Episode 35 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 35 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”بس جی‘کچھ نہ پوچھیں… لوگوں کے دو رخے چہرے ہیں۔“ وہ رنجیدگی سے بولا۔
”کس کے؟“ میں حیران ہوئی۔
”ہماری پھوپھو محترمہ۔“ وہ جل بھن کر بولا۔
”مگر ان کے دو چہرے کہاں ہیں؟ مجھے تو صرف ایک چہرہ ہی دکھائی دیتا ہے۔“ میں نے ہونق پن کر انتہا کر دی تھی۔
”میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں۔“ وہ جھنجلایا۔
”یہ جو میری پھوپھو ہیں نا… ایک نمبر کی بدعہد ہیں۔
وہ خوب جلا بیٹھا تھا۔
”انہوں نے کیا کیا؟“
”پھوپھو نے کہا تھا‘ان چھٹیوں میں وہ ضرور ہمارے گھر رہنے کیلئے آئیں گی مگر اب وہ مکر گئی ہیں۔“ کیف نے بسور کر بتایا تھا اور ادھر میرا منہ اتر گیا۔ جو کچھ میں سننا چاہتی تھی اور جس محبت کی کہانی کا مجھے انتظار تھا، سب خواب ہوا‘کھودا پہاڑ اور نکلا کیا؟
”تم گل کو ساتھ لے جاؤ۔

(جاری ہے)

وہ بھی بس آنے ہی والی ہے۔“ میں نے اس کو تسلی دینے والے انداز میں کہا تھا مگر وہ یوں اچھلا گویا اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔
”توبہ کریں جی! پھوپھو کو تو اس لئے ساتھ لے کر جاؤں گا۔ چند دن کیلئے ہی سہی‘میری کچن سے جان چھوٹ جائے گی۔ میں بھی چار دن سکھ کا سانس لے سکوں گا۔ مجھے پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ میں گل کو لے جاؤں تاکہ میری مزید سختی آ جائے۔
میں دو گھڑی کیلئے بھی کچن سے باہر نہ نکل سکوں۔“ کہہ تو وہ ٹھیک ہی رہا تھا۔ گل کی ہڈ حرامی اور کام چوری مجھ سے بڑھ کر کون جان سکتا تھا۔ کاہلی اور سستی خصوصاً کچن کے کاموں میں‘محترمہ گل پر ہی ختم ہوتی تھی۔
”کچن کے کاموں سے تو گل کی جان جاتی ہے۔“ میں نے شمو کو ٹرالی گھسیٹ کر اندر آتے دیکھ کر گھورا۔ اس کیلئے اتنا اہتمام کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔
پڑوس سے تو آیا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ شمو کا بھلا کیا قصور ہے۔ آرڈر تو میں نے خود ہی دیا تھا اور ادھر کیف نے مجھے ہکا بکا کر دیا۔ وہ کباب کھاتے ہوئے بول رہا تھا۔
”اسی لئے تو میرا اور فیملی پلٹون کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ گل ہماری بھابھی نہیں بن سکتی۔“ میں اس کیلئے چائے بناتے بناتے اچھل کر رہ گئی۔ اس نے بات ہی کچھ ایسی کی تھی۔
میرا چونکنا فطری تھا۔
”ہائے‘گل بھی ٹھکانے لگنے کے قریب قریب پہنچ گئی۔“ صدمے سے میرا پاؤ بھر خون خشک ہو گیا تھا۔ آنکھوں کے سامنے بی اے کی موٹی موٹی کتابیں گھومنے لگی تھیں۔ اگر اس سال بھی کوئی امید کی کرن نظر نہ آتی تو مجھے قوی یقین تھا‘مما نے اسلام آباد سے واپس آکر ایڈمیشن فارم میرے منہ پر ضرور دے مارنا تھا اور مجبوراً روتے دھوتے مجھے اس فارم کو بھرنا تو ضرور ہی تھا۔
ورنہ مما سے دھنائی کون کرواتا۔
”پھوپھو کی خواہش ہے۔ میرے بھائی سے گل کی بات بن جائے مگر میرے اور میری پلٹون جیسے ظالم سماج کے ہوتے ہوئے بھلا یہ بات بن سکتی ہے۔“
”مگر گل میں بھلا کیا کمی ہے؟“ میں نے مرے مرے لہجے میں کہا۔
”نہیں‘کمی تو کوئی نہیں… ہمارے لئے تو بہت اچھی ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ ہمیں گھر سنبھالنے کیلئے عورت کی ضرورت ہے‘نہ کہ کوئی ایسی آ جائے جو سارے نظام کو بگاڑ کر رکھ دے۔
اب دیکھیں نا‘گل سال کے چھ مہینے بیرون ملک کے دوروں پر رہتی ہے۔ ایسے میں ہمارے گھر کی بھلا کیا حالت ہوگی اور ویسے بھی گل اپنے کینیڈا والے چاچو کے بیٹے میں انٹر سٹڈ ہے۔ پھوپھو خوامخواہ جذباتی ہو رہی ہیں۔ خیر یہ ان کا اور گل کا ذاتی معاملہ ہے۔ امید ہے‘گل پھوپھو کو قائل کر ہی لے گی۔“ کیف نے چوتھا کباب اٹھاتے ہوئے وضاحت کی تھی۔ میں اسکی بات سمجھ کر سر ہلانے لگی۔
”میں پھوپھو کو لینے کیلئے آیا تھا۔ ایبک بھائی کیلئے ایک لڑکی دیکھی تھی مگر وہاں بات بنتے بنتے رہ گئی۔“ کیف کا منہ اتر گیا تھا۔
”مگر کیسے؟“ میں نے بے ساختگی سے پوچھ لیا۔
”محترمہ کو کچھ پکانا نہیں آتا۔“
”ہائے‘صرف اتنی سی بات؟“
”یہ اتنی سی بات نہیں۔“ کیف نے چکن رول اٹھایا اور پھر دوبارہ پلیٹ میں رکھ دیا۔
”جو خاتون کچن کے نام سے گھبراتی ہوں۔ انہیں شو کیس میں سجانے کیلئے تو گھر نہیں لے کر جانا۔“
”ہاں‘یہ تو تم نے ٹھیک کہا۔“ میں نے فوراً اتفاق کر لیا تھا۔ کیف کو ویسے بھی بات کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ بہت اچھی طرح سے مقابل کو قائل کر لیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صرف چند دنوں میں میری کیف کے ساتھ اچھی دوستی ہو گئی تھی اور اس کا بھی زیادہ تر وقت ہمارے گھر میں گزرنے لگا تھا۔
کیف نے بڑی مما اور میری مما سے بھی خاصی جان پہچان بنا لی تھی۔ ایک تو وہ بلا کا باتونی تھا۔ ایسے ایسے لطیفے اور چٹکلے چھوڑتا کہ ہنس ہنس کر اگلا بندہ بے حال ہو جاتا۔ البتہ کیف کی ہمارے گھر میں آمدورفت رخسانہ آنٹی کو پسند نہیں آئی تھی۔ اکثر جب کیف یہاں ہوتا تو آنٹی اسے کسی نہ کسی بہانے بلانے آ جاتی تھیں۔
کیف چند ہفتوں کے قیام کی غرض سے یہاں آیا تھا۔ اس کے آفس کا کوئی کام تھا۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi