Episode 25 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 25 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

پورے آٹھ گھنٹے ہو چکے تھے۔ وہ مسلسل ایک ہی پوزیشن میں ہسپتال کے ٹھنڈے کوریڈور میں ہر شے سے بے نیاز بیٹھی تھی۔ اس کے لبوں پر صرف ایک ہی ورد تھا۔ دل کی ایک ایک دھڑکن اور ہر ہر سانس عبد کی زندگی کیلئے دعا کر رہی تھی۔
”یا اللہ! اسے زندگی دینا۔ میرے مالک! میں اس کی جدائی کبھی سہ نہیں پاؤں گی۔مالک! مجھے میرے گناہ پر ایسی سزا مت دینا جس کا بوجھ میرے وجود کو ریزہ ریزہ کر دے۔
یا اللہ! ہم تیرے حقیر بندے‘عقل اور شعور کو خود سے دور رکھے اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ ہم نہ کسی کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے اور نہ ہی ایسا ظرف لا سکتے ہیں۔ مگر اے میرے اللہ! تجھے تیری رحیمی کا واسطہ‘مجھے عبد کی زندگی کی بھیک چاہئے۔ مجھے خالی مت لوٹانا۔ اے میرے اللہ! تجھے تیری کریمی کا واسطہ! میرے خالی ہاتھ کو دیکھ لے۔

(جاری ہے)

مجھ گناہ گار کی فریاد کو سن لے۔

اس نے آنسوؤں کے گویا دریا بہا دیئے تھے۔ برسوں کا بغض تھا‘کینہ تھا‘غصہ تھا‘نجانے کیا کچھ تھا ان آنسوؤں میں‘جو بہتا چلا گیا۔ دھلتا چلا گیا اور جب اس نے سجدے سے سر اٹھایا تو اس کا دل ہلکا ہو چکا تھا۔ اپنی غلطیوں پر ندامت کا ایک ایک اشک بہا کر وہ مطمئن ہو گئی تھی اور یہ اطمینان اس بات کا اشارہ تھا کہ اس کی دعاؤں کو شرف قبولیت حاصل ہو گیا تھا۔
عبد جرار کی بند آنکھیں دھیرے دھیرے کھلنے لگی تھیں۔ اسے ہوش آ گیا تھا اور یہ خوشخبری سنانے والے عناس لالہ تھے۔ وہ اس کے قریب بیٹھ گئے اور پھر انہوں نے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ یا۔
”رشی!“
”لالہ!“ وہ ان کی آواز سن کر ندامت کی دلدل میں پھر سے گر پڑی۔ ”لالہ! مجھے معاف کر دیں۔ میری وجہ سے عبد کی یہ حالت ہو گئی۔ میں بہت بری ہوں۔
بہت ظالم ہوں۔ بہت خود غرض ہوں۔ مجھے معاف کر دیں لالہ۔“ وہ ان کے کندھے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
”رشی گڑیا! بس کرو… خود کو سنبھالو دیکھو‘عبد کو ہوش آ گیا ہے۔ اس کے سامنے رو گی تو اسے تکلیف ہوگی۔“ وہ اس کا سر تھپک کر مسلسل تسلیاں دے رہے تھے اور جب وہ تھوڑا سنبھلی تو پھر انہوں نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بولنا شروع کیا۔
”معافی تمہیں نہیں‘بلکہ مجھے مانگی چاہئے۔
غلطی کسی اور کی نہیں‘سراسر میری تھی۔ میں نے جانچ پڑتال کیوں نہ کی تھی۔ میں نے وضاحت کیوں نہ طلب کی؟ مجھے چاہئے تھا کہ معلم ہونے کے ناتے تم سے باز پرس کرنے سے پہلے بات کی تہہ میں اترتا۔ تمہیں بے عزت کرنا‘تم پر ہاتھ اٹھانا‘یہ سب میرے جرم ہیں رشی! مجھے معاف کر دو بیٹا! میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا کہ ایک بچی میرے فعل سے دل برداشتہ ہو کر مسیحائی جیسے پروفیشن سے نفرت کرنے لگی۔
تم نے اپنا خواب ادھورا چھوڑ دیا۔ صرف اور صرف میری وجہ سے۔“
وہ لب کچلتے ہوئے شاید ضبط کی کڑی منازل سے گزر رہے تھے۔ رمشا کے دل میں چبھا ایک اور کانٹا بھی نکل گیا تھا۔ لالہ کی وضاحت نے اس کے دل کو پرسکون کر دیا تھا۔
”اگر میرا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا ہو جاتا تو پھر مجھے عبد جرار کبھی نہ ملتا۔ اللہ نے میرے ایک خواب کو ادھورا کرکے میری زندگی کی ہر خوشی کو مکمل کر دیا‘مگر میں اپنی نادانی میں سمجھ نہیں پائی۔
اگر آپ کی وجہ سے میرا دل اس حد تک شکستہ نہ ہوتا تو پھر میں بھلا عبد تک کیسے پہنچتی؟ آپ سے انتقام لینے کے جنون نے مجھے عبد کے بے حد قریب کر دیا تھا۔ میں تو آپ کی احسان مند ہوں‘مجھے آپ کے توسط سے سچے موتی جیسے دل والا عبد جرار مل گیا۔ جس کی سوچوں پر‘خیالوں پر‘خوابوں صرف میرا ہی قبضہ ہے۔“

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi