اقوام متحدہ میں وزیراعظم عمران خان کا تاریخی خطاب

ٹرمپ کی”ثالثی“اور مودی کی تمام سفارتکاری پر پانی پھر گیا

جمعرات 3 اکتوبر 2019

Aqwan e Muttahida Main Wazir e Azam Imran Khan Ka Tareekhi Khitab
محمدانیس الرحمن
اقوام متحدہ کے74ویں اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا قوم کوشدت سے انتظار تھا یہ انتظار اس لئے بھی ہونا تھا کہ انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ایک مرتبہ وہ اقوام متحدہ میں پہنچ کر کشمیریوں کا مقدمہ اس انداز میں پیش کریں گے کہ کشمیری اور پاکستانی قوم مایوس نہیں ہوں گے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا،ان کے اس بیان نے جہاں قوم کی توقعات کو بڑھادیا تھا وہاں ملک میں بد قسمتی سے اپوزیشن کی جماعتیں طرح طرح کے الزامات حکومت پر لگا رہی تھی یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ عمران خان کی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر سودے بازی کرلی ہے،ہم یہاں حکومت کی کارکردگی کی زیادہ تعریف نہیں کررہے لیکن جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی تنہا شخصیت کا تعلق ہے اس کے بارے میں ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ اس وقت حکومت ون مین شوکے مصداق ہے کیونکہ عمران خان تو قوم کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں رائج نظام ہے جو چوروں کو فرار ہونے میں پوری پوری سہولت کاری کا کام کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت میں شامل خود ان کی جماعت کے ارکان اسی نظام سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور تاحال ہورہے ہیں اس لئے جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی ذات کا معاملہ ہے تو اس میں شک نہیں کہ وہ قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں مخلص ہیں،یہی اخلاص اقوام متحدہ میں اس کی تقریر سے چھلکتا صاف محسوس ہوتا تھا جس میں انہوں نے مجموعی طور پر چار نکات بیان کئے جس میں ملک میں پھیلی ہوئی کرپشن اور مغربی ممالک کا چوروں کی لوٹی رقم کو اپنے ملکوں کے مالیاتی اداروں میں تحفظ دینا بیان کیا گیا،ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک منی لانڈرنگ میں سہولت کارہیں اور غریب ملکوں کے طبقہ اشرافیہ کی لوٹی ہوئی دولت کو قانونی پیچیدگیوں کی آڑ میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انہوں نے دنیا کو آگاہ کیا کہ اس سے جو 10ممالک سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔اسلام کے حوالے سے مغرب کا اسلاموفوبیاکے مرض میں مبتلا ہونا اور توہین رسالت کے حوالے سے مغرب کو آڑے ہاتھوں لیا آخر میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور مودی کی دہشت گردی کے سامنے عالمی رائے عامہ کی خاموشی اور بے حسی بیان کیا گیا۔

بلاشبہ جہاں تک اس تقریر کا تعلق ہے اسے اقوام متحدہ میں کی جانے والی تاریخی تقریر کہا جا سکتا ہے جس میں تمام امت مسلمہ کی واضح نمائندگی موجود تھی۔اس تقریر میں انہوں نے اپنے مرکزی نکتہ نظر یعنی کشمیری کے حوالے سے واضح طور پر دنیا کو پیغام دیا ہے کہ اگر دنیا نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر اپنے دکانداری یا تجارتی مفادات کو ترجیح دی تو پھر دنیا میں کسی کا سودا نہیں بکنا کیونکہ دو جوہری صلاحیت کے حامل ملک آمنے سامنے ہوں گے۔


پاکستان کے پاس اپنے سے 7گنابڑے ملک سے جنگ کرنے کے سوا کوئی چار اباقی نہیں بچے گا اور اگر روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار چل گئے تو پھر معاملہ جنوبی ایشیاء تک نہیں بلکہ یہاں کی حدود سے نکل کر مغرب تک دراز ہو گا اسی لئے وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر بیان کر دیاکہ وہ یہ بات کہہ کر دنیا کو دھمکانے یا ڈرانے نہیں آئے بلکہ وہ اس معاملے کی سنجیدگی کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں انہوں نے صاف طور پر بیان کر دیاکہ اس مرحلے میں بڑی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اسی کی قرار دادوں کے تحت مودی کے دہشت گردانہ اقدام سے پہلے معاملات چل رہے تھے اور اقوام متحدہ کی ہی قراردادوں جس میں کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا گیا تھا کہ تحت کشمیر 70برس سے زائد عرصے سے حالت صبر میں تھے اب اگر مودی اور اس کی انتہا پسندانہ حکومت ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کو دوبارہ معمول پر لانے کے لئے بھارت پر دباؤ بڑھائے ،اس کے علاوہ عالمی برادری کے سامنے انہوں نے مودی اور اس کی مادرجماعت آرایس ایس کی قلعی کھولتے ہوئے کہا کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے بھارت کے بانیان میں سے مہا تما گاندھی تک کو قتل کر دیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سیکولر ازم پر بھی یقین نہیں رکھتے بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں ،عیسائیوں اور سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں کو دیس نکالا دے کر انتہا پسندانہ ہندوراج قائم کرنا چاہتے ہیں ۔


اس لئے جہاں تک دنیا میں اس عالمی ترین پلیٹ فارم یعنی اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر پاکستان اور مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے تقریر کرنا ہے تو اس میں شک نہیں کہ عمران خان سے پہلے کسی پاکستان رہنما نے اس مسئلے پر بات نہیں کی ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر طیب اردگان کے بعد ان کا نمبردوسرا بنتا ہے اس لئے طیب اردگان کے بعد اگرکسی نے امت کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے تو وہ وزیراعظم عمران خان ہیں ،اب اس تقریر کا عالمی رائے عامہ پر کیا اثر پڑتا ہے اس کا پتا تو کچھ عرصے بعد ہی چل سکے گا لیکن جس قسم کی اقوام متحدہ کی تاریخ رہی ہے اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ادارہ اور اس کے ارکان ممالک کبھی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں رہے۔

مسئلہ فلسطین کو دیکھا جائے تو اس عالمی فورم کی ناک تلے دنیا کی سب سے بڑی جغرافیائی خیانت کی گئی بلکہ اس ادارے کا وجود ہی اس خیانت کو قانونی جواز مہیا کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔
ایک ایسی قوم جس کا جغرافیائی اور نسلی تعلق ہی اس علاقے سے نہیں بنتا تھا اس یہودیت کے نام پر یہاں لا کر بسادیا گیا اور جو اس خطے کے اصل وارث یعنی فلسطینی مسلمان تھے انہیں یہاں سے بے دخل کرنے کی پوری کوشش کی گئی یہ مسئلہ بھی 70برس سے زیادہ عرصے پر محیط ہے لیکن ہزاروں بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود اس عالمی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ،یہی حال مسئلہ کشمیر کا بھی ہے اس کے علاوہ جدید تاریخ میں مشرق وسطیٰ کے ممالک عراق ،شام ،لیبیا اور یمن کے
 ساتھ جو کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔

افغانستان میں جو خونریزی امریکی جھنڈے تلے ہورہی ہے اس پر یہ ادارہ اور اس کے ارکان ممالک زبان تک ہلانے کے روادار نہیں ۔روہنگیا مسلمانوں پر قیام توڑ دی گئی کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اس لحاظ سے جہاں تک اتمام حجت کا تعلق ہے وہ وزیراعظم عمران خان نے انتہائی جامع انداز میں اس عالمی فورم پر کردی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد کا منظر نامہ کیا ہوتا ہے۔


جہاں تک بھارت کی اس علاقائی جارحیت کا تعلق ہے اور جس دہشت گردی کو مودی عالمی سفارتی سطح پر اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کررہا تھا اور مغرب کے ساتھ ساتھ اس نے بہت سے عرب مسلمان ملکوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھے ان سب کا تو بیڑاغرق عمران خان نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر کر دیا ہے لیکن اب صورتحال کیا شکل اختیار کرے گی اس کے خدوخال چند دنوں میں واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے بابنگ دھل اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر کہہ دیا ہے کہ اگر دنیا نے اس معاملے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو پھر اللہ مالک پاکستان اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹھے گا۔اطلاعات یہ ہیں کہ اسلام آباد میں مغربی سفارتکاروں کی سرگرمیاں تیز ہوتی محسوس ہورہی ہیں اور پاکستانی اپوزیشن کی عمران خان کے خلاف احتجاجی تحریک کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ا س کی صاف وجہ یہ ہے کہ بطور شخص عالمی مغربی لیڈر اور ان کی آقا ڈیپ اسٹیٹ عمران خان کو پسند نہیں کرتے۔


انہوں نے این آر او،میثاق ،جمہوریت اسی لئے کرایا تھا کہ وہ لگی بھگی جماعتیں نون لیگ اور پیپلزپارٹی اقتدار کی گیند باری باری ایک دوسرے کی جانب اچھا لتی رہیں اور ان دونوں جماعتوں کے لیڈر اپنی جمہوریت کے نام پر لوٹ مار سے پاکستان کو اس قدر مالیاتی طور پر کمزور کردیں کہ پاکستان کےسامنے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے کھڑے رہنے کا حق چھین لیا جائے۔

اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کا بھارتی اقدامات کے خلاف عزم دیکھتے ہوئے اب شاطر بنیادانہیں معاشی ترقی کا لالی پاپ دینا چاہتا ہے کشمیریوں کو رام کرنے کے لئے پچاس سے سترہزار نوکریوں کی پیشکش کی جارہی ہے کئی ارب روپے کی لاگت سے فلم مٹی ،ہوٹل اور دیگر سیاحت سے متعلق ادارے تشکیل دینے کا اعلان کیا جانے والا ہے اسی منصوبے کے پس منظر میں مودی نے بھارت کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیاتھاکہ کشمیر کو دوبارہ جنت نظیر بنائیں گے،ہر کشمیری کو گلے سے لگائیں گے “گلے کاٹنے والا مودی اب کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کرکے انہیں دوبارہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتا ہے لیکن یہ اس کی بھول ہے کہ ستر برس سے زائد عرصے پر محیظ ظلم وستم کی چکی میں پسینے والے کشمیری مسلمان اس کے اس دھوکے میں آجائیں گے۔


اس بات کو بھی ہمیں مد نظر رکھنا ہو گا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی وجہ یہ صرف بھارت کی بنیادیں ہل گئی ہیں بلکہ وہ ایک دوعرب اور مغربی ممالک جو کشمیر میں سرمایہ کاری کے ذریعے دولت کماناچاہتے تھے ان کے منصوبوں پر بھی پانی پھیر چکا ہے۔کیونکہ ماضی میں بھی کشمیری مسلمانوں نے اس طرح کے اقتصادی منصوبوں کو ٹھکرادیا تھا اور اب بھی وہ یہ کریں گے ۔

اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مودی سرکار کے ہاتھوں سے مزید نکل جائے گی اب یہی ہڈی مودی کے گلے میں پھنس چکی ہے۔بھارتی وزیر خارجہ جس نے بیان دیا تھا کہ اب بھارتی کشمیر نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے حوالے سے بات ہو گی اسے یہ بات جان لینی چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ان شاء جلد کشمیر ی مسلمانوں کے امیدوں کے مطابق حل ہو گالیکن بھارت کو اب اپنی دیگر ریاستوں کی خیر منانی چاہئے ،جنوبی بھارت میں ناگالینڈ اور آسام میں آزادی کی تحریکیں پہلے ہی زور پکڑ چکی ہے اب مزید اس کی صورتحال دیگر ریاستوں میں ابھر کر سامنے آنے والی ہے۔


اب نہ صرف کشمیری مسلمان بلکہ بھارت میں بسنے والے تیس کروڑ سے زائد مسلمان بھی پاکستان کی جانب دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔سکھ اور دیگر ذاتوں کے ہندو بھی اب برہمن اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے چھٹکارے کے لئے کشمیر جیسے حل کے لئے جدوجہد کرنا شروع ہو چکے ہیں۔مودی اور آر ایس ایس کے دہشت گرد قیادت نے ہنددوتا کی جوت جگاکر اصل میں بھارت کے ٹکڑے کرنے کا آغاز کر دیا ہے ۔

اس کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک خصوصاً چین میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں معاشی ترقی کے لئے بھارتی ہنددوتا کے نظریے کو دفن کرنا لازمی ہے اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بھارت کے پانچ سے سات ٹکڑے کر دئیے جائیں یہ خود بھارت کی نام نہاد ریاست کے باشندوں کے حق میں بہتر ہو گا ۔
ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کو مصنوعی اتحاد میں جکڑ کر وہاں انسانوں کا استحصال کیا جارہا ہے انتظامی امور کی کمزوری اس کا بڑا سبب ہے۔

مودی نے اپنے دہشتگرد انہ اقدامات سے ثابت کر دیا ہے کہ ”اکھنڈ بھارت“کا نظریہ در حقیقت برہمن اشرافیہ کی حکومتی سیادت کے لئے کھڑا گیا تھاحقیقت میں اس کا کوئی وجود ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا۔عمران خان نے اقوام متحدہ کے فورم پر کھڑے ہو کر خطے میں آزادی کا جو نعرہ مستانہ لگایا ہے اس پر عمل پیرا ہو کرہی نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ بھارت میں بسنے والے کروڑوں کی تعداد میں اقلیتوں کو بھی آزادکرایا جاسکے گا۔دوسری جانب پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو بھی اب مکمل طور پر چونکنا رہنا پڑے گا۔۔۔بھٹواور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق شہید کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aqwan e Muttahida Main Wazir e Azam Imran Khan Ka Tareekhi Khitab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 October 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.