"کراچی میں مون سون کی طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں اور سیاست"

ہفتہ 5 ستمبر 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

مون سون کی بارشیں ہر سال کہیں نہ کہیں تباہی کا سامان ضرور چھوڑ جاتی ہیں مگر اس بار کراچی میں ان بارشوں کا نوے سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا . ہر سال کی طرح ملک کے بیشتر علاقے سیلاب کی زد میں آئے . ذرائع آمدو رفت اور بجلی کی بندش کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں  مواصلاتی  رابطہ بھی منقطع ہوگیا. کئی لوگ گھروں سے سڑکوں پر آگئے. مالی نقصانات کے علاوہ پانی میں ڈوبنے , مکان زمین بوس ہونے ,کرنٹ لگنے اور لینڈ سلائیڈنگ سے کئی افراد لقمہ اجل بن گئے .

بشمول کراچی یہ صورت حال کم و پیش ملک بھر کی رہی .
پاکستان کو بنے ستر سال سے اوپر ہوگئے ہیں. ہر سال مون سون کی بارشیں ایک نئے تیور کے ساتھ شروع ہوکر اپنے پیچھے نقصانات کی شکل میں ان مٹ نکوش چھوڑ جاتی ہیں , کہیں فصلیں برباد , کہیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار  تو کہیں سیلابی ریلہ پوری آبادی نگل لیتا ہے . جیسا کہ 2006 میں بلوچستان کے کئی علاقے بری طرح سیلاب کی زد میں آئے اور نال میں ایک پوری بستی اپنے گھر سامان اور مکینوں سمیت سیلاب کی نذر ہوگئی .

مگر اس وقت ایک مجرمانہ خاموشی دیکھنے میں آئی . اسی طرح ہر سال پاکستان کے مختلف اضلاع میں یہ بارشیں  تباہی کا موجب ہے . مگر اس بار باقی علاقوں کے ساتھ ریکارڈ توڑ بارشوں نے کراچی کو بھی تہس نہس کردیا, جس سے ضلعی, صوبائی, وفاقی اور ساتھ ہی یہاں کے بلدیاتی اداروں کے دعوؤں کی قلعی بھی کھل گئی. مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ کورونا کی طرح کراچی میں اس بات پر بھی سیاست کی جارہی ہے .

گورنمنٹ بشمول اپوزیشن انتہائی  بےحس بنی ہے. انہیں بس اپنی سیاست ہی چمکانی ہے. اگر غور کیا جائے تو یہ بارشیں اور سیلاب ہیں تو قدرتی آفات مگر یہ انسان کو آئینہ دکھانے آتے ہیں کہ یہ ہے تمہاری کارکردگی . یہ انسان کی تعمیراتی غلطیوں پر سوال کھڑے کرتی ہیں. کہیں پل اور سڑک ٹوٹتے ہیں اور رابطہ منتقل ہوتا ہے اور کہیں گھروں کو نقصان پہنچا کر مکینوں کو سڑک پر لاکر کھڑا کرتی ہیں اور کہیں اموات کی صورت میں لازوال نقصان کا موجب بنتی ہیں.
ایک کروڑ اسی لاکھ آبادی والا  کراچی ایک میٹرو پولیٹن شہر ہے.

یہ دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہونے کے ساتھ سندھ کا دارالخلافہ بھی ہے . پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی یہیں ہے. پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ روز گار کے سلسلے میں یہاں آتے ہیں اور مستقل سکونت اختیار کرتے ہیں . اس لیے اسے چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے . 1947میں آزادی ملنے کے بعد یہ پاکستان کا دارالحکومت بنا مگر پھر 1659 میں اس بسے بسائے علاقے کو چھوڑ کر ایک غیر آباد سرسبز علاقے اسلام آباد کو دالحکومت بنایا گیا.

اور یہیں پر کراچی کے ساتھ وفاق کی پہلی نا انصافی دیکھنے میں آئی. اگر کراچی کے ماضی میں جھانکیں تو پہلے یہاں مائی گیروں کی بستی آباد تھی اور اس کا نام مائی کلاچی تھا. اس نام کی نسبت اس لیے تھی کہ پہلے یہاں کی آبادی مکمل طور پر بلوچ تھی جو مکران کے علاقے کولانچ سے یہاں منتقل ہوئی تھی . اور پھر انگریزوں نے یہ نام  بگاڑ کر اسے کراچی بنایا.

1795 میں یہ علاقہ خان قلات کی مملکت کا حصہ  تھا مگر اس وقت کی سندھ گورنمنٹ اور خان قلات میں جنگ کے نتیجے میں سندھ یہاں قابض ہوگیا. 3 فروری 1839میں انگریز یہاں قابض ہوئے اور برطانوی راج کا وقت ہی  یہاں کی ترقی کا اصل وقت رہا ہے . اس وقت کی سیاست کے پیچھے بھی یہاں کی  قدرتی بندرگاہ تھی جو ایک اہم معاشی حیثیت کی حامل ہے  اور تاحال بھی وہی سیاست چل رہی ہے اور  لوگ استعمال ہورہے ہیں.  ایک دوسرے سے وقتا فوقتا دست و گریبان رہتے ہیں .

کراچی جس نے  پاکستان بھر کے تمام صوبوں کے افراد کو ذریعہ روز گار حاصل کرنے کے لیے جگہ دی , مگر یہاں کے اصل وارث اور مکین  بلوچ پسماندگی کے جانب دھکیلے گئے اور لاواث قرار دیے گئے . یہاں کے لوگوں کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ سندھ گورنمنٹ کراچی پر توجہ نہیں دیتی, مگر حیرت تو تب بھی ہوتی ہے کہ اگر آپ اندرون سندھ کا رخ کریں تو وہاں بھی صوبائی اور وفاقی حکومت کی نا اہلی اپنی انتہا کو ہے اور وہاں کے مکینوں کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے.

کراچی میں مون سون کی طوفانی بارشیں  کی تباہ کاریوں پر یوں تو ہر سال ہی سیاست ہوتی  ہے مگر اس سال تو سیاست اپنے عروج پر رہی اور کارکردگی انتہائی سست . کراچی ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے معتدل علاقہ ہے اور بارشیں بھی پورے سال میں 250 ملی میٹر تک ہی ہوتی ہیں . مگر اس سال ان طوفانی بارشوں نے پچھلے 89 سالہ کے ریکارڈ توڑ دیے .محکمہ موسمیات کے مطابق صرف اگست 2020 میں فیصل بیس کراچی میں 345 ملی میٹر بارش ریکاڑ کی گئی جو 298.4 تھی .

ماہر موسمیات کا اس سلسلے میں یہی کہنا ہے کہ کراچی سمندر سے کیر تھر تک مسلسل بارشوں کی زد میں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سسٹم کو مسلسل نمی مل رہی ہے اور بادل دو سے تین ہزار کی بلندی کے بجائے پینتیس سے چالیس ہزار تک کی  اونچائی پر آگئے ہیں. اس لیے بارشیں بھی زیادہ ہو رہی ہیں. کراچی  شہر ایک ناہموار میدانی علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں۔

(جاری ہے)

شہر کے درمیان میں سے دو بڑی ندیاں گزرتی ہیں، ملیر ندی اور لیاری ندی جن کو سیلابی ند یاں بھی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ  شہر سے کئی اور چھوٹی اور بڑی ندیاں اور اور برساتی نالے بھی گزرتے ہیں .اگر صرف نالوں کی صفائی ہی اہم مسئلہ ہوتا تو بارشوں کے پہلے اور دوسرے تسلسل کے بعد فوج نے نالوں کی صفائی کر لی تھی مگر بعد میں بھی زیریں علاقوں میں پانی مسلسل جمع ہو رہا تھا .
ان بارشوں سے جہاں  بے تہاشا مالی نقصان ہوا ہے وہیں  اموات بھی بہت زیادہ ہوئی ہیں.

ایک اندازے کے مطابق تقریبا سو سے دو سو تک کے مابیں اموات ہوئی ہیں . ساتھ ہی تباہی اور نقصان کا اندیشہ بھی سوا ہو گیا ہے . بارشوں کے بعد کراچی کا ایک بڑا حصہ زیر آب آگیا . پانی گھروں میں آگیا ہے. گھر اور مختلف عمارتیں منہدم ہوگئیں .
کراچی سمیت ملک بھر میں اس سیلابی صورت حال کے نتیجے میں جو  اموات ہوئی ہیں اور مالی نقصانات ہوئے ہیں  ان کا ازالہ تو ممکن نہیں مگر  مستقبل کے لیے لائحہ عمل کی شدید ضرورت ہے.

ملک کے زیریں علاقے جہاں  پانی جمع ہونے کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے, نئے اور جامع منصوبوں کی ضرورت ہے اور مستقبل  نکاسی آب کے لیےبہترین  لائحہ عمل کی بھی ضرورت ہے  . اس کے لیے ضروری ہے کہ ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور پوری ایمانداری سے نبھائیں . اس سلسلے میں اگر صرف کراچی کی انتظامی صورتحال کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کوتاہی کہاں  کہاں ہورہی ہے .2001 میں  کراچی کے انتظامی امور کی نئی درجہ بندی کے نتیجے میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ , ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن اور  یونین کونسل ایڈمنسٹریشن بنے.

ضلع کراچی کے 18 ٹاؤن کا اپنا  منتخب کردہ بلدیاتی انتظامیہ ہے جو  پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی صفائی، سڑکوں کی مرمت، باغات، ٹریفک سگنلز اور حمل و نقل  وغیرہ کے ذمہ دار ہیں اور  بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔  اسی حد بندی کے ذریعے ہی کراچی کے اندرونی  معاملات سدھارے  جاسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :