ایمنسٹی سکیم سے ملک میں ڈالر کی بھرمار

نئی حکومت کےلئے اقتصادی ترجیحات کا تعین مشکل ترین مرحلہ

پیر 20 اگست 2018

amnesty scheme se mulk mein dollar ki bharmaar
شہزادچغتائی

قومی اسمبلی کے ارکان آج حلف اٹھا رہے ہیں، 18اگست کو وزیراعظم حلف اٹھالیں گے‘ لیکن نئی حکومت بنانے والی جماعت اب تک اقتصادی ترجیحات کا تعین نہیں کرسکی۔جس کے باعث معیشت کو درپیش چیلنج منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔سابق وفاقی وزراء سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل نے کہا تھاکہ ہم نئی حکومت کو مستحکم معیشت دے کر جارہے ہیں لیکن نگراں دورمیں مہنگائی کا طوفان آ چکا ہے‘ اسٹاک مارکیٹ گر گئی‘ تیل کے نرخ آسمان سے باتیںکرنے لگے اور ڈالر بڑھ گیا۔ نگراں حکومت عمران خان کی معاشی مشکلات میںاضافہ کرکے مراعات سمیٹ گھروں کو لوٹ جائے گی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی حکومت اقتصادی ترجیحات کے تعین میں اس لئے بھی ناکام ہے کہ اس کے پاس کوئی معیشت دان نہیں۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ن) کے پاس اسحق ڈار اور مفتاح اسماعیل جیسے دماغ تھے جن کا ہاتھ اقتصادیات کی نبض پر ہوتا تھا۔پیپلز پارٹی کا بھی یہ المیہ تھا کہ اس کے پاس معیشت صنعت وتجارت کے معاملات چلانے کے لئے منتخب نمائندے نہیں تھے‘ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے مالیاتی امور چلانے کے لئے ڈاکٹر محبوب الحق اور دوسرے دور میں ڈاکٹرحفیظ کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سابق نگراں وزیراعظم محمد میاں سومرو تحریک انصاف کی معاشی معاملات میں مدد کرسکتے تھے لیکن ان کا نتیجہ روک لیاگیا‘ اس وقت اسد عمر کے سوا کوئی چارہ نہیں وہ اکنامسٹ ہوں گے لیکن ان کے پاس تجربہ نہیں ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ ہے جو کہ اس وقت 2 ارب ڈالر ماہانہ ہے جبکہ بیرونی ادائیگیوں میں توازن بھی کٹھن کام ہے۔ نئی حکومت کو سب سے پہلے کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ کم کرنا ہوگا جو کہ بہت مشکل کام ہے۔ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج نہ ملا یا تاخیر ہوئی تو اسکے پاکستانی کرنسی پر منفی اثرات ہوںگے جبکہ درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ بجٹ کا خسارہ 4 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہوچکا ہے۔ دسمبر 17ء سے لے کر اب تک ڈالر کی قیمت میں 4 باراضافہ کیاگیا جس کے باعث مہنگائی بڑھی ہے۔ اس وقت حکومت ریلوے‘ اسٹیل مل سمیت 200 حکومتی کمپنیوں کو اربوں روپے کی زر تلافی دے رہی ہے۔ اب ان کمپنیوں کو حکومتی تحویل سے نکالنے کی ضرورت ہے جس کی جانب متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے اشارہ کیا ہے۔ادہر کراچی اسٹاک ایکسچینج بدستور اتار چڑھائو کا شکار ہے۔ مندی کا رجحان غالب ہے‘ جس کی وجہ پرافٹ ٹیکسنگ کی حکمت عملی ہے‘ جب پرافٹ ٹیکسنگ بڑھ جاتی ہے تو اسٹاک میں مندی بڑھ جاتی ہے۔ ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں تیزی کارجحان ہے لیکن پاکستان اسٹاک ایکسچینج ایشیائی مارکیٹوں کے مثبت اثرات قبول نہیں کررہی ہیں۔ مارکیٹ کاسرمایہ رکا ہوا ہے اور 87 ارب ڈالرسے آگے نہیں رہا‘چند ماہ پہلے مارکیٹ کیٹیل 100 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا۔ اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا ایک سبب یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل سے قبل سرمایہ کارمحتاط طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں ‘ جس کے باعث حصص کی خریداری کے رجحان میں کمی پائی جاتی ہے۔ اس دوران پاکستان کے قرضہ کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے باعث بھی مارکیٹ پردبائو ہے‘ جب بھی تیزی ہونے لگتی ہے مندی غالب آجاتی ہے اور تیزی کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔
انتخابات کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں صرف ایک مثبت بات ہوئی ہے کہ کے ایس ای 100 انڈیکس کی 42700 کی نفسیاتی حد بحال ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے کے ایس ای 100 انڈیکس 42691 تک جاپہنچا تھا لیکن سستے حصص کی زائد خریداری سے نفسیاتی حد بحال ہوگئی۔ اسٹاک مارکیٹ کے ذرائع نے نوائے وقت کو بتایا کہ نئی حکومت کی تشکیل تک اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی کم رہے گی۔ روپیہ کی قدر کے مقابلے میںجب ڈالر بلندیوں پرتھا تو ڈالر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا خیال تھا کہ اب ڈالر 150 پر جاکرر کے گا لیکن ایمنسٹی اسکیم نے اس کی ہوا نکال دی۔ بیرون ملک سے اس کے تحت جو ڈالر آئے وہ کسی کے وہم گمان نہیں تھے جس کے نتیجے میں ڈالروں کی بارش ہوگئی اور رہی سہی کسر چین کی جانب سے دئیے گئے ایک ارب ڈالر نے پوری کردی جس سے ڈالروں کی مارکیٹ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہزاروں چھوٹے سرمایہ کارفٹ پاتھ پر آگئے ہیں جن کے پاس دولت کے ڈھیر ہیں وہ سرمایہ کاری کیلئے تیار نہیں۔ اس لئے کوئی خسارے کا سودا کرنے کیلئے تیارنہیں۔ عالمی اور مقامی مارکیٹ میں ڈالرکے نرخوں میں کمی سے سونے کے ریٹ بھی گر گئے۔پاکستان کاٹن پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے‘ لیکن چار سالوں کے دوران اسکی پیداوار میں لگاتار کمی ہوئی ہے اور ایکسپورٹ بھی گر رہی ہے جس کی وجہ مال کی تیاری کی زائد لاگت سے یارن مارکیٹ بدستور دبائو میں ہے۔ اسکے برعکس بنگلہ دیش بہت آگے بڑھ گیا۔ دنیامیں کپڑے کی مارکیٹ میں استحکام ہے‘ پاکستان کی مارکیٹ مندی کا شکار ہے۔بھارت بہت آگے جارہا ہے پاکستان میں لاگت کو بہانہ بنایا جارہا ہے‘بنگلہ دیش دوسرے نمبر پر اور چین پہلے نمبر پر ہے‘ جس کا مارکیٹ میں حصہ 34 فیصد ہے۔2017ء میں چین کی کپڑے کی ایکسپورٹ 158 ارب ڈالر کی تھیں۔ دوسری جانب روئی کی مارکیٹ میں استحکام اورتیزی ہے‘ روئی کی سپلائی کے ساتھ ڈیمانڈ بھی بہت زیادہ ہے‘ سندھ کی روئی کی گانٹھوں کے سودے خوب ہورہے ہیں۔ پنجاب سے روئی کی ترسیل عروج پر نہیں پہنچ سکی جس کی ایک وجہ ٹرانسپورٹ کی کمی ہے۔ تمام گاڑیاں پنجاب سے قربانی کے جانوروں کی ترسیل میں مصروف ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

amnesty scheme se mulk mein dollar ki bharmaar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.