Episode 12 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 12 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

منگنی کے بعد رمشا پہلی مرتبہ خود اس سے ملنے کیلئے آئی تھی اور پھر عبد نجانے کیوں اس سے ملاقات کے بہانے ڈھونڈنے لگا تھا۔ شاید وہ رمشا کی شدتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر چکا تھا یا پھر رمشا نے اپنے باپ کو اس کے گھر بھیج کر عجیب سی ندامت میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ ایک بیٹی کے باپ کو جھکانا نہیں چاہتا تھا۔ اگر واجد اکرام بے بس ہو کر اپنے کندھے جھکا چکے تھے تو پھر اس کی شرافت نے گوارا نہیں کیا کہ وہ ایک بیٹی کے باپ کو ذلیل کرتا یا پھر رمشا کو اپنے گھر والوں کی نظر میں ہلکا کر دیتا۔

اس نے عناس لالہ کے سامنے اعتراف کر لیا تھا۔
”لالہ! ہماری فون پر ہی دوستی ہوئی تھی اور میں رمشا سے محبت کرنے لگا۔ میں سمجھا آپ کبھی نہیں مانیں گے‘کیونکہ ہمارے اور رمشا کے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

(جاری ہے)

سو مجبوراً اسے اپنے باپ کو ادھر بھیجنا پڑا۔“

”اٹس اوکے میری جان! محبت کرنا جرم نہیں… مگر محبت طریقے سلیقے سے کرنا چاہئے۔
تم اگر مجھے بتا دیتے تو واجد صاحب کو خود آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔“ لالہ نے محبت سے اس کا شانہ ٹھپک کر کہا تھا۔
پھر رمشا اور اس کی ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا تھا۔ حالانکہ شادی سے پہلے کا میل ملاپ اسے پسند نہیں تھا‘مگر رمشا میں نجانے کیسی مقناطیسی کشش تھی۔ وہ اس کی محبت میں دن بدن اور آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
وہ بے حد خوب صورت تھی‘تعلیم یافتہ تھی۔
ہر لحاظ سے مکمل تھی اور سب سے بڑی بات عبد جرار کی محبت میں مبتلا تھی اور یہ محبت کے ساتھ سب سے بڑی نانصافی ہوتی کہ اسے بدلے میں نفرت یا بے اعتنائی ملے۔
”تم نے مجھے کہاں دیکھا تھا رمشا؟“ وہ اکثر اس سے یہی سوال کرتا تھا‘جس کا جواب وہ کافی شاعرانہ انداز میں دیتی تھی۔
”میری اور تمہاری روح دنیا میں آنے سے پہلے ملاقات کر چکی ہے عبد!“
”پھر بھی رمشا! بتاؤ نا۔
“ اس کا اصرار ہمیشہ قائم رہتا۔
”شاپنگ مال میں دیکھا تھا۔“ اس نے سچ بتا دیا۔
”اور پھر نمبر کیسے لیا؟“
”بس لے لیا۔ جذبے خالص تھے۔“ وہ ہنس دیتی۔
”میں ایک غریب سا سپاہی ہوں۔ تمہاری نظر مجھ تک کیسے پہنچی؟“
”عبی! یہ دل کے معاملے ہوتے ہیں۔ ہماری تمہاری سمجھ سے بالاتر ہیں۔“
”اور تمہارا دل مجھ پر آکے ٹھہر گیا؟“ وہ حیران ہو کر پوچھتا۔
”ہاں‘میں تمہارے سارے میچ دیکھنے کیلئے آتی تھی۔“
”میں ایک اچھا کھلاڑی نہیں ہوں‘پھر بھی؟“
”ہاں‘پھر بھی… کیونکہ میرا دل چاہتا تھا‘تم بہت اچھے اور معصوم ہو۔ سچی عبی! تمہاری آنکھیں اتنی معصوم‘صاف و شفاف ہیں۔ یوں لگتا ہے‘گویا کوئی نومولود دنیا کو حیرانی سے دیکھ رہا ہو۔“ اس کی اپنی آنکھیں اس لمحے ستاروں کی طرح چمکنے لگتی تھیں۔
”توبہ‘اتنی بھی مبالغہ آرائی نہ کیا کرو۔“ وہ ہنس پڑتا۔
”تم مجھ سے بہت محبت کرتی ہو نا؟“ اب وہ نجانے کون سی یقین دہانی چاہ رہا تھا۔ رمشا کا سر خود بخود اثبات میں ہل گیا۔
”ایک بات تو بتاؤ عبی!“ کچھ سوچ کر وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
”پوچھو؟“
”تم میری طرف کیسے ملتفت ہو گئے؟ پچھلے ایک سال سے میں تمہارے پیچھے پاگل ہو رہی تھی مگر تم توجہ ہی نہیں دیتے تھے۔
پھر ایسا کیا ہوا؟“
”مجھے تمہاری محبت کی شدت نے متاثر کیا تھا رمشا! اس دنیا میں خالص محبت اب ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کون کسی سے محبت کرتا ہے‘وہ بھی بغیر کسی غرض کے۔ میں نے تمہاری محبت میں خلوص دیکھا اور مجھے اچھا لگا۔ مجھے تم سے اچانک یا لمحوں میں محبت نہیں ہو گئی تھی۔ پورے ایک سال سے کہیں میرے اندر بھی یہ جذبہ خود بخود پنپنے لگا تھا۔
خود سوچو‘اگر میرے میں یہ نرم سا بیج نہ ہوتا تو تمہاری کالز کیونکر اٹینڈ کرتا۔ میں نے تم سے بہت سوچ بچار کرکے محبت نہیں کی۔ بس وہ لمحے ہی کچھ ایسے تھے جب تمہارا نام میرے دل کی خالی مسند پر خود بخود سج گیا۔ شاید اسی وقت جب لالہ نے مجھے بتایا تھا کہ تمہارے پاپا ہمارے گھر آئے ہیں۔ مجھے لگا تھا‘اگر ہم نے ان کے شکستہ کندھوں پر کچھ اور بوجھ لاد دیا تو وہ جی نہیں پائیں گے… شاید ایک باپ کی بے بسی کا جذبہ بھاری تھا یا پھر تمہاری خالص محبت کا۔
بس عبد جرار تو بن دیکھے تمہاری محبت میں گوڈے گوڈے ڈوب گیا۔“
وہ سحر انگیز آواز میں کہہ رہا تھا رمشا کا دل لمحہ بھر کیلئے ڈوب کر ابھرا۔
”تم ہمیشہ میری رہو گی نا؟“ وہ محبت کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد پہلا وعدہ لے رہا تھا۔
”ہاں۔“ وہ مسکرائی نہیں تھی۔ مگر اس نے مسکرانے کی کوشش ضرور کی تھی‘مگر اس کوشش میں وہ بری طرح سے ناکام ہو گئی۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi