاری محبت میں اس دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں۔“ عبد مسکرایا
”میں کیسے یقین کروں؟“ وہ یقین تھی۔
”اور میں کیسے یقین دلاؤں؟“ عبد اس کی خواب ناک آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
”پہلے تم میرے فون سے بہت چڑھتے تھے۔ پھر اتنی جلدی یہ بدلاؤ کیسا؟“
”مجھے لگتا ہے تم شبہات اور ابہام کا شکار ہو۔ پاگل! محبت سوچ سمجھ کر یا باقاعدہ پلاننگ سے نہیں کی جاتی۔
میں تو خود حیران ہوں۔ بن دیکھے‘بن پرکھے اور بن جانے‘میں صرف تمہاری محبت سے متاثر ہو کر تمہیں دل میں بسا چکا تھا۔“
اس کے لہجے کی سچائیوں نے رمشا کے تمام تر خدشے جھاگ کی طرں بیٹھا دیئے تھے۔ اسے خود پر ناز سا ہوا۔
رمشا اسے محبت پاش نظروں سے دیکھتی رہی۔ ایسی نظر سے جو عبد کے دل کو شکنجے میں جکڑ کر گویا عمر بھر کیلئے قید کر لیتی۔
وہ اسے اپنی محبت میں انتہا تک لے جانا چاہتی تھی۔ یوں کہ کبھی عبد واپس مڑنے کی یا پلٹ جانے کی کوشش بھی کرتا تو واپسی کے راستے اس کیلئے کھوٹے ہو جاتے۔ وہ اسے اپنے وجود کا عادی کر لینا چاہتی تھی۔ وہ اس کی ہر سوچ‘ہر خیال اور ہر خواب پر قابض ہو جانا چاہتی تھی۔
رمشا اکرام بھلا چاہتی کیا تھی؟
اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا تھی۔
عبد جرار کے دل کی دھڑکن کو اپنے اختیار میں کر لینا یا اس کے سچے موتی جیسے دل پر کوئی بھاری ضرب لگانا؟ یہ تو وقت بتا سکتا تھا۔ خاصی حد تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی چکی تھی۔
عبد جرار اس کی محبت میں بہت آگے تک نکل آیا تھا۔
وہ جانتی تھی عبد رشتہ اور تعلق نبھانے والوں میں سے ہے۔ پھر کچھ ماہ بعد عبد کی طرف سے نکاح پر بے حد اصرار کیا گیا۔
یہاں پر رمشا کی ایک نہیں چلی تھی۔ اس کے بھائیوں اور پاپا نے عبد کی بات پر سوچ بچار کیلئے بھی وقت نہیں لیا تھا۔
یوں ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا اور بہت دھوم دھام کے ساتھ ان کے نکاح کا مبارک فرض ادا کیا گیا۔
رمشا آج کے دن کی مناسبت سے بہت سجی سنوری تھی۔ عروسی لباس‘زیورات اور میک اپ نے اس کے حسن کو دو آتشہ کر دیا تھا۔
عبد کی ماما اور خالہ کے علاوہ عناس لالہ اور حوریہ بھابھی بھی بے انتہا خوش تھیں۔ خود اس کا دل بھی اس وقت خوشی اور مسرت کی آخری انتہا تک پہنچا ہوا تھا۔
نکاح کے بعد رمشا میں بہت سی تبدیلیاں نظر آنے لگی تھی۔ حتیٰ کہ عبد کے گھر والے بھی نوٹ کرنے لگے تھے کہ رمشا کی فون کرنے کی رفتار میں تین گنا اضافہ ہوا تھا۔ تقریباً ہر دو گھنٹے بعد اس کا فون آ جاتا تھا اور عبد اٹھ کر الگ کمرے میں چلا جاتا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi