Episode 18 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 18 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

عید کے فوراً بعد اس کی شادی کی تیاریاں ہونے لگی تھیں۔ اس کا تمام غصہ‘ضد‘اکڑ اور رونا دھونا ناکام ثابت ہوا تھا۔ممی اور پاپا کچھ سننے کو تیار نہیں تھے۔ اس کے بار بار کے انکار نے ممی جیسی نرم مزاج کو بھی خاصا مشتعل کر دیا تھا۔
”تم سائیکو کیس ہوتی جا رہی ہو رشی! بہت دفعہ تمہارے پاپا کو کہا تھا کہ تمہیں کسی ماہر نفسیات کو دکھائیں۔
عجیب پاگل پن ہے یہ… پہلے عبد کیلئے مر رہی تھیں‘ہم عزت ہاتھوں میں لئے اس کے گھر چلے گئے کہ لاڈلی بیٹی کی آنکھ کے آنسو برداشت نہیں ہوتے تھے اور اب بلاوجہ کا انکار…یہ نکاح ہے‘کوئی کھیل نہیں‘جو ایک گھنٹے کے ڈرامے کے بعد ختم ہو جائے۔“
”ممی! پلیز‘میں ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں۔“ اس سے بات بھی تو بن نہیں پائی تھی۔

(جاری ہے)

”یہ ہمارا درد سر نہیں۔
ڈیٹ فکس ہو چکی ہے۔ کارڈز بٹ گئے ہیں۔ سوسائٹی میں ہمیں اور ان شریف لوگوں کو… کیوں ذلیل کرنا چاہتی ہو۔“ ممی تھک کر بولیں۔ آزمائش چاہے بیٹے کی صورت میں ہو یا بیٹی کی شکل میں‘ماں‘باپ کو بالکل ڈھا کر رکھ دیتی ہے۔
”بھرا پرا خاندان ہے ہمارا… تمہاری بھابھیاں‘ان کے میکے والے… ہم کس کس کو جواب دیتے پھریں گے جبکہ عبد کیلئے تمہاری پسندیدگی کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں۔
حالانکہ جازم کیلئے اپیا نے دہلیز پکڑ رکھی تھی‘ مگر میں نے اور تمہارے پاپا نے صرف اور صرف تمہاری خوشی کا خیال رکھا۔ ہم نے رشتے داری میں تمہارے دل کو قربان نہیں کیا۔ کیوں اتنا ستاتی ہو رشی!“ وہ گویا بالکل ڈھے گئیں تھیں۔
”سوری ممی! میں ایسا چاہتی تو نہیں‘پھر بھی نہ جانے کیوں مجھ سے ایسا ویسا ہو جاتا ہے‘غیر ارادی طور پر… میری شخصیت میں یہ کمی کیوں ہے؟ میں عام نارمل لوگوں جیسی کیوں نہیں؟“
رمشا سسکنے لگی۔
سچ تو یہ تھا کہ وہ اس شادی کیلئے رضا مند تھی ہی نہیں۔ کھیل کھیل میں وہ آگ کے بھانبھڑ جلا بیٹھی تھی۔ اس آگ کی لپیٹ میں خود اس کا اپنا دل جل جائے گا‘یہ تو رمشا اکرام نے سوچا ہی نہیں تھا۔ اگرچہ ہار تو وہ چکی ہی تھی‘مگر اس کی انا اسے ہار ماننے نہیں دیتی تھی۔
وہ عبد کو دیکھ لینے کے بعد اس کی محبت میں مبتلا ضرور ہو گئی تھی۔ یہ سب سے بڑا سچ تھا‘مگر وہ اس کے گھر والوں کے خلاف دل میں کینہ رکھتی تھی اور یہ اس سے بھی بڑا تلخ ترین سچ تھا۔
عبد کی مختصر فیملی کے افراد اوّل روز سے ہی رمشا کی نظر میں کھنکتے تھے۔ وہ ان کے خلاف دل میں نفرت اور بغض رکھتی تھی اور یہ نفرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب اسے مستقل طور پر اس گھر میں آکر رہنا پڑا۔
######
پہلے روز ہی سے اس نے ان سب سے کافی سرد رویہ رکھا تھا۔ وہ لوگ اس کی خاموشی اور سرد انداز کو شرم یا جھجک پر محمول کر رہے تھے۔
سو مطمئن بھی تھے‘مگر شادی کے دوسرے روز ہی ان کا اطمینان جاتارہا تھا۔
”دلہن! ناشتہ کرنے کیلئے نیچے نہیں آ رہی۔“ کسی خاتون نے اطلاع پہنچائی تھی۔
”کیوں؟ کیا ابھی تک تیار نہیں ہوئی؟“ حوریہ ناشتے کے لوازمات میز پر سجا رہی تھی۔ آج نئی دلہن کیلئے خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔یہ اس گھرانے کی روایت تھی کہ گھر کے افراد ہمیشہ ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔
نئے آنے والے ہر فرد کو بھی اوّل روز سے باور کروا دیا تھا‘تاکہ وہ بھی بغیر جھجکے گھر والوں سے گھل مل سکے۔
آج بیگم عدیلہ جرار بھی کافی پرجوش تھیں اور بہو کے ساتھ کچن میں برابر کام کروا رہی تھیں۔
”حوریہ بیٹا! تم ایک دفعہ رمشا سے پوچھ لیتی کہ ناشتے میں وہ کیا لینا پسند کرے گی۔“ وہ اتنے اہتمام کے باوجود بھی مطمئن نہیں تھیں۔
”میں ابھی پوچھ کے آتی ہوں۔“ حوریہ نے فرمانبرداری سے سر ہلا کر کہا اور پھر اوپر آ گئی۔ رمشا اٹھ چکی تھی‘نہانے کے بعد ہلکے پھلکے لباس میں بہت شگفتہ اور ترو تازہ لگ رہی تھی۔
”لگتا ہے عبی پوری رات چاند تاروں اور گلابوں کی باتیں ہی کرتا رہا ہے۔ ماشاء اللہ سے سراپا گلاب ہی بنی ہوئی ہو۔“ حوریہ نے شرارتی انداز میں اسے چھیڑا۔
”آپ نے ٹھیک کہا۔ مجھے عبی کی محبت پر فخر ہے۔“ وہ کافی مغرورانہ انداز میں چہکی۔
”ماشاء اللہ‘اللہ نظر بد سے بچائے اور ہمیشہ تمہاری خوشیوں کو سلامت رکھے۔“ حوریہ نے صدق دل سے کہا۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر اپنے سلکی بالوں میں بڑے اسٹائل کے ساتھ برش پھیرتی رہی تھی۔
”ناشتے میں کیا لوگی؟“ حوریہ جس مقصد کیلئے کمرے میں آئی تھی‘اسی کے متعلق پوچھنے لگی۔
”صرف جوس۔“
”سیب اور انار موجود ہیں‘کون سا جوس بناؤں؟“
”ایپل جوس۔“ وہ بے نیازی سے بولی۔
”اوکے! پھر تم تھوڑی دیر تک نیچے آ جانا۔ عناس اور عبد بھی جاگنگ سے واپس آ جائیں گے۔ ناشتہ سب اکٹھے کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے نا۔“ حوریہ نے اس کے گلابی چمکیلے گالوں کو چھو کر پیار سے کہا اور باہر کی طرف جانے لگی تھی‘جب رمشا کی آواز سن کر رش گئی۔
”یہ ٹھیک نہیں ہے۔“
”کیا مطلب؟“ حوریہ قطعاً سمجھ نہیں پائی۔
”مطلب تو بہت واضح ہے۔ میں ناشتے میں صرف جوس لیتی ہوں‘سو اوپر بھجوا دیجئے گا۔مجھے سب کے ساتھ ناشتہ نہیں کرنا۔“ اس نے برش ہوا میں اچھالا تھا جو صوفے پر سیدھا جا گرا۔
حوریہ ابھی تک الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ گویا وہ اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”مگر رشی! ماما چاہتی ہیں کہ تم بھی ناشتے میں ہمارا ساتھ دو۔ اس طرح تمہاری عادت بھی پختہ ہوگی اور آپس کی محبت بھی بڑھے گی۔“ حوریہ نے نرمی سے وضاحت کرنا چاہی‘مگر رمشا نے کافی بدتمیزی سے اسے ہاتھ اٹھا کر ٹوک دیا۔
”مجھے آپس کی محبت بڑھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔“
”رشی! کچھ مسئلہ ہے‘عبی نے کچھ کہا ہے؟“ حوریہ بری سے گھبرا گئی تھی۔
ظاہر ہے اپنی کوئی غلطی تو اس کی نظر میں تھی نہیں‘سو اس کا دھیان فوری طور پر عبی کی طرف گیا تھا۔
”عبی بھلا کیا کہے گا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے اور مجھے اس کی محبت پر فخر ہے۔“ اس کا انداز بلا کا شاہانہ تھا۔ حوریہ کو اس کا انداز ذرا بھی نہیں بھایا۔ مگر وہ پھر بھی تحمل کا مظاہرہ کرتی رہی۔
”پھر آخر مسئلہ کیا ہے؟ مجھے بھی نہیں بتاؤ گی؟“ وہ مان بھرے لہجے میں بولی تھی مگر رمشا کو مان رکھنا بھلا کہاں آتا تھا۔
”اگر کوئی مسئلہ ہوا تو آپ لوگوں سے ہرگز شیئر نہیں کروں گی۔ اس خوش فہمی میں مت رہئے گا۔“ اس نے نخوت سے کہا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi