Episode 61 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 61 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

عشوہ کو طبیعت کے بھاری پن نے کچھ چونکا تو دیا تھا‘مگر وہ پھر بھی بے یقین سی تھی۔ وہموں میں پڑ رہی تھی۔ بھلا بارہ سال بعد کسی خوش خبری کی امید کی جا سکتی تھی۔ مگر مہربان رب نے اپنی مہربانی اورفضل کا سایہ کر دیا تھا۔
صبح صبح جی بری طرح سے متلا رہا تھا۔ بچیوں کو اسکول بھیج کر وہ بھابھی بیگم کی طرف آ گئی تھی۔بھابھی بیگم تو فوراً تیار ہو گئیں‘چہرہ کھل اٹھا تھا۔
ڈاکٹر سے تصدیق کروا کر ہی وہ گھر لوٹی تھیں۔بھابھی بیگم کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ عشوہ کو تخت پر بٹھا کر خود وہ کچن میں گھس گئی تھیں۔ بچیوں کے گھر آنے کا وقت بھی قریب تھا۔ عموریہ اور ایمن بھوک کی بہت کچی تھیں اور عروسہ تو ان دونوں پر بھاری تھی۔ بھابھی بیگم کی مہربانی سے گھر میں موجود سبزی تیار ہو گئی تھی۔

(جاری ہے)

آٹا تو عشوہ سویرے ہی گوندھ لیتی تھی‘سو بھابھی بیگم نے جھٹ پٹ پھلکے اتار دیئے تھے۔

پودینے کی چٹنی بھی پیس دی۔ البتہ سلاد عشوہ نے بنا لیا۔
اس کی طبیعت خاصی بے زار تھی۔ کچن کے کام سے ہی ابکائی آنے لگتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آگے چل کر نہ جانے کیسے وہ ساری گھر گرہستی کو سنبھال سکے گی۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی‘جب بچیاں اور عروسہ بھی آ گئی۔ بھابھی بیگم نے تو علی الاعلان کہہ دیا تھا۔
”چاروں لڑکیاں غور سے سن لو! اپنے اپنے کام اب خود کرنے ہیں تم لوگوں کو۔
”مگر کیوں؟“ سب سے پہلے عروسہ نے حیرانی سے پوچھا۔ ”عشوہ جی‘کہیں جا رہی ہیں؟“ اس کا حیران ہونا بھی فطری تھا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا تھا کہ شاید عشوہ کہیں جا رہی ہے اور عشوہ کا کہیں بھی جانے کا تصور ان سب کیلئے سوہان روح تھا۔ عروسہ تو اَن گنت کاموں کے متعلق سوچ کر ہی کانپ کانپ گئی۔
”عشوہ کہیں بھی نہیں جا رہی۔
“ بھابھی بیگم نے پھر سے اعلان کیا۔
”تو پھر ہمیں کس بات کی سزا سنائی جا رہی ہے؟“عروسہ نے فق چہرے پر ہاتھ پھیر کر پوچھا۔ کام سے اس کی جان جاتی تھی۔
”خیر سے عشوہ کو اب آرام کی ضرورت ہے۔“بھابھی بیگم کا لہجہ خود بخود دھیما ہو گیا۔وہ عروسہ کی طرف متوجہ تھیں۔تاہم سر جھکائے کھانا کھاتی عمیمہ کا پورا دھیان ان دونوں کی گفتگو کی طرف تھا۔
عشوہ ان کی باتوں سے بے نیاز نہانے کیلئے چلی گئی تھی۔ اسے سخت گرمی محسوس ہو رہی تھی۔
”ہائے! بھابھی بیگم! خیریت تو ہے؟“ عروسہ عادتاً دہل اٹھی۔
”سب خیریت ہے۔“ بھابھی بیگم نے نہال ہو کر کہا۔
”تو پھر آرام کیوں؟ میرے تو ٹیسٹ ہونے والے ہیں۔ مجھ سے گھر کے کام تو بالکل نہیں ہوں گے۔“عروسہ خوامخواہ روہانسی ہو گئی۔
”ارے گنتی کے دن ہیں۔
خیر سے فراغت کے بعد اپنی گھر گرہستی خود ہی سنبھال لے گی۔ کاہے کو مری جا رہی ہو۔“ انہیں غصہ آ گیا۔ ویسے بھی ان کا غصہ خاصا مشہور قسم کا تھا۔
”کیسی فراغت؟عروسہ نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔“ بھلا کیا ضرورت تھی اس جھنجھٹ کی۔ پھر سے ریں ریں کا سلسلہ۔ عروسہ کو شدید کوفت ہوئی۔ وہ کلس کر سوچتی رہی۔
”خیر سے عمیمہ کا بھائی ہونے والا ہے‘بس دعا کرنا‘اللہ تم سب کو میٹھا میوہ دے۔
“ عروسہ کو بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ نہ صرف عشوہ کا ہاتھ بٹائے بلکہ اس کا خیال بھی رکھے۔
”میٹھا میوہ؟“عروسہ نے مصنوعی چونکنے والے انداز میں کہا۔ ادھر عمیمہ بھی ٹھٹک گئی تھی۔دل میں اک انوکھا سا احساس ہوگا۔
”تو اور کیا‘تین بیٹیوں کے بعد ہوگا۔ میٹھا میوہ ہی ہوا نا۔“وہ پرانے خیالوں کی مالک تھیں۔ بیٹوں کی آمد پر خوش ہونے والی۔
”لو جی! پھر سے سپایا۔“اس نے بے زاری سے سوچا اور نیند سے بند ہوتی آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی تھی۔بھابھی بیگم اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ساری نصیحتیں بے کار گئی تھیں۔ کھانے کے جھوٹے برتن گویا ان کا منہ چڑا رہے تھے۔ یونیفارم اور کتابیں صوفے اور کارپٹ پر بالترتیب بکھری پڑی تھیں۔ یقینا عشوہ کے علاوہ کسی اور نے اس پھیلاوے کو ہرگز نہیں سمیٹنا تھا مگر ان کی سوچوں کے برعکس ایک نرم ہاتھ ان کے کندھے سے مس ہوا تھا۔
انہوں نے چونک کر دیکھا۔ عمیمہ دھیمی آواز میں کہہ رہی تھی۔
”دادی بیگم! میں ہوں نا‘ماما کا ہاتھ بٹایا کروں گی‘آپ ان سے کہیے گا‘کام کی فکر نہ کریں۔“
”دادی صدقے۔“ بھابی بیگم گویا نہال ہو کر رہ گئیں۔ ”ایسی سعادت مند بیٹیاں‘دل کو ٹھنڈا کر دیا ہے بیٹی۔“ اسی پل عشوہ بھی نہا کر آ گئی تھی اور اب پھرتی سے برتن سمیٹنے لگی‘عمیمہ نے ماں کو روک دیا۔
”ماما! رہنے دیں‘میں کر لیتی ہوں۔“

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi