کرپٹ حکمران ،سسکتی عوام

پیر 6 دسمبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

گوئبلز (Goebbels) ہٹلر کا پروپیگنڈہ وزیر تھا، اس کا قول مشہور ہے کہ ”جھوٹ بولو، اسے اتنا پھیلاؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں“۔پی ٹی آئی کی حکومت اسی فلسفے پرچلتے ہوئے سابقہ حکمرانوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کرپٹ تھے اورکافی حدتک عوام کودھوکہ دینے میں کامیاب بھی ہوگئی ہے اورانہی کے پروپیگنڈے کے زیراثرپاکستانی قوم خود کو مسلسل دھوکہ دے رہی ہے کہ حالات اچھے ہونے والے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روزانہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اورسابقہ حکمرانوں کی کرپشن کوموجودہ حکومت نے کرپشن کے میدان میں چاروں شانے چت کردیا ہے ۔

کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر اقتدار پر براجمان حکومت کے دور میں کرپشن کے نت نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں جوحقیقت کو عیاں کررہے ہیں،پی ٹی آئی حکومت میں BRTسکینڈل، چینی سکینڈل،آٹا سکینڈل، مالم جبہ سکینڈل،ہیلی کاپٹرز سکینڈل،بلین ٹری سونامی اسکینڈل،انڈیا سے دوائیاں امپورٹ کرنے کا اسکینڈل،فارن فنڈنگ کیس اسکینڈل،راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل، یہ وہ سکینڈلز ہیں جنہیں موجودہ حکومت نے طاقت کے زورپر دبادیا۔

(جاری ہے)

اب وزیراعظم کے اعلان کردہ کورونا ریلیف پیکج میں اربوں کی کرپشن کا میگاسکینڈل سانے آیاہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2019 ء میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان 32 ویں نمبرپردنیاکے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔وبائی مرض کے آغاز پر، پاکستان کی وفاقی حکومت نے CoVID-19 سے نمٹنے کے لیے ہنگامی امدادی خدمات کے لیے کل 1240 بلین روپے (7.5بلین امریکی ڈالر)مختص کیے تھے۔

اس بجٹ میں طبی سامان کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری، کمزور طبقوں کے لیے امدادی پیکجز، ضروری اشیائے خوردونوش پر امدادی اقدامات، گیس کی سبسڈی، گندم کی ادائیگی، اور برآمد کنندگان اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو ریلیف کے لیے مختص کیے گئے فنڈز مختص کئے گئے تاہم اس فنڈکی غیرشفاف استعمال سے متعلق تواترسے خبریں آناشروع ہوگئیں جس پرسپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخودنوٹس لیا۔

سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کرونافنڈزمیں کرپشن واضح ہوتی گئی، سپریم کورٹ نے ہسپتالوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی قرنطینہ خدمات کے معیار پر بھی سوال اٹھایا۔اس دوران قومی اسمبلی اپوزیشن لیڈمسلم لیگ(ن کے صدر میاں شہبازشریف نے کہاکہ 1200 ارب روپے سے زائد کے کوویڈ ریلیف پیکیج میں کرپشن کے الزامات نے پہلے ہی صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اس حکومت میں عوامی فنڈز کی چوری عروج پر ہے اور عوام کو خدمات کی فراہمی صفر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے عوام کو حکومت کی چوری، نااہلی اور بدانتظامی کی سزا دی جا رہی ہے جو کہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔پی پی پی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے ایک ویڈیو پیغام میں حکومت کی جانب سے وبائی مرض سے نمٹنے پر تنقید کی اور قومی احتساب بیورو (NAB) سے کورونا فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کا نوٹس لینے کو کہا۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے کووڈ-19 کے نام پر بین الاقوامی اداروں سے اربوں ڈالر اکٹھے کیے ہیں اور اب قوم جاننا چاہتی ہے کہ یہ رقم کہاں گئی۔ انہوں نے کہا کہ 1200 ارب روپے مختص کرنے کے علاوہ حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ سے 1.386 بلین ڈالر، عالمی بینک سے 153 ملین ڈالر اور یورپی یونین کے سفیر سے 150 ملین یورو وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے موصول ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ اکنامک ایڈوائزری ڈویژن نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ 300 ملین ڈالر وصول کرنے کامعاہدہ بھی کیا تھا۔انہوں نے دعوی کیا کہ اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (AGPR) نے بھی 1200 ارب روپے کے کورونا وائرس فنڈز کے استعمال پر سوال اٹھایا تھا۔فیصل کریم کنڈی نے چیئرمین نیب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال سے کہا کہ وہ کورونا فنڈز کی "ڈکیتی" کا نوٹس لیں۔

انہوں نے سوال کیاکہ حکومت عوام کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔ کیا آپ( چیئرمین نیب) اس کا جائزہ لیں گے؟ کیا آپ ایکشن لیں گے یا آپ صرف اپوزیشن ارکان کے پیچھے بھاگتے رہیں گے؟
حکومت آئی ایم ایف کے دباؤپر تقریبا چھ ماہ تک آڈٹ رپورٹ چھپائے رکھنے کے بعدبالآخر جمعہ کو کووڈ 19 پر ہونے والے اخراجات پرآڈیٹر جنرل آف پاکستان(اے جی پی)کی آڈٹ رپورٹ جاری کردی ہے اس رپورٹ میں 40 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیاگیاہے آڈیٹرجنرل کی اس تہلکہ خیز رپورٹ میں انکشافات سامنے آ ئے ہیں کہ کورونا کے دوران حکومت کی جانب سے 1200 ارب روپے سے زائد کا مالیاتی پیکج دینے کے باوجود وینٹی لیٹرز کی خریداری خلاف ضابطہ کی گئی،وینٹی لیٹر کی خریداری میں 9 لاکھ 94 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا، وینٹی لیٹرز 9 لاکھ 94 ہزار ڈالر مہنگے خریدے گئے۔

احساس کیش پروگرام میں 13 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو فنڈز سے محروم رکھا گیاجبکہ نیب کو تمام معاہدوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں ۔ آڈیٹر جنرل کی جانب سے جاری کر دہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق اشیا کی خریداری میں قوانین کی خلاف ورزی اور مالیاتی بدانتظامی پائی گئی، کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے سرکاری محکموں میں تیاری کا فقدان رہا، کورونا وبا کے دوران خریدی گئی اشیا کی ترسیل میں اداروں نے تاخیر کی جو سامان خریدا گیا اداروں کی جانب سے آڈٹ کے لیے ریکارڈ نہیں رکھا گیا جبکہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز میں رعایت کے باوجود ٹیکس کٹوتی ہوتی رہی، رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حکومتی گارنٹیز کے بغیر سپلائرفرمز کو پیشگی ادائیگیاں کی گئیں، نقد کیش کی فراہمی کے دوران نادرا کے سسٹم میں بھی خرابیاں پائی گئی، سرکاری ملازمین، بیمہ شدہ افراد اور ای او بی آئی کے پینشنرز میں پیسے تقسیم ہوئے، کیش کی فراہمی کے دوران مانیٹرنگ نظام میں کوتاہیاں دیکھی گئی۔

آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کی جانب سے غیرمعیاری فلور ملز سے آٹا خریدا گیا، یوٹیلٹی اسٹورز کی جانب سے کمزور طبقے کو سبسڈی منتقلی کا طریقہ کار واضع نہیں ہوا، اشیا کی خریداری کے دوران رولز کی خلاف وزری اور معیار کو یقینی نہیں بنایا گیا۔چین سے سامان کی خریداری میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ریسورس مینجمنٹ سسٹم کی خریداری میں 4 کروڑ 25 لاکھ روپے کی بے ضابطگی ہوئی، احساس کیش پروگرام میں 13 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو فنڈز سے محروم رکھا گیا، یوٹیلٹی اسٹورزکے لیے 50 ارب کی سبسڈی مختص کی گئی، 80 فیصد فنڈز جاری نہیں ہوئے، یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے مختص 50 ارب میں سے صرف 10 ارب کی اعلان کردہ سبسڈی جاری ہی نہیں ہوئی جبکہ چین سے 40 لاکھ ڈالر کی امداد کی فراہمی میں تاخیر کی گئی۔

140 مردہ افراد کے نام پر بھی خطیررقوم دیں، پنجاب سے ساڑھے 26 ہزار افراد کو کورونا اور زکواة فنڈز اور 1347 امیرترین افراد میں 16 ملین سے زائد رقم تقسیم کی گئی۔ریسورس مینجمنٹ سسٹم کی تنصیف میں پروکیورمنٹ قوانین کی خلاف ورزی سمیت پنجاب سے 26555 افراد کو جعلسازی کے ذریعے کورونا اور زکو فنڈز سے رقم تقسیم کی گئی، آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں ایک ارب 59 کروڑ کی رقم کی تقسیم اور 6 ارب 84 کروڑ کی ادائیگی مشکوک قرار دی گئی ہے۔

آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ وزیراعظم نے314 ارب کے ریلیف پیکج کا حکم دیا لیکن فنانس ڈویژن نے کم فنڈز جاری کیے، گھی، چینی اور آٹے کی خریداری کو بھی مشکوک قرار دیا گیا، بلیک لسٹڈ فلورملز سے خریداری ہوئی۔ ناقص معیار کے پی پی ای کٹ خریدی گئیں۔ 86 ہزار 211 سرکاری ملازمین کو غیرقانونی طور پرایک ارب 84 کروڑ سے زائد رقم دی گئیں۔

آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 1347 امیرترین افراد میں 16.164 ملین سے زائد رقم تقسیم کی گئی۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق کرونا ریلیف فنڈز میں خیبر پختونخوا حکومت نے 3 ارب روپے کی بیضابطگی کی ہے جب کہ 88 کروڑ 10 لاکھ روپے کی مشکوک خریداری بھی دیکھنے میں آئی ہے۔خیبر پختونخوا کرونا فنڈ میں 3 ارب کی بے ضابطگیوں کا انکشاف صدر مملکت کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں ہوا ہے۔

آڈیٹر جنرل نے مالی سال 2019-20 میں مختص 8 ارب 80 کروڑ روپے کے اخراجات کا آڈٹ کیا جس میں خیبر پختونخوا حکومت کے محکمہ خزانہ کے جاری کردہ 7.8 ارب روپے بھی شامل تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے 80 کروڑ روپے کی فرضی دوائیاں اور سازوسامان خریدا جب کہ مہنگی کرونا دوائیاں خریدنے پر صوبائی حکومت کو 10 کروڑ کا نقصان ہوا۔رپورٹ میں متعلقہ حکام سے انکوائری کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے۔

رپورٹ میں ایک کروڑ 43 لاکھ 58 ہزار روپے کے آلات کی مشکوک خریداری کی نشان دہی کی گئی ہے جس میں ذخیرہ اندوزی اور لاجسٹکس بھی شامل ہے جب کہ فرنٹ لائن ورکرز کو فراہم کیے جانے والے موت کے معاوضے کے ریلیف پیکج میں 1 ارب روپے کی خوردبرد کی نشان دہی بھی کی گئی۔رپورٹ کے مطابق 14کروڑ روپے کے قرنطینہ سینٹرز بنانے کے فنڈ میں بے ضابطگیاں ہوئیں جب کہ ماسک، کرونا سازوسامان اوردوائیوں کی خریداری میں بھی 30 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں۔


آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2019-20کے دوران کورونا وائرس کی مد میں مختص کئے گئے خصوصی فنڈز کا آڈٹ کیا گیا جس کی آڈٹ رپورٹ بلوچستان اسمبلی میں پیش کردی گئی ہے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے لیے مختص فنڈز میں 4کروڑ 15لاکھ روپے کے حکومتی ٹیکسز اورڈیوٹی کی کٹوتی نہیں کی گئی جبکہ 8کروڑ96 لاکھ سیزائد رقم کو غیرقانونی طور پر اکانٹس میں رکھا گیا ۔

رپورٹ کے مطابق شیخ زید اسپتال کی جانب سے ادویات کی خریداری میں 60لاکھ روپے کی مشکوک پے منٹ بھی کی گئی جس کا ریکارڈ پیش نہیں کیاگیا ۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق پرویشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) کی جانب سے نصیرآباد میں کورونا وائرس اور ٹڈی دل پر قابو پانے کیلئے 2 کروڑ 78 لاکھ سے زائد کی رقم جاری کی گئی جس میں سے 53 لاکھ 98 ہزار روپے کا حساب موجود نہیں تھاجسے حکومتی خزانے میں دوبارہ جمع کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ڈی جی ہیلتھ سروسز کیلئے کورونا وائرس سے بچا ؤکیلئے ادویات کی خریداری کیلئے47 کروڑ 53 لاکھ سے زائد روپے مختص کئے گئے تاہم انہوں نے 96 کروڑ 90 لاکھ روپے کی خریداری کی اور حکومت سے منظوری لیے بغیراخراجات کرنے پر حکومتی خزانے پر 58 کروڑ 67 لاکھ سے زائد روپے کے اخراجات کا بوجھ پڑا جبکہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی ٹیکنیکل کمیٹی سے تجاویز بھی نہیں لی گئیں۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق ڈی جی ہیلتھ سروسز کی جانب سے ژوب،مستونگ اور کوئٹہ میں ایک لاکھ پی پی ای کٹس سمیت دیگر سامان کی خریداری کیلئے 15 کروڑ سے روپے زائد کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے 67ہزار350راشن بیگ تقسیم کئے ان میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر افراد کوبھی تقسیم کیلئے راشن بیگ جاری کئے گئے جبکہ دراصل ضرورت مندخاندانوں کا تعین ڈسٹرکٹ فوڈ سکیورٹی کمیٹی کے ذریعے کیا جانا تھا راشن کی تقسیم کیلئے کسی بھی قسم کا طریقہ کار نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے 12 کروڑ 65 لاکھ روپے کے راشن کی غیرحقیقی بنیادوں پر تقسیم کی گئی۔

اس کے علاوہ رپورٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی جانب سے 2 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے خریدے گئے راشن میں نہ صرف ڈیپارٹمنٹل اسٹورکو فائدہ پہنچایا گیا بلکہ حکومت کوبھی مالی نقصان پہنچا اوراسکے ساتھ ہی مذکورہ اسٹورکو8 لاکھ روپے سے زائد کی رقم بھی جاری کی گئی ۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اے کی جانب سے2 کروڑ 35 لاکھ20 ہزار روپے کی لاگت سے پری فیبری کیٹڈ کمرے اور واش رومز کی خریداری کی گئی یہ اخراجات بغیر کسی ٹیکنیکل اور خریداری کمیٹی کے کی گئی۔


اس کے علاوہ شیخ زیداسپتال،فاطمہ جناح اسپتال اور میاں غنڈی میں قائم کیے گئے قرنطینہ مراکز کیلئے کھانے کی فراہمی بھی غیر رجسٹرڈ فرم سے ایک کروڑ 58 لاکھ روپے کی لاگت سے کی گئی۔رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اے کی جانب سے ایک کروڑ 33 لاکھ60 ہزار روپے کی لاگت سے 40جنریٹر خریدے گئے تاہم ان میں سے صرف 8 استعمال میں آئے جبکہ 32غیر ضروری طور پرخریدے گئے۔


رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اے کی طر ف سے ایک کروڑ 90 لاکھ کی لاگت سے 20کنٹینر خریدے گئے جن کی لمبائی سائز اور دیگر خصوصیات کا کسی بھی صورت جائزہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی انکی کوالٹی چیک کی گئی۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے تمام بے ضابطگیوں اور بے قائدگیوں کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین اور انکے خلاف کاروائی کرنے کی سفارش کردی۔
اس ملک کی صورتحال ایک جانب حکمران طبقات کی حد سے زیادہ مضحکہ خیز نا اہلی و بے حسی جبکہ دوسری جانب بڑے پیمانے پرکرپشن عوام کی المناک بربادی کا ملغوبہ بن چکی ہے۔

اس وقت حکومت کے ترجمان اوروزرا گوئبلز (Goebbels) کاروپ دھارچکے ہیں اورمسلسل جھوٹ بول رہے ہیں،حکومت کرپشن کی وجہ سے سسکتی ،بلکتی عوام کوکوئی ریلیف دینے میں عملاََ ناکام ہوچکی ہے اورحکومت کے گوئبلز (Goebbels)نے ان معاشی مسائل کے بد ترین ہونے کا ملبہ گذشتہ حکومتوں کے سر تھوپنے کا وطیرہ بنالیاہے ،ایساکب تک ہوتارہے گا۔۔؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :