نواز شریف اور اشٹبلشمنٹ کا بیانیہ‎‎

منگل 3 اگست 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان، اِب آذاد کشمیر اور حالیہ سیالکوٹ الیکشن میں کھلی اور بدترین الیکشن دھاندلی کر کے ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ ناکام ہو چکا ہے، اور اخے اشٹبلشمنٹ کا بیانیہ کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہو چکا ہے۔ کامیابی کا یہ ڈھول پہلے آمر پرویز مشرف بھی پیٹ چکا ہے جبکہ اس سے بھی قبل مذکورہ عسکری ڈھول مادرِ ملت محترمہ فاظمہ جناح کو الیکشن ہرا کر ڈیکٹیٹر ایوب خان بے بھی بجوایا تھا لیکن اس سب ایکسر سائز کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھتے عوامی شعور کے باعث نوا شریف کا بیانیہ”ووٹ کو عزت دو“ گھر گھر پہنچ کر اشٹبلشمنٹ کے سامنے بھیانک خوف کی علامت بن چکا ہے۔ایک ریڑھی چلانے والا،طالبِ علم،دیہات میں رہنے والا اور عام شہری اَب اس تلخ حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کے سلب شدہ بنیادی حقوق کا ذمہ دار کون ہے؟
وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر جب ملکی دفاع کے لیئے ایٹم بم بنا لیا ہے تو پھر اب عوامی فلاح و بہبود کے بجائے دفاع کے نام پر بے جا اربوں روپے آخر کیوں کر صرف کیئے جا رہے ہیں؟کیوں ستڑ سالوں سے خوامخواہ بھارت دشمنی کا واویلا کیا جا رہا ہے؟ دنیا آگے کی جانب اور ہم پیچھے کی جانب کیوں رواں دواں  ہیں؟دنیا کے ممالک ویلفیئر اسٹیٹس یعنی فلاحی ریاستوں کا روپ دھار رہے ہیں جبکہ ہم عالمی اشٹبلشمنٹ کے ہاتھوں بدستور ایک بفر اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے میں لگے ہوئے ہیں،کبھی کہیں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی کہیں اور پھر اس استعمال ہونے کے اس سلسلے کو قومی سلامتی کے فیصلے قرار دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


  امریکی اور اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنے کے لیئے بکسے چوری، فتوے بازی،غداری کے سرٹیفیکیٹ جاری، پیسہ اور ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے وقتی طور پر پاپولر لیڈر شپ کے سامنے اپنے آپ کو خود ساختہ کامیاب تو سمجھا جا سکتا ہے جیسے گمنام پرویز مشرف،ایوب خان اور ضیاء الحق جیسے ڈیکٹیٹر اپنے آپ پاکستانی کو قوم کا ہیرو اور رہبر سمجھتے رہے لیکن ظالم وقت ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کرتا رہا کہ ایسے خود ساختہ لیڈر اور ہیرو بہت جلد گمنامی کی نظر ہو جاتے ہیں اور ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ہونا۔

مثالیں بھی سامنے موجود ہیں جبکہ مزاحمت اور جدوجہد کرنے والے عوامی راہنماء تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں جیسے بے نظیر بھٹو شہید، ان کے والد بھٹو شہید، شیخ مجیب الرحمن اور اب نواز شریف۔
آج بھی اشٹبلشمنٹ کی کھوتی نواز شریف کے بیانیئے میں پھنسی ہوئی ہے، عسکری چینل اے آر وائے اور بول سمیت کسی بھی دیگر چینل پر کوئی ٹالک شو نواز شریف،شہباز شریف اور مریم نواز کے تذکرے کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔

ٹی وی چینلز حکومتی ناکامیوں پر  پردہ پوشی کے لیئے استعمال ہو رہے ہیں جبکہ صحافیوں کو بدترین حکومتی بیانیہ بیان کرنے پریشر اور دباو کا سامنا ہے،جس کی تصدیق عالمی ادارے بھی بار بار کر رہے ہیں۔
اشٹبلشمنٹ کا ناکام بیانیہ خود اس کا منہ چڑا رہا ہے۔یہ وہ عسکری بیانیہ ہے جس باعث حالیہ تین سالوں میں ملک قرضوں کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہے، تاریخی طور پر مہنگائی اپنے عروج پر ہے، غربت اوربے روزگاری خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

پٹرول120 روپے فی لیٹر،120 روپے فی کلو چینی،80 روپے فی کلو آٹا دیگر اشیائے خوردونوش کے نرخ بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں جبکہ19 روپے بجلی فی یونٹ ہے۔
 
طور پر ملکی حالات کا موازنہ اب صومالیہ اور افغانستان جیسے تباہ حال اور قحط شدہ ممالک سے سے کیا جانے لگا ہے۔ خارجہ اور معاشی محاذ پر ملک تنہا اور ناکام کھڑا ہے۔سپریم کورٹ،نیب اور ایف آئی اے جیسے اہم اداروں کو متنازع بنا کر انہیں صرف اور صرف اشٹبلشمنٹ اپنے ناکام بیانیئے کو سہارا دینے کے لیئے استعمال کر رہی ہے۔


  مضبوط اعصاب کے مالک نواز شریف نے آج پھر واضع کیا ہے کہ”ان کی جدوجہدمحض چند سیٹوں کی ہار جیت کے لئے نہیں بلکہ آئین شکنوں کی غلامی سے نجات کے لئیے ہے اور اپنی عزتِ نفس پر سمجھوتہ کئے بغیر تاریخ کی درست سمت میں کھڑے نظر آنے کے لئے ہے“ یہی وہ مقبول عوامی بیانیہ ہے جو اشٹبلشمنٹ کے لیئے کسی خوفناک بلا سے کم نہیں، لیکن آج نہیں تو کل نواز شریف کے بیانیئے کو ہی تسلیم کرنا ہو گا۔

اسی میں اس ملک اور بائیس کروڑ عوام کا بھلا ہے۔
اسی نواز شریف نے جی ڈی پی کو5.8 تک پہنچایا، گیم چینجر سی پیک منصوبہ چلایا،  ملک سے دہشتگردی اور  بیروزگاری کا خاتمہ کیا لوڈشیڈنگ ختم کرکے ملک کو اندھیروں سے نکالا. نواز شریف اور ان کے بیانیئے کے بغض اور ضد میں آخر کب اِس ملک کو تختہِ مشق بنایا جاتا رہے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :