جمہوریت کے تضادات (پارٹ1)

ہفتہ 7 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

ترقی یافتہ ممالک میں جہاں جمہوریت مضبوط ہے وہاں پر جمہوریت کو ملکی ترقی و عوامی فلاح کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ تضادات کا شکار ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔یہ موضوع بہت وسیع ہے مگراس کالم میں ہم پاکستان میں جمہوری نظام ،سیاسی جماعتوں کے کردار ، جمہوری نظام کا ارتقا ،جمہوریت کی افادیت واہمیت ، نظام کی بنیادی اجزائے ترکیبی پر مفکرین ،فلاسفرز ،ماہرین عمرانیات وسماجیات ،سیاسی قائدین و عالمی رہنماؤں کے نظریات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔

جمہوریت کا مطلب ہے جمہور کی رائے اور اس جمہوری رائے کا احترم ،سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہور کی رائے کا مکمل احترام ہے ؟ کیا پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام مسائل حل کرسکتا ہے یا نیا نظام آزمایا جائے ؟ صدارتی نظام جمہوریت یا پارلیمانی ؟ اصل مسئلہ جمہوری نظام میں ہے یا جمہوریت کے دعوے کرنے والی سیاسی جماعتوں کے داخلی تضادات یا سیاسی قائدین کے قول وفعل میں تضادات ہیں ؟ نظام انتخاب جمہوری اصولوں وضابطوں کے عین مطابق ہے ؟ جمہوریت صرف اقتدار برائے اقتدار کا نام کیوں بن گئی ہے ؟ سیاستدان اقتدار تک پہنچنے کے لئے جمہوریت کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں ؟سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے بغیر حقیقی جمہوریت کی منزل کا حصول ممکن ہے ؟یہ جمہوریت ہے یا مجبوریت ؟کیا پاکستان کے لئے جمہوریت ضروری ہے تو اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ جوجمہوریت ہمارے ہاں رائج ہے وہ صرف سیاستدانوں کے لئے ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

اس کا جمہور سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس میں عوام کو پانچ سال میں صرف ایک دفعہ ووٹ ڈالنے کا حق ملتا ہے وہ بھی اپنے علاقے کے چوہدری ،سردار ،سرمایہ دار اوروڈیرے کومجبورا دیتے ہیں ۔وہ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کبھی ایک جماعت ،کبھی دوسری جماعت کے ساتھ مل جاتا ہے ۔غریب عوام اس مہنگے نظام انتخاب میں کروڑوں کا سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔

عوام کو تجزیہ کار وسیاستدان یہ کہہ کر طفل تسلیاں دیتے ہیں کہ ارتقائی عمل سے ہوتے ہوتے نظام میں بہتری آئے گی ۔درحقیقت ہمارے سیاستدان صرف اپنے اقتدار کو جمہوریت سمجھتے ہیں جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو اپنے اقتدار کوطوالت دینے کے لئے جمہوریت کی گردان الاپتے ہیں بعد میں انہیں جمہوری نظام کا استحکام یاد نہیں رہتا ۔تاریخی تناظر میں اگر ہم جمہوریت کے ارتقا کو دیکھیں توبرطانیہ میں بادشاہ اور فیوڈل لارڈز کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 1215 عیسوی میں میگناکارٹا
(Magna Carta) پر دستخط ہوئے .اس معاہدے کے نتیجے میں بادشاہ کو بہت سے اختیارات سے ہاتھ دھوناپڑے ۔

پارلیمنٹ وبادشاہ میں اختیارات کی جنگ کے بعد 1688 کے انقلاب نے پارلیمنٹ کو مزید مضبوط کیا ۔اس کے بعد 1832،1864،1880 میں جواصلاحات ہوئیں انہوں نے جمہوریت کومزید مضبوط کیا ۔پہلی جنگ عظم کے بعد خواتین کوووٹ کاحق ملنے سے جمہوریت مزید مضبوط ومستحکم ہوئی ۔امریکی جمہوریت کے بارے میں فرانس کے الیکسز ڈی ٹاک ول (Akexis De Tocqueville )نے امریکی سوسا ئٹی اور سیاسی نظام پر1835 عیسوی میں امریکی جمہوریت ((American Democracy کے عنوان سے کتاب لکھی ۔

اس کتاب میں ٹاک ول نے امریکہ کے سیاسی نظام کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ اس کی آزادی کے وقت جن افراد نے دستور بنایا وہ اعلی ذہن کے لوگ تھے ۔لیکن اس کے بعد کی نسلیں اوسط ذہن کی مالک تھیں مثلاجب اس نے امریکی کانگریکس کا تجزیہ کیاتو وہ اس نتیجہ پر پہنچاکہ ایوان نمائندگان میں جواراکین منتخب ہوکرآئے ہیں وہ بہت کم پڑھے لکھے اور معمولی ذہن رکھنے والے تھے ۔

کیونکہ جن لوگوں نے انہیں منتخب کیاانہوں نے ذہانت یالیاقت کی بنیاد پر ان کاانتخاب نہیں کیا بلکہ ان کے عملی کاموں نے انہیں کامیاب کروایا ۔ان کے مقابلے میں سینیٹ کے اراکین پڑھے لکھے اور ذہین تھے کیونکہ یہ براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکرنہیں آتے تھے ۔ اس بات کی جانب اشارہ کیاکہ امریکی انتخابات میں عوام کی اکثریت کی رائے کابڑا دخل ہوتاہے ۔

اسے وہ اکثریت کی آمریت یا(Tyranny of Majority )کانام دیتاہے ۔اس سلسلے میں تعدادکوکوالٹی پر فوقیت ہوتی ہے ۔یعنی اکثریت کی رائے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہواسے درست اور صحیح سمجھا جائے گا ۔علامہ اقبال نے یوں طنز کیا ہے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کوگناکرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اگر ہم ٹاک ول کے تجزیہ کوپاکستانی جمہوریت پر منطبق کریں تو صورتحال Tyranny of Majoirty سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔

ممتاز انگریز شاعر ،الیگزینڈر پوپ نے تو یہاں تک کہاں تھا ”صرف بے وقوف ہی حکومت پانے کی خاطر لڑتے ہیں “۔مگر ہمارے پاکستان میں توسیاستدانوں کا جیناو مرناصرف اقتدار کا حصول ہے چاہے اس کے لئے تمام اصول وضوابط اور جمہوری اقدار کو پاؤں تلے روندنا ہی نہ پرجائے ۔ ہمارے سیاستدانوں کے بارے میں وزیرریلوے شیخ رشید کہتے ہیں کہ یہ سب جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ۴ کی پیداوار ہیں تو اس کے بعد کیا کہا جاسکتا ہے ۔

روسو نے اپنی کتاب نیا عمرانی معاہدہ (New Social Contract) میں امرا شاہی (Elected Oligarchy) کا نام دیا تھا ۔ والٹیئر نے بھی اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا تھا ۔افلاطون نے اپنی کتاب ریپبلک (Republic)میں اپنے خیالی شہر کے سیاسی نظام کا جوخاکہ افلاطون نے پیش کیا وہ یہ ہے کہ ایک حکمران طبقہ ہوگا جسے وہ گارڈین آف ڈیموکریسی یا جمہوریت کے نگہبان کہتاہے ،یہ نگہبان منتخب ہو نگے لیکن ایک بار ان کا انتخاب عمل میں آجائے گاتویہ تاحیات کے لئے ہوگا۔

یہ مکمل اختیارات کے مالک وتنقید سے ماورا ہونگے ۔افلاطون اپنے سیاسی نظام کے سربراہ کے لئے تجویز کرتاہے کہ وہ فلسفی ہوجوعلم ودانش اور عقل سے مزین ہو۔تاکہ وہ ریاست کوعدل وانصاف کے ساتھ چلاسکے ۔افلاطون جمہوریت کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ جس میں عدل وانصاف ممکن ہوکیونکہ عوام کی اکثریت سیاسی شعور سے نابلدبلکہ ریاست میں ہنگامہ وبدنظمی پیداکرتی ہے ۔

افلاطون کے نظریہ جمہوریت پر سب سے زیادہ تنقیداس کے شاگرد ارسطو نے کی ہے ۔اس کے علاوہ برٹرنڈرسل اور کارل پاپر نے بھی بہت تنقید کی ہے ۔رسل اس کو فاشزم جبکہ کارل پاپر اپنی کتاب ”آزاد معاشرہ اور اس کے دشمن “ میں افلاطون کوآزاد معاشرے کا دشمن بتاتاہے جس میں فرد کی انفرادیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور وہ ریاست کے استبداد کا شکار ہوکر اپنی آزادی اور تخلیقی صلاحیتں کھودیتا ہے ۔

انگریزی کا لفظ Democracy جمہوریت سے مراد جمہور کی حکومت لی جاتی ہے ۔ارسطو نے تو ناپسندیدگی کی وجہ سے اسے Mobocracy ہی کہا تھا۔ابراہم لنکن کی تعریف جو بہت پسندیدہ ،زبان زدعام ہے یعنی عوام کی حکومت ،عوام سے اور عوام کے لئے ۔اگر پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ جمہوریت کیوں نہیں پنپ رہی ؟جمہوری حکومتوں کا تجربہ بار بار ناکام کیوں ہوتا ہے ؟جمہوری حکومتیں ڈلیور کرنے میں ناکام کیوں ہوئیں ؟اگر چہ پاکستان میں آمریت کے بعد جمہوری حکومتیں آئیں مگر انہوں نے کوشش نہیں کی کہ آمرانہ حکومتوں کے راستوں کومستقل بند کیاجائے اور جمہوری روایات وجمہوری اداروں کواس قدر مضبوط کیاجائے کہ دوبارہ کسی طالع آزماکی ہمت نہ ہو اگر ایسا کرے تو عوام اس کے آگے بند باند ھ کر کھڑے ہوجائیں یا ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں جیسا ترکی میں ہوا۔

عوام اس وقت ہر طرح کی قربانی دیتے ہیں جب ان کو ہر طرح کی سہولیات مل رہی ہو ،نظام ڈلیور کررہا ہو اگر نظام ڈلیور نہ کررہاہوتو عوام اس نظام کی خاطر قربانی نہیں دیتی ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں پاکستان میں جمہوری حکومتیں ،جمہوری سوچ آزادی رائے اور جمہوری اداروں اور روایات کومستحکم کرنے میں ناکام ہوئے ۔جمہوریت نہ پنپنے کی وجوہات بہت زیادہ ہیں ۔

باربار فوجی آمروں کا شب خون مارنا ،بار بار تجربات کرنا ،مغل اشرافیہ کے پسماندہ جاگیرداری نظام کاخاتمہ نہ ہونا ،الیکشن میں سرمایہ کے عمل دخل کی وجہ سے مہنگانظام انتخاب ، سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہ ہونا ،سیاستدانوں کی جمہوریت سے کمٹمنٹ کا نہ ہونا ،ملک میں کرپشن اور کرپشن روکنے کے لئے نام نہاداحتسابی عمل جس کو بعض اوقات سیاسی انتقام کے لئے بھی استعمال کیا جاتاہے ، اس کے علاوہ اختیارات کی مرکزیت و مقامی حکومتوں کو مکمل سیاسی ،انتظامی ومالی اختیارات نہ دینا بھی ہے ۔

مقامی حکومتیں اس لئے جمہوری حکومتوں کی ترجیح نہیں ہوتیں کہ اس سے ایم این ایزو ایم پی ایزکی فنڈزپر اجارہ داری ختم ہوجاتی ہے۔فنڈز نہیں ہونگے تو وہ اربوں کے کمیشن کہاں سے وصول کریں گے ۔اس صورتحال میں میڈیا کا کیا کردار بنتا ہے ؟ سول سوسائٹی و سیاسی جماعتیں کیوں مصلحتوں کا شکار ہیں ؟آزادی اظہار رائے جمہوریت کی بنیادی ضرورت ہے کیا پاکستان میں مکمل آزادی اظہار رائے ہے جس کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے ؟ کیا پاکستان کے آئین پر مکمل عملدرآمد ہورہا ہے ؟ کیا الیکشن کمیشن فری اینڈ فئیر الیکشن کروارہا ہے جس طرح آئین میں لکھا ہوا ہے ؟کیا اس نظام میں رہتے ہوئے ملک میں تبدیلی آسکتی ہے ؟اب ان تمام پہلوؤں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں اور سب سے آخر میں ہم ان مسائل کا ممکن حل زیر بحث لائیں گے ۔

جب کسی معاشرے میں جمہوری ادارے اور روایات کمزور ہوجائیں تو اس کے نتیجہ میں جمہوری سوچ ختم ہوجاتی ہے ۔ جمہوری سوچ پروان چڑھانے میں سب سے اہم کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی دعویدارسیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا نام ونشان نہیں ہے ۔اسلم گورداسپوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ” سیاسی جماعت کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے وہ اپنے سیاسی عمل میں ایک مکمل جمہوری انداز میں منظم جماعت ہو،ایک عوامی سیاسی قیادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عہد کے قومی سیاسی جمہوری اور معاشی تقاضوں کی علامت وپہچان ہو،اور ان تمام مسائل کوحل کرنے کی اہلیت وویژن رکھتی ہو اور ملک کی تمام اکائیوں کی نمائندگی کا عزم اور شعور رکھتی ہو“۔

اگر ہم اس پیمانہ پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ماپیں تو ہمیں کوئی سیاسی جماعت اس معیار پر پورا اترتی ہوئی نظر نہیں آئے گی ۔کسی سیاسی جماعت کے اجزائے ترکیبی پورے نہیں ہیں تو ایسے میں وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کیسے لاسکتے ہیں ؟سوشل سائنس دانوں کے علم کایہ نچوڑ ہے کہ نئی سیاسی قیادت اور ایک نئی سیاسی جماعت اپنے وقت کے معاشرے اور اپنے وقت کے معروضی حالات کی پیداوار ہوتی ہے ۔

جو جماعت اپنے وقت کے سیاسی وسماجی ،معاشی ومعاشرتی تقاضوں کی نمائیندگی نہیں کرتی وہ نہ تو عوام میں مقبول ہوسکتی ہے اور نہ ہی وہ ملک میں کوئی تبدیلی لاسکتی ہے ۔پروفیسر رابرٹ الفریڈ کہتے ہیں کہ ایک نئی سیاسی تحریک یا جماعت کے لئے اشرافیہ کے اقتدار کے اسٹیس کو (status quo)کو توڑنا ضروری ہوتا ہے ۔مگر پاکستان میں تبدیلی کا دعوی کرنے والے بھی اسٹیس کو توڑ نہیں سکے بلکہ اس کا حصہ بن گئے ہیں ۔

بقول راحت اندوری
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
پاکستان پیپلزپارٹی جس کا منشور اسلام ہمارا دین ،سوشلزم ہماری معیشت ،جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دیا تھا ۔اس جماعت کا حال یہ ہے کہ اس میں ایک خاندان کی حکومت ہے پہلے ذوالفقار علی بھٹو سربراہ تھے ،ان کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور اب انکے شوہر آصف زرداری شریک چئیرمین اور بیٹا بلاول بھٹو پارٹی کا چئیرمین ہے ۔

بلاول بھٹو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک وصیت پر چئیرمین بنے تو اس میں عوام کی رائے و جمہوریت کہاں گئی ؟ سیاسی جماعت کے سربراہ کو جماعت کے اندر الیکشن کے بعد منتخب ہونا چاہئے وہ کیوں نہیں ہوا ۔ اگر الیکشن کمیشن کی شرط کوپورا کرنے کے لئے کبھی ایسا ہو بھی تو وہ صرف ایک ڈھونگ ہوتا ہے،جس میں الیکشن نہیں صرف سلیکشن ہوتی ہے جو پارٹی سربراہ کرتا ہے ۔

کسی شخص کو پارٹی سربراہ کی رائے سے اختلاف کی اجازت نہ ہونے کے برابر ہے سب پارٹی سربراہ کی من مرضی سے ہوتاہے ایک قسم کی پارٹی میں خاندانی وشخصی اجارہ داری ہوتی ہے ۔دوسرا ان تمام جماعتوں کے بیانیہ میں تضاد پایا جاتا ہے ۔قول وفعل میں تضاد ہوتا ہے کہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت انہیں سنجیدہ نہیں لیتی ۔اگر مسلم لیگ ن کی بات کریں تو وہاں شریف خاندان کی اجارہ داری ہے ۔

ہر فیصلے میں نوازشریف وان کی فیملی کی من مرضی چلتی ہے ۔جس کو چاہیں پارٹی میں رکھیں جس کوچاہیں بادشاہوں کی طرح دھتکاردیں جس پر چاہیں نوازشات کی بارش کردیں ۔جب میاں صاحب وزیراعظم تھے اور ان کے بھائی شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلی تو وہ عوام تو درکنار اپنے اہم رہنماؤں ،ایم این ایز،ایم پی ایز کو نہیں ملتے تھے جن کی وجہ سے وہ اقتدار میں ہیں ۔

بقول حبیب جالب
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب# نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
 اس طرح نوازشریف صاحب کے بیانیہ میں بھی بہت تضادات ہیں کبھی میاں صاحب کہتے کہ میں ووٹ کی عزت بحال کرواؤں گا ،میں اب نظریاتی ہوگیا ہو ،جی ٹی روڈ پر علم احتجاج بلند کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں مجھے کیوں نکالا ۔

کبھی احتساب عدالت کے باہر اکبر الہ آبادی کاشعر پڑھتے ہیں
اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی
جینا ذلت سے ہوتو مرنا اچھا
اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ ووٹ کی عزت بحال کروانے کے لئے آخری دم تک جائیں گے ۔کچھ دن گزرنے کے بعد زبان زدعام ہوجاتا ہے کہ مقتدر اداروں کے ساتھ کچھ سیٹلمنٹ یا ایڈجسٹمنٹ ہوگئی ہے( اس کو ڈیل یا ڈھیل کہنے پر اعتراض ہے) اور چند دنوں کے بعد ن لیگ کے تمام اہم رہنماؤں کوریلیف ملنا شروع ہوجاتا ہے ۔

اب میاں نوازشریف وشہباز شریف لندن جبکہ مریم نواز جاتی عمرہ فارم ہاؤس میں گوشہ نشینی اختیار کئیے ہوئے ہیں اور وہ انقلابی بیانیہ جس کی خاطر عوام نے قربانی دیناتھی وہ پتہ نہیں کہاں گیا اس کا جواب عوام کو ملنا تو درکنار، مسلم لیگ ن کے سنئیر رہنمابھی اپنی قیادت سے شکوہ کناں ہے کہ وہ عوام کو کیا منہ دکھائیں کہ ان کی قیادت ملک سے باہر ڈیل کرکے چلی گئی ہے ۔

بیانیہ میں تضاد کے ساتھ ساتھ جماعت میں الیکشن بھی نہیں ہوتا ۔اگر ہم حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا جائزہ لیں تووہاں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے ۔پی ٹی آئی کی پوری سیاست عمران خان کے گرد گھومتی ہے وہ جس کوچاہیں جماعت میں رکھیں جس کو چاہیں نوازدیں ۔منشور کی بجائے شخصیت پرستی کی وجہ سے جماعت کے رہنما کارکردگی کی بجائے عمران خان کوخوش کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں ۔

وزیروں مشیروں کی توجہ اپنے محکمہ کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے مخالفین پر الزام تراشی واپنے قائد کی تعریف کرنا ہوتا ہے ۔ایک دفعہ جماعت کے اندر الیکشن کروانے کی کوشش ہوئی مگر وہ جماعتی گروہ بندی ،اختلافات کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا ۔اب تحریک انصاف میں الیکشن کی بجائے عمران خان سلیکشن کرتے ہیں ۔اس سلیکشن میں نظریاتی کارکنوں کی بجائے جاگیردار وں ،سرمایہ داروں ،الیکٹیبلز اور دوسری پارٹی سے آئے ہوئے لوگوں کوترجیح دی جاتی ہے ۔

دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوگوں میں اکثر وہ لوگ ہیں جن کوعمران خان کرپٹ ،چور ،ڈاکو اور نہ جانے کیا کیا القابات دیتے تھے اب وہ عمران خان کے رائیٹ لفٹ ہیں ۔عمران خان نے بھی اقتدار کی خاطر اپنے نظریات پر کمپرومائز کیا ہے جسے اپوزیشن یوٹرن کہتی ہے ۔جن لوگوں کے خلاف انقلاب و تبدیلی لے کرآنی تھی وہ مافیاز و طاقتور اشرافیہ اب عمران خان کے ساتھ ہے ۔

وہ تبدیلی کامنشور ونظریہ کہیں نظر نہیں آتا ۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی میں اسفند یار ولی و ان کے خاندان کی اجارہ داری ہے ۔ جے یوآئی ف میں مولانافضل الرحمان ہی آل ان آل ہیں ان کیساتھ ان کے بیٹے وبھائی معاملات کودیکھتے ہیں الیکشن کا تصور ہی نہیں ہے ۔مسلم لیگ ق میں چوہدری برادران سب کچھ ہیں ۔مسلم لیگ فنکشنل میں پیر پگاڑا کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا ۔

محمود خان اچکزئی اپنی جماعت کے مختار کل ہیں ۔ایم کیوایم میں ایک دور میں الطاف حسین کا طوطی بولتا تھا آج کل ایم کیوایم مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے ۔ ایم کیوایم کے تضادات پر تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔جماعت اسلامی شاید واحد جماعت ہے یہاں کسی نہ کسی طرح الیکشن باقاعدگی سے اپنے نظم کے مطابق ہوتاہے ۔باقی مذہبی وسیاسی جماعتوں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔

حکومت واپوزیشن کے تمام اہم رہنماؤں پر کرپشن کے بہت سنگین الزامات ہیں اور اپنے الزامات کا جواب دینے کی بجائے ان الزامات کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہیں اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اور جمہوریت لازم وملزوم ہیں ۔سیاسی قیادتیں اور سیاسی جماعتیں ملکوں کی یک جہتی کی ضامن ہواکرتی ہیں مگر ایسا ایک خالص اور حقیقی قیادتوں سے ہواکرتاہے ۔

اسٹیبلیشمنٹ کی بنائی ہوئی جعلی سیاسی پارٹیوں اور جعلی لیڈروں سے نہیں ہوا کرتا۔ایک دور میں سیاست دان سیاست برائے خدمت کرتے تھے مگر آج سیاستدانوں کی اکثریت کا مقصدہی دولت بنانا،جائدادیں بنانا، بنک بیلنس بنانا بن چکا ہے ۔لگژری گاڑیاں ،سرکاری پروٹوکول ،سرکاری خرچے پر غیر ملکی دورے اور ترقیاتی فنڈز کے نام پر پیسے لیکر اربوں روپے کی کمیشن ،کک بیکس اور لوٹ مار ہے ۔

اقربا پروری اور میرٹ کی سرعام پامالی دیکھنے کوملتی ہے ۔اپوزیشن جماعتیں اپناصحیح کردار اداکرنے کی بجائے محض تنقید برائے تنقید و الزام تراشی سے کام لے رہی ہیں ۔اپوزیشن کا کام محض اپنے کیسز کا دفاع کرنا اور اپنے قائدین کو نیک وپارسا ثابت کرنا ہے ۔اپوزیشن جماعتی وذاتی مفادات کی وجہ سے منتشر ہیں۔اپوزیشن کے پاس مسائل کے حل کے لئے کوئی متبادل نظام یا منشور نہیں ہے ۔

کوئی سنجیدہ ورکنگ یا منصوبہ نہ ہونے کی وجہ سے محض ڈنگ ٹپاؤ سے کام چلارہی ہیں حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں اپوزیشن شیڈو کیبنٹ کی طرح اپناہوم ورک کرتی ہے اور متبادل منصوبہ یا پلان دیتی ہے۔سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن لیڈرلندن بیٹھے ہوئے ہیں اور واپس آنے کا نام نہیں لے رہے تو وہ وہاں بیٹھ کر وہ کتنی اپوزیشن کررہے ہیں سب جانتے ہیں ۔

بلاول بھٹو کے اپنے مسائل ومجبوریاں ہیں وہ اپنے والد آصف زرداری کی وجہ سے بہت سی مجبوریوں وپابندیوں کاشکار ہیں ۔ رہے مولانا فضل الرحمان تو ان کو اس دفعہ کچھ حصہ ملا نہیں ہے تو وہ شور مچاتے رہتے ہیں ۔دھرنا بھی دیا مگر ن لیگ اور پی پی پی نے ان کے ساتھ ہاتھ کردیا اب وہ بھی سکون سے بیٹھ گئے ہیں ۔تو ایسے میں عوام کی مشکلات یا ملک کو درپیش بحرانوں کاحل کسی سیاسی جماعت کے پاس بظاہر نہیں آتا اور نہ کسی سیاسی جماعت کی ترجیح ہے ۔

آج پاکستان کی تمام جماعتیں سرمایہ داروطاقتور کلاس کی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں مڈل کلاس و غریب عوام کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔پاکستان کو ایسی حقیقی سیاسی قیادت وسیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو عام انسانوں کی سیاسی جماعت ہوجس میں تمام شعبہ ہائے جات کی نمائندگی ہواور اس کے پاس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا متبادل نظام ہونا چاہئے ۔

ایسے قائد کی ضرورت ہے جس کے پاس حضرت عمر فاروق جیسا عدل وانصاف ہو ،افلاطون کے فلسفی حکمران جیسی عقل ودانش،ارسطو کے صادق و سچے انسا ن حکمران اور کارلائل کے تاریخ سازحکمران کی ضرورت ہے ۔مختصرا جب تک سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہوگی اور سیاسی قائدین کے رویوں میں جمہوریت نہیں آئے گی ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی ۔
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالب ہماری حسرت ہے
(جمہوریت کے تضادات کے سلسلہ میں یہ پہلاکالم ہے اگلے کالموں میں ہم الیکشن کے نظام کی خامیاں ،مقامی حکومتوں کا مظبوط نظام ہماری ترجیح کیوں نہیں ،جاگیردارانہ نظام جمہوریت کے راستے میں رکاوٹ ،میڈیا کاجمہوریت کی مضبوطی میں کردار ،آزادی اظہار رائے و متبادل نظام ،صدارتی یاپارلیمانی نظام کودیکھ کر جمہوریت کے پروان نہ چڑھنے کی وجوہات کاجائزہ لیں گے اور ان کے حل کودیکھیں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :