Episode 14 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 14 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”مجھے کوئی شوق نہیں روز روز کی ملاقاتوں کا۔ عبد خود اپنے ٹف شیڈول سے ٹائم نکال کر آتا ہے۔ ویسے بھی ان دنوں ہاکی سے دور ہے‘سو وہ۔ کبھی کبھی فری ہوتا ہے۔“ اس نے ناک چڑھا کر وضاحت کی۔
”تم کبھی اس کی ماما سے بات کر لیا کرو۔ ہمیشہ وہ ہی تمہاری خیریت پوچھنے کیلئے فون کرتی ہیں۔“ جاتے جاتے انہیں کچھ یاد آیا تو وہ پلٹ آئیں۔
”جتنی بات کرنا تھی‘کرلی ہے۔
مجھ سے نہیں ہوتی خوشامدیں۔“ رمشا نے ٹیپ ریکارڈر آن کر لیا تھا۔
”خوشامد کیوں؟ یہ تمہارا فرض ہے۔“ وہ پھر سے سمجھانے لگیں۔
”یہ میرا فرض نہیں۔“ اب وہ اپنے لمبے ریشمی بالوں میں برش کر رہی تھی۔ ”اور نہ ہی میرے پاس لوگوں سے بات کرنے کیلئے فالتو وقت ہے۔“
”وہ کوئی اور نہیں‘عبد کی ماں ہیں… اس لحاظ سے تمہاری بھی ماں ہوئیں۔

(جاری ہے)

“ انہوں نے ناراضی سے جتایا۔ ”آج تم عدیلہ سے ضرور بات کر لینا۔ عبد بھی خوش ہوگا۔“
”میں نے کسی کو خوش رکھنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔“ وہ چہرے اور ہاتھوں پر لوشن کا مساج کرنے لگی۔
”رشی…“ وہ محض اسے گھور کر رہ گئی تھیں۔
بیٹا! اپنے مزاج کو بد لو میری جان! ایک نئے گھر اور نئے ماحول میں جانا ہے تمہیں۔“ ان کا انداز ناصحانہ تھا۔
”جب جاؤں گی تو دیکھا جائے گا۔“ اس کی بے نیا زیاں عروج پر تھیں۔
”کہتے ہیں‘جس سے محبت ہو‘اس کی خاطر خود کو بدل لیتے ہیں۔“
”بدل لوں گی۔“ انداز سراسر ٹالنے والا تھا۔
وہ کلس کر اٹھ گئی تھیں۔
رمشا نے اٹھ کر لباس تبدیل کیا۔ آدھے گھنٹے بعد جب نیچے آئی تو سب مرد حضرات آفس جا چکے تھے۔ اس نے ہلکا پھلکا سا ناشتہ کیا۔
پھر پاپا کے آفس چلی آئی۔ وہ میٹنگ میں تھے جبکہ رمشا کو کچھ جلدی تھی۔ بیس منٹ بعد واجد صاحب میٹنگ ہال سے باہر نکلے تھے۔ رمشا جو ان کے انتظار میں بے زار سی بیٹھی تھی‘انہیں دیکھ کر ٹھنکی۔
”اتنا ویٹ کرواتے ہیں۔“
”کیسے یاد آئی ہماری۔“ وہ کوٹ اتار کر اپنی کرسی پر بیٹھ رہے تھے۔
”پاپا! سویرے سویرے طنز۔“ وہ لاڈ سے ان کے کندھے سے آ لگی۔
واجد صاحب نے سامنے کھلی فائل کو ایک طرف رکھ کر بیٹی کی طرف پیار سے دیکھا۔
”کچھ پیسے چاہئے تھے۔“
”اوہ… تو اپنے مطلب کیلئے آئی ہو۔“ وہ والٹ نکال کر پیسے چیک کرنے لگے۔ ”کتنے چاہیں؟“
”اونلی ففٹی تھاؤزنڈ۔“ رمشا بے نیازی سے بولی۔
”یہ اونلی ہیں؟“ انہوں نے کچھ نوٹ گن کر اس کی طرف بڑھائے۔
”یہ تھوڑے ہیں پاپا!“ رمشا ٹھٹکی۔
”اتنے میں گزارا کرو‘عبد کی سیلری اتنی بھی نہیں‘تھوڑے میں گزارا کرنے کی عادت ڈالو۔“ ان کا انداز ناصحانہ تھا۔
”تو عبد بھی بزنس کر لے گا۔ ویسے بھی مجھے اس کی جاب اتنی اٹریکٹو نہیں لگتی۔“ اس نے نخوت سے کہا۔ جتنے روپے وہ مہینے میں کماتا ہے‘اتنے میں ایک دن میں خرچ کر دیتی ہوں۔“
”عبد تمہاری اپنی چوائس ہے‘وہ جو ہے‘جیسا ہے‘تمہیں اسی حالت میں اسے قبول کرنا ہے۔
وہ تمہاری خاطر خود کو نہیں بدلے گا‘بلکہ تمہیں اپنی سوچ‘خیالات اور رہن سہن بدلنا ہوگا۔ خود میں تبدیلی لاؤ بیٹا۔“
”پاپا! ہر جگہ مجھے نصیحت کرنے بیٹھ جاتے ہیں‘تنگ آ گئی ہوں میں‘ان تقریروں سے۔“ وہ بے زاری سے بولی۔
”بیٹا! یہ تمہارے فائدے کی باتیں ہیں۔ اسے جسٹ ایڈوائس مت لیا کرو‘جو اس گھر کا ماحول ہے‘وہ اس گھر کا نہیں ہوگا۔
بعد میں تمہارے لئے ہی مسائل کھڑے ہوں گے۔ بہتر ہے ابھی سے اپنی شخصیت کی کمی بیشی کو دور کرلو۔ اگرچہ عبد بہت سمجھ دار اور تعاون کرنے والا لڑکا ہے‘مگر مجھے تمہاری نادانیوں سے بہت خوف آتا ہے۔“
”آپ پیسے نہیں دینا چاہتے‘نہ دیں۔“
وہ پیسے غصے میں وہیں چھوڑ کر دھپ دھپ کرتی چل گئی تھی اور واجد اکرام اسے پکارتے رہ گئے۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi