Episode 27 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 27 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

بادلوں کے پیچھے

باہر چمکتی دھوپ کا راج تھا۔ گرم لو کے تھپیڑوں نے گویا ہر شے کو جھلسا کر رکھا تھا۔ میں نے کھڑکی کے پردے ہٹا کر باہر دیکھا۔ یوں لگ رہا تھا گویا میرا دل سینہ توڑ کر گرم اور جھلسا دینے والی زمین سے لپٹ لپٹ کر بین کر رہا ہے۔
ابھی کچھ دیر پہلے مما مجھے بہت سمجھاتی بجھاتی رہی تھیں۔
زندگی کے نشیب و فراز‘اتار چڑھاؤ۔ مگر میں انہیں بھلا کیا بتاتی۔ میرا دل تو آتش کدہ بنا ہوا تھا۔ میں مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم بنا دی گئی تھی۔ میرے لئے اس حقیقت کو تسلیم کرنا خود کشی کے برابر تھا۔
آج آٹھواں دن تھا اور مجھے لگتا تھا‘گویا میں صدیوں کی مسافت طے کرکے آئی ہوں۔ میرا انگ انگ تھکن زدہ تھا۔ آنکھیں گویا رو رو کر تھک چکی تھیں۔

(جاری ہے)

میں بھلا کس کا گریبان پکڑتی‘کسے مجرم ٹھہراتی۔ میری بات پر بھلا کس نے ایمان لانا تھا۔ میں مما کو کچھ بتا ہی تو نہیں پائی تھی۔ بھلا بتاتی بھی کیا؟ یہ میرا اپنا ہی تو فیصلہ تھا۔ مما نے مجھے کس قدر سمجھایا تھا مگر میں اپنی سادگی میں کچھ سمجھ ہی نہیں پائی۔
مجھے چہرے پڑھنے کا دعوا تو کبھی نہیں رہا تھا مگر میں حیران تھی کہ بعض لوگ کس طرح صورت بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔
ہر دفعہ ان کا نیا چہرہ نظر آتا تھا۔ ایسا چہرہ جو کسی بھی سادہ دل رکھنے والے کو دھوکے میں مبتلا کر سکتا تھا۔
میری سادگی میرے لئے ہمیشہ نقصان کا باعث بنی تھی مگر اس دفعہ تو میرے دل کا نقصان ہو گیا تھا‘یوں لگتا تھا گویا کسی نے میرا دل نوچ کر کسی پتھر کے نیچے رکھ کر کچل دیا ہے۔
مجھے اس سے بے تحاشا محبت جو ہو گئی تھی اور میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ مجھ سے کبھی اس طرح کسی اور کی جھوٹی داستان سن کر بدگمان ہو جائے گا۔
اس کی بدگمانی کے گھاؤ نے میرے دل میں نیزے اتار دیئے تھے۔
مگر میرے ساتھ بھلا ہوا کیا تھا؟
######
ان دنوں میرے ستارے گردش میں تھے۔ نجانے کس منحوس گھڑی میں دو ماہ سے ڈیڈ پڑا فون خود بخود ٹھیک ہو گیا تھا اور مما تک یہ منحوس خبر بغیر کسی دشواری کے پہنچ چکی تھی۔ سدا کی کمینی‘فساد اور بلا کی کم ظرف غانیہ کے ہلکے پیٹ میں میرے یعنی ساحیہ مراد کے متعلق”خبر“ بھلا کیسے ٹھہر سکتی تھی‘مما کو فون کھڑکا کر میری شاندار کامیابی کی اطلاع پہنچا دی تھی۔
”خالہ! ساحی میٹرک میں ہیٹ ٹرک مار چکی ہے۔ اس مرتبہ بھی سابقہ ریکارڈ قائم رکھا ہے محترمہ خیر سے صرف تین مضمون کلیئر کر سکی ہیں۔ باقی سب میں گول انڈا‘لگتا ہے پرچوں میں نہاری‘جیلیبی اور گلاب جامن کی ترکیب لکھ کر آئی تھی۔“
فون تو بند ہو چکا تھا اور مما جوتے سے میری دھنائی کرنے کے بعد صوفے پر بیٹھی ہانپ رہی تھیں۔ غم و غصے سے ان کا سرخ و سفید چہرہ تمتما رہا تھا۔
سبز آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ یونیورسٹی کی پوزیشن ہولڈر میری پیاری مما کا صدمے کے بارے براحال تھا۔
”بے شرم! چلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔ انیس سال کی ہو چکی ہو۔ ابھی تک میٹرک میں اٹکی ہو۔ تمہارے ساتھ کی گریجویشن اور ماسٹرز کرکے دو‘دو بچے بھی کھلا رہی ہیں۔“
”آپ کی سستی کی وجہ سے لیٹ ہو رہی ہوں۔ ورنہ اس وقت آپ بھی نانو بن چکی ہوتیں۔
“ میں نے افسوس کے عالم میں مما کو گزرتے وقت کا احساس دلانا چاہا تھا۔ مما جلبلا کر دوسرا جوتا اتارنے لگیں۔
”سوری مما!“ میں فوراً صوفے کی اوٹ میں کشن اٹھا کر کھڑی ہو گئی تھی۔ مما میری بے حیائی کے اس عظیم مظاہرے کو ملاحظہ کرنے کے بعد نجانے کس سوچ میں گم ہو چکی تھیں۔
میری نظریں مما کے خالی پیروں پر تھیں۔ سو میں اطمینان سے صوفے پر ڈھے گئی۔
عام حالات میں وہ جوتے کے ساتھ پھینٹی لگانا مینرز کے خلاف سمجھتی تھیں۔ عام حالات میں تو محض مجھے گھوریوں سے ہی نواز دیاجاتا تھا اور مما کی گھوریوں کا اثر ہی اس قدر ہوتا تھا کہ میں فوراً ہی حواس باختہ ہو جاتی۔ اگرچہ مما کو یہ پسند نہیں تھا کہ وہ میری جوتے کے ساتھ دھنائی کریں مگر خیر سے ”معاملہ“ ہی کچھ ایسا تھا کہ وہ بھی کہاں تک ضبط کرتیں۔
میٹرک میں مجھے تیسرا سال لگ چکا تھا۔ میری کلاس فیلوز اور کزنز وغیرہ مجھ سے کہیں آگے نکل چکی تھیں‘مگر میں اپنے کند ذہن کو بھلا کہاں سے پالش کراتی اور پھر سائنس دانوں کی ”بکواس“ میرے دماغ میں سماتی ہی نہیں تھی۔ نجانے کتنے ہی ٹیوٹر میری نالائقی سے گھبرا کر دوسرے ہی دن بھاگ گئے تھے۔ مجھ جیسی کند ذہن‘نالائق‘کوڑھ مغز کے ساتھ بھلا دماغ کھپانے کی ضرورت ہی کیا تھی‘جسے طبیعات کے تعارف کی الف‘ب بھی نہیں آتی تھی۔
باقی مضامین میں بھی میری دلچسپی ایویں سی تھی۔ ریاضی کو دیکھ کر تو مجھ پر زلزلہ طاری ہو جاتا تھا۔ ابھی پچھلے دنوں یہی کوئی چار پانچ ماہ پہلے فزکس کی تیاری کرواتے ہوئے‘میری جان سے پیاری غانیہ نے اچانک میری ذہانت کو جانچنے اور جو کچھ پڑھایا تھا‘اس کا ٹیسٹ لینے کی غرض سے پوچھا۔
”ساحی! دس منٹ کے اندر اندر جواب دیتی جانا‘آج تمہیں پڑھا کر میں نے اسود کی طرف جانا ہے۔ وہ میرے لئے کافکا اور چیخوف کی کتابیں لے کر آیا ہے اور میں وہ کتابیں پڑھنے کیلئے سخت بے چین ہو رہی ہوں۔“

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi