Episode 20 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 20 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

ولیمہ کے بعد زندگی معمول پر آ چکی تھی۔ مگر عبد کی ابھی بہت ساری چھٹیاں باقی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ ان چھٹیوں کو کسی کھاتے میں لگا دیا جائے۔
یہ ولیمہ سے دس روز بعد کی بات تھی‘اس دن رمشا بھی ڈائننگ میز پر موجود تھی۔چونکہ چھٹی کا دن تھا‘سو عناس لالہ اور حوریہ بھابھی بھی گھر میں تھے۔ ہمیشہ کی طرح حوریہ‘ماما اور خالہ کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔
مینا اور عناس لالہ نہ جانے کس بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ عبد اخبار دیکھ رہا تھا۔ جب ماما میز پر ناشتے کے لوازمات سجاتے ہوئے بولیں۔
”ہنی مون پہ نہیں جانا تم لوگوں نے؟“وہ عبد اور رمشا سے بیک وقت مخاطب ہوئیں۔
”ہاں‘کیوں نہیں‘ضرور جائیں گے۔“عبد نے فی الفور اخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھ دیا۔
”تو کب جانا ہے؟ جب چھٹی ختم ہو جائے گی؟“ عناس لالہ بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

”ابھی کچھ فیصلہ نہیں کیا کہ جانا کہاں ہے۔“عبد کا انداز سوچتا ہوا تھا۔ وہ پیر سے رمشا کے پیر کو ٹہوکا دے کر آنکھ کے اشارے سے اسے بھی کچھ بولنے کا کہہ رہا تھا۔
”ناردرن ایریاز چلے جاؤ‘گھومنے پھرنے کیلئے ہمارے ملک سے زیادہ خوب صورت کوئی دوسری جگہ مجھے تو نظر نہیں آتی۔“حوریہ اور خالہ بھی کرسی پر بیٹھ گئی تھیں۔
”تو پھر ٹھیک ہے‘میں انتظامات کروا دیتا ہوں۔
“عناس نے تائید طلب نظروں سے عبد کی طرف دیکھا تھا۔ وہ جو اثبات میں سر ہلانے لگا تھا‘ایک دم رمشا کو بولتے دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
”ہمیں ناردرن ایریاز نہیں جانا۔ایک سو چالیس مرتبہ تو دیکھ چکی ہوں۔ہر ویکشنز پر ہم لوگ گھومنے پھرنے کیلئے سوات کاغان جاتے رہے ہیں۔ آپ برائے مہربانی ہمارے لئے تردد مت کیجئے گا۔ ممی نے دبئی کیلئے ہمارے ٹکٹس خرید لئے ہیں۔
ہنی مون کا ٹرپ ممی کی طرف سے گفٹ ہوگا‘وہ کافی کھردرے لہجے میں بولی تھی۔
عناس اور حوریہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے جبکہ خالہ اور ماما ہلکا بکا تھیں۔مینا منہ کی طرف نوالہ لے جاتے ہاتھ کو واپس پلیٹ تک لے آئی تھی۔وہاں بیٹھے سب افراد کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔ عبد نے ماحول میں پھیلی کشیدگی کو محسوس کیا اور پھر قدرے خفا خفا سے انداز میں بولا۔
”یہ بات تم سلیقے کے ساتھ بھی کر سکتی تھی۔“
”مجھے سلیقے‘قرینے نہیں آتے۔“ وہ بدتمیزی سے گویا ہوئی۔ عبد کا سب کے سامنے نرم انداز میں سمجھانا بھی اسے بہت برا لگا تھا۔
”نہیں آتے تو سیکھ لو۔“ عبد دبی آواز میں بولا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بات بڑھے‘مگر رمشا شاید بات کو بڑھانے کے موڈ میں تھی۔
”نہیں سیکھ سکتی۔
ویسے بھی یہاں کے لوگوں میں بڑے ”قرینے“ ہیں۔“
”جسٹ شٹ اپ رمشا! اگر تم اچھا نہیں بول سکتی تو خاموش رہو۔“ عبد نے اپنی آواز پھر بھی بلند نہیں ہونے دی تھی۔
”میں اسی لئے ان لوگوں کے درمیان نہیں بیٹھنا چاہتی تھی۔ مڈل کلاس‘دقیانوسی سوچ رکھنے والے بیک ورڈ لوگ۔ تمہیں یہاں بیٹھنا مبارک ہو۔ چاہے صبح سے شام تک بیٹھو یا پھر شام سے صبح تک اپنے کان بھرواتے رہو۔
وہ تلخی سے کہتی دھپ دھپ کرتی اٹھ کر چلی گئی تھی۔ وہ سب دم بخود سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔ بہت دنوں سے ماما اور حوریہ‘رمشا کی بدمزاجی کو نوٹ کر رہی تھیں۔ اس کا اکھڑا‘اکھڑا سا انداز‘روکھا لہجہ‘نجانے اس کے ساتھ مسئلہ کیا تھا۔ ان کی ہر سیدھی بات بھی اسے الٹی نظر آتی تھی۔ وہ کچھ کہتی تھیں اور رمشا سمجھتی کچھ تھی اور اب تو وہ عناس پر بھی بات بات پر طنزیہ جملے پھینک دیتی تھی۔
گھر میں خالہ اور مینا کے علاوہ ان تینوں سے تو اس نے خواہ مخواہ کا بیر باندھ لیا تھا۔ خصوصاً ماما سے تو انتہا درجے کی بدتمیزی بھی کر دیتی۔ وہ دس دن کی نئی نویلی بیاہتا تھی، عبد سے بھلا کیا شکایت کرتی۔ ویسے بھی ابھی تک وہ اس کے مزاج کو سمجھ ہی نہیں پا رہی تھیں۔ نجانے وہ چاہتی کیا تھی‘اس کی خواہش کیا تھی؟ کیا وہ عبد پر صرف اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی تھی ؟ وہ ان سب سے عبد کو دور کرنا چاہتی تھی؟
صبح صبح اس بدمزگی کے بعد عبد کا موڈ بگڑ گیا تھا‘مگر وہ کب تک اس سے ناراض رہ سکتا تھا۔
کچھ عناس لالہ کے سمجھانے‘بجھانے اور کچھ اپنے دل کے مجبور کرنے پر وہ رات کو اس کے سامنے اس کی بدتمیزی کو بھلا کر ہی آیا تھا۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس وقت وہ روٹھی روٹھی سی بیڈ پر بیٹھی تھی۔ اسے دیکھتے کے ساتھ ہی چادر تان کر سوتی بن گئی۔ یعنی محترمہ ناراضی ظاہر کر رہی تھیں۔ عبد کو ہنسی آ گئی۔
”وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے نرمی سے بولا۔
”رشی!“ اس نے چہرے سے چادر ہٹائی۔
”میرے ساتھ بات کرنے کی ضرورت نہیں عبی! ورنہ بہت بری طرح سے پیش آؤں گی۔“ رمشا نے ناگواری کا برملا اظہار کیا۔
”تم اچھی طرح سے کب پیش آتی ہو؟“ عبد نے معصومیت سے پوچھا۔
”میں تم سے ناراض ہوں۔“ وہ پاس رکھا تکیہ منہ پر رکھنا چاہتی تھی‘مگر عبد نے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi