Episode 29 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 29 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”ڈیڈی! مما مجھے اسلام آباد بھجوانے لگی ہیں۔“
ڈائننگ روم میں گھستے ہی میں نے دہائی دینا شروع کر دی تھی۔ تائی امی یعنی بڑی مما اور ڈیڈی (تایا ابو) آدھا گھنٹہ پہلے ہی گھر آئے تھے۔ دونوں عماد بھائی کے بیٹے کو دیکھنے کراچی گئے ہوئے تھے۔ عماد بھائی ڈیڈی کے اکلوتے بیٹے تھے اور میں اپنے پاپا اور مما کی اکلوتی بیٹی۔ بس یہی ہمارا مختصر سا خاندان تھا۔
عماد بھائی مجھ سے پندرہ سال بڑے تھے۔ ان کی شادی کو نو سال ہونے والے تھے اور ان کے ہاں تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے دو ماہ بعد بڑی مما اور ان کی واپس آج ہی ہوئی تھی اور میرے فیل ہو جانے والے کارنامے کے متعلق بھی انہیں پتا چل چکا تھا۔
”سائرہ! ہماری بیٹی کو اتنی دور مت بھجواؤ۔ بھلا اس چہکتی مینا کے بغیر ہم رہ پائیں گے۔

(جاری ہے)

“ ڈیڈی فوراً جذباتی ہو گئے تھے۔
”بھائی جان! اس نالائق کو نبیلہ ہی سدھارسکتی ہے۔ شاید میٹرک میں یہ پاس ہو ہی جائے۔“ مما بھی جذباتی ہو گئی تھیں اور مجھے بھی کر دیا تھا۔
”مجھے آرٹس پڑھنے دیتیں تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔“
”زبان بہت چلتی ہے تمہاری۔ دماغ کو بھی کبھی زحمت دے لیا کرو۔“ مما کو میرا بیچ میں بولنا قطعاً نہیں بھایا تھا۔
”سائرہ! ساجی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بچے کا شوق اور دلچسپی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔“ ہمیشہ کی طرح پاپا اور ڈیڈی میری حمایت میں بولے تھے۔
”آپ کی ان باتوں نے اس کا دماغ خراب کر رکھا ہے۔“ مما کا موڈ آف ہو چکا تھا۔ میں نے بمبئی بریانی اور تکہ بوٹی سے خوب انصاف کیا اور دعا پڑھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔
صبح ہر صورت مجھے اسلام آباد جانا تھا اور آج کی رات میں جی بھر کر سونا چاہتی تھی۔
بدقسمتی سے میں مما اور پاپا کی اکلوتی اولاد تھی۔ اگر ان کے اور بھی تین چار بجے ہوتے تو شاید مما کی توجہ بٹ جاتی۔ مگر ہمارے خاندان میں بچوں کا فقدان تھا بلکہ قحط کہنا مناسب ہوگا۔
اللہ بخشے دادی مرحومہ جب زندہ تھیں تو مما اور بڑی مما کی ہر وقت شامت آئی رہتی تھی۔ انہیں اس بات کا بہت قلق تھا کہ ان کی اولاد کی بہت کم اولاد ہے۔ بڑی مما ایک بیٹے کی ماں تھیں۔
اسی لئے ان کی کچھ بچت ہو جاتی تھی۔ البتہ میری مما پر تو دادی کا اکثر و پیشتر عذاب نازل ہوتا رہتا تھا۔
”سائرہ نے اس”شیرنی“ کو پیدا کرکے گویا کے ٹو کا پہاڑ سر کر لیا ہے۔“ دادی بھی میری اچھی صحت سے خاصا جلتی تھیں۔ یہی حال نبیلہ پھوپھو کا تھا۔
”دماغ کو زحمت جو نہیں دیتی۔ اسی لئے گوشت کا پہاڑ بنتی جا رہی ہے۔“
انہوں نے میرے بھرے بھرے سڈول سراپے کو گوشت کے پہاڑ سے تشبیہ دے کر میرے نازک جذبات کو بری طرح سے مجروح کر دیا تھا۔
اپنی تو صرف دو ہی منحنی سی تاڑ کی طرح لمبی‘سوکھی بانس جیسی دو بیٹیاں تھیں اور ڈگریاں میرے حصے کی بھی اکٹھی کر رکھی تھیں۔ اس طرح کے رویوں کی میں بچپن سے ہی عادی تھی۔ میری صحت اور تعلیم‘یہ دو ایسے مسئلے تھے جو میرے خاندان والوں کیلئے مسئلہ فلسطین بن چکے تھے۔ نہ تو میں مما‘دادی اور پھوپھو کی خواہش کے مطابق اپنی صحت ڈائٹنگ کے شوق میں تباہ کر سکتی تھی اور نہ ہی میٹرک میں مجھ سے پاس ہوا جا رہا تھا۔
یہ دونوں کام یوں لگتا تھا جیسے میرے اختیار سے باہر ہیں۔ کھانا پینا چھوڑ کر میں کیسے ٹی بی کی مریضہ بن سکتی تھی؟
”سوکھی سڑی ہڈیوں کی ڈھانچہ سی ساحیہ مراد بھلا کیسی لگتی؟“ یہ سوچ ہی مجھ پر کپکپی طاری کر دیتی تھی۔ سو میں ڈٹ کر تینوں وقت کا کھانا کھاتی تھی۔ مما کی گھوریوں کی پرواہ کئے بغیر اور رہا پڑھائی کا مسئلہ… تو شاید کسی نہ کسی طرح میرا میٹرک میں اے پلس آ جاتا اگر مما مجھے آرٹس پڑھنے دیتیں۔ شاید اس وقت میں اردو ادب یا فائن آرٹ میں اپنا نام بنا چکی ہوتی۔ مگر ہائے میری قسمت‘مجھے تو ابھی تک برقی کرنٹ اور مقناطیسیت کے درمیان تعلق کو معلوم کرنے والے کا نہیں پتا تھا کہ وہ فلیمنگ ہے‘نیوٹن ہے‘فیراڈلے ہے یا پھر اور سٹڈ ہے۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi