Episode 4 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 4 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

وہ کالج کے زمانے سے ہی بہت اچھی ہاکی کھیلتا تھا۔ اگر عناس لالہ اسے اکیڈمی نہ بھیجتے تو شاید آج وہ قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہا ہوتا۔ اتنی سخت ملازمت میں بھی وہ اپنے اس شوق کو ختم نہیں کر پایا تھا۔ اس کے جیسے ہاکی کے کئی شوقین اور جنونی لڑکوں نے دو ٹیمیں بنا رکھی تھیں۔ فرصت کے دنوں میں وہ میچ رکھ لیا کرتے تھے۔ فائنل سے پہلے کافی پریکٹس بھی کی جاتی تھی۔
جس دن ان کے سالانہ یا ماہانہ میچ شروع ہوتے تھے۔ تقریباً پورے بیس کے شائقین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے وہ اور جازم اب محنت کے بعد میدان میں آئے تھے۔ مگر اس میچ میں قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
عبد جرار کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ مگر اب اس کے پاس صرف تین مربع زمین تھی۔ عبد کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔

(جاری ہے)

اس کی ماما تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔

انہوں نے اپنے بیٹوں کے مستقبل کی خاطر زمین بیچ کر شہر میں دو منزلہ مکان لے لیا تھا اور خود ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھانے لگی تھیں۔ ان کی تمام تر توجہ اپنے بیٹوں کی طرف تھی۔ بیگم عدیلہ جرار نے اپنے بیٹوں کی زندگی بنانے کیلئے بے حد جدوجہد کی تھی۔ اپنے بچوں سے انہیں بے انتہا محبت تھی۔ اسی طرح عناس اور عبد بھی ماں کے ہر فیصلے اور ہر بات کو حکم کا درجہ دیتے تھے۔
بیگم عدیلہ کی ایک بیوہ بہن بھی ان کے گھر میں رہائش پذیر تھیں۔ عاشرہ کی تین بیٹیاں تھیں۔ مونسہ‘مونا اور مینا… ان کی رہائش اوپری منزل پر تھی۔ مونسہ ماسٹرز کر چکی تھی اور اب ایک اچھی ساکھ رکھنے والے اسکول میں پڑھاتی تھی۔ مونا نے بی اے کر لیا تھا۔ ان دنوں انگریزی زبان سیکھنے کے خبط میں مبتلا تھی۔ سب سے چھوٹی مینا تھی۔ جو کہ فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔
مختلف تعلیمی اداروں میں عبد کو بے شمار دوستوں کا ساتھ ملا تھا‘مگر جو دوستی عناس لالہ اور اس کے درمیان تھی۔ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی تھی۔ عبد میں گویا عناس کی جان تھی۔ عبد کو معمولی سی تکلیف کیا ہوتی تھی‘اس کا دل پہلے سے ہی اسے سگنل پہنچا دیتا تھا۔ وہ اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتا تھا۔ ایک مرتبہ چھوٹے سے ایکسیڈنٹ میں عبد معمولی سا زخمی ہو گیا تھا مگر بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے خون بہنا بند نہیں ہو رہا تھا۔
تب عناس گویا پاگل ہونے لگا تھا۔ وہ ڈاکٹروں سے چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ ”میرے جسم کا سارا خون نکال کر عبد کو لگا دو۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں زندہ نہیں رہ پاؤں گا۔“
شاید اس لئے بھی یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ان کے بہت بچپن میں ہو گیا تھا‘تب ماما نے عناس کو ایک بات گویا گھول کر پلا دی تھی۔
”عبد کے تم بھائی نہیں ہو‘باپ بھی ہو۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر عبد کو تنہا مت چھوڑنا… عبد میرا دل ہے۔“ ماما گویا اس سے وعدہ لے رہی تھی۔
”اور عبد میرا بھی دل ہے۔“ عناس کے دل نے بھی ماں کی بات پر مہر لگا دی تھی۔ بہت بچپن سے ہی عبد کو محبتیں سمیٹنے کی عادت ہو گئی تھی۔ ماما اور عناس سے لے کر خالہ اور مینا تک سب ہی اسے ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھتے تھے۔
وہ جب بھی اکیڈمی سے گھر واپس آتا۔ گویا پورے گھر میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ سب ہی یوں مستعد ہو جاتے گویا کسی کمانڈر کی آمد کی اطلاع مل گئی ہو۔
مونسہ کچن میں گھس جاتی تھی۔ مونا اور مینا اس کا کمرا صاف کرنے کیلئے بھاگ اٹھتی تھیں۔ خالہ اس کے کپڑے استری کرتیں اور عناس ای کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بھی خیال رکھتا۔
عناس ذاتی کلینک بہت کامیابی سے چلا رہا تھا۔
عناس نے ایم بی بی ایس لاہور سے کیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈپلومیٹ ان ڈرماٹالوجی میں اعلیٰ تعلیم انگلینڈ سے اور پھر چار سال پہلے کاسمیٹک سرجری میں بھی امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ بے حد قابل اور لائق فائق سرجن تھا۔ اپنی فیلڈ میں خاصی شہرت رکھتا تھا مگر ماما کے ہزار مرتبہ کہنے کے باوجود ابھی تک تنہا تھا۔ نجانے کیوں شادی کے نام سے ہی بدکتا تھا‘حالانکہ چوڑیاں چھنکات بھابھی کو گھر میں لانے کیلئے عبد بھی خاصا بے قرار تھا مگ عناس کی ”نہ“ ابھی تک ”ہاں“ میں نہیں بدلی تھی۔
پچھلے دو دن سے وہ چھٹی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ مگر فی الحال تازہ تازہ شکست کا غم ابھی زندہ تھا۔ سو وہ ابھی تک کسی کا سامنا کرنے سے گریزاں تھا۔
وہ اس وقت بھی اپنے کمرے میں موجود تھا اور پروفیسر غفور احمد کی ”پھر مارشل لاء آ گیا“ پڑھنے میں بری طرح سے محو تھا جب دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر کیڈٹ ہارون اندر داخل ہوا۔ وہ لابی میں موجود فون بوتھ کا آپریٹر بھی تھا۔
عبد کا دھیان فوراً اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔
”سر! آپ کی کال آ رہی ہے۔“
”کہاں سے؟“ وہ خاموش پڑے سیل کی طرف دیکھ کر بولا۔
”آپ کے بھائی ہیں… اور کہہ رہے ہیں کہ اپنا موبائل آن کریں۔ انہیں کوئی ضروری بات کرنا ہے۔“ ہارون پیغام پہنچا کر باہر کی طرف چلا گیا۔ عبد نے فوراً کتاب بند کرکے سیل فون آن کر لیا۔ ابھی وہ عناس کا نمبر ملانے ہی لگا تھا کہ اسکرین پر ”لالہ کالنگ“ جگمگاتا نظر آ گیا۔
عناس نے چھوٹتے ہی سیل فون کی خاموشی کے متعلق جاننا چاہا تھا۔
”بیٹری لو ہو چکی تھی… اور چارجر ثوب کے قبضے میں تھا۔“ اسے فی الحال یہی بہانہ سوجھا۔
”کوئی اور بہانہ سوچتے… میری ابھی ثوب سے بات ہوئی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا‘میچ ہارنے کا سوگ منا رہے ہو۔“ عناس نے اگرچہ اس کا جھوٹ ٹھیک پکڑا تھا‘تاہم سوگ منانے والی بات نے اسے بے حد مشتعل کر دیا تھا۔ اس کا جی چاہا کال مقطع کرکے ثوب کو دو جھانپڑ لگا آئے‘مگر اپنی امن پسند فطرت کے باعث تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا۔ ادھر عناس اسے سمجھائے جا رہا تھا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi