
قومی قیادت کے علمبردار زندگی کی بھیک نہیں مانگا کرتے
جمعہ 1 نومبر 2019

گل بخشالوی
ذولفقار علی بھٹو دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی صاحبزادی پاکستان اور عالمی سیاست میں پاکستان کی پہچان ہو گئیں۔
(جاری ہے)
لیکن تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق کے لے پالک دورِ حاضر کے رجسٹرڈ سابق وزیرِ ا عظم میاں محمد نواز شریف نے پاکستان میں دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم پر پاکستان کی سر زمین کو تنگ کر کے اسے خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور کر دیا لیکن بھارت سرکار کی خوشنودی کے لئے کارگر سیکٹر میں افواجِ پاکستا ن کی پیش قدمی کو روک کر فوج کو واپس بلا یا اور وطن سے غداری کے مرتکب ہو ئے اور اس جرم میں افواجِ پاکستان کے چیف کمانڈر جنرل مشرف نے اس کی حکمرانی کا تختہ کرکے گرفتار کر لیا جیل میں جیل کے خوں خوار مچھروں کے ڈنگ برداشت نہ کر سکے تو سعودی عرب سے زندگی کی بھیک مانگ کر سعودی عرب چلے گئے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد سابق وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کے نقاب میں پاکستان چلے آئے۔
جنرل مشرف بخوبی جانتے تھے کی نواز شریف موقع پرست سیاست دان ہیں یہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی سیاست میں برداشت نہیں کر یں گے اس لئے خلوص نیت سے محترمہ کو مشورہ دیا کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے پاکستان نہ آئیں لیکن پاکستان کے عوام کی آواز پر باوجو د خطرے کے جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ پاکستان آئیں اور کسی نا معلوم گولی کا نشانہ بن کر پاکستان کے عوام سے محبت میں جمہوریت پر قربان ہو گئیں انتخابات میں پاکستان کے عوام نے بے نظیر بھٹو سے اپنی بھرپور محبت میں پیپلز پا رٹی کو تختِ اسلام آباد سے نواز ا خود ساختہ پیپلز پارٹی کے قا ئد آصف علی ذرداری پاکستان کے صدر بن گئے جنرل مشرف کی پارٹی مسلم لیگ ق کو قاتل لیگ کا نام دے کر جنرل مشرف کو باعزت اور باوقار سلامی میں پاکستان سے یہ کہتے ہوئے رخصت کر دیا کہ میں اپنی بیوی اور سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے قاتل کو جانتا ہوں لیکن نام نہیں بتاؤں گا۔ آ صف علی زرداری نے اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے عوام اور پاکستان دشمن الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم کو ساتھ لیا اور مسلم لیگ ن سے ،،من ترا حاجی بگویم تومرا ملا بگو ،،کی پالیسی پر باری کی حکمرانی کا کھیل شروع کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی منشو ر بھٹو ازم کو دفن کر کے زرداری ازم کے منشور میں پیپلز پارٹی کا جنازہ نکا ل دیا۔
آصف علی زرداری کے بعد حسبِ معاہدہ نواز شریف وزیرِ اعظم اور پھر اقتدار کے نشے میں شہنشاہ بن گئے۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو نظر انداز کر کے میاں محمد نواز شریف نے قومی ادروں اور افواجِ پاکستان کے مقام تک کو نظر انداز کر دیا تو پاکستان کے عوام کی آواز پر عمران خان تحریکِ انصاف کی قیادت میں سامنے آئے۔قومی سیاست میں عوام نے تبدیلی کو ووٹ دیا ،عمرا ن خان دھرنے سے ا ٹھ کر پاکستان کے وزیرِ اعظم بن گئے اور گھٹ جوڑ کے بادشاہ سیاست دان منہ دیکھتے رہ گئے، عمران خان نے قوم سے وعدے کے مطابق اپوزیشن کے قومی لٹیرے علی بابا اور اس کے چالیس چوروں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ۔سپریم کورٹ آزاد ہو کر بدکرداروں کے گرد ہو گئی اور افواجِ پاکستان نے کہا ۔ہم وطن عزیز میں جمہوریت کے علمبردار ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ آج قومی لٹیرے جیلوں میں گذشتہ کل کی عیاش زندگی کی یاد میں مختلف بیماریوں میں مبتلا مکافاتِ عمل کا شکار ہیں،پاکستان کے عوام بخوبی جا نتی ہے کہ مسلم لیگ ن کے سعد رفیق، احسن اقبال،اورپرویز رشید جس شانِ بد تمیزی میں بیمار جنرل مشرف کی بیماری کا مذاق اڑا رہے تھے آج وہ ہیں میاں محمد نواز شریف کی بیماری کے ماتم میں عمران خان کو بد ترین نتائج کی دھمکیاں دے کر محمد نواز شریف کو علاج کے لئے رہائی اور بیرون پاکستان لے جانے کی عدا لتوں سے ان کی زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں،لیکن یہ خود پرست نام نہاد سیاست کے بونے نہیں جانتے کہ عوامی اور قومی قیادت کے علمبردار زندگی کی بھیک نہیں مانگا کرتے اور نہ وطن سے بیرون وطن جایا کرتے ہیں ،سرزمینِ پاک پر ذولفقار علی بھٹو کی زندہ مثال ہمار ے سامنے ہے ۔ باوجود عا لمی قیادت کی خواہش کے ذولفقار علی بھٹو نے سزائے موت کی کوٹھری میں کہا میری مٹی پاکستان کی ہے میں پاکستان کے ان عوام کی محبت کو نظر انداز نہیں کر سکتا جنہوں نے میری محبت میں سر زمینِ پاک کو خون سے سیراب کیا میں پاکستان میں دفن ہوں گا ۔
ذولفقار علی بھٹو وہ زرداری اور نواز شریف نہیں تھے وہ عوامی قائد تھے اس لئے موت کی تاریک کوٹھری میں انہوں نے قیادت کی تاریخ رقم کی اور عوام سے کئے ہوئے وعدے پر قائم اپنے دیس کی مٹی میں دفن ہو کر امر ہو گئے۔عمران خان کی قیادت اور حکمرانی میں سابق حکمران جماعتوں کی سیاست کا شیرازہ بکھر چکا ہے رہی سہی کثر مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ میں نکل جائے گی اور پاکستان محب وطن عوام کی قربانی اور محبت میں اپنے خوبصورت کل کے لئے منزل کی جانب رواں دواں رہے گا ان شاء اللہ !!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
گل بخشالوی کے کالمز
-
گداگر اپوزیشن، حکومت گراﺅ ، در در پر دستک !
بدھ 16 فروری 2022
-
کسی مائی کے لال میں جرات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد لا سکی
منگل 15 فروری 2022
-
اگر جج جواب دہ نہیں تو سینیٹر اور وزیراعظم کیوں کرجواب دہ ہو سکتا ہے
جمعہ 4 فروری 2022
-
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن غیر حاضر اور حکومت کی جیت
پیر 31 جنوری 2022
-
اسلامی صدارتی نظام اور پاکستان
جمعرات 27 جنوری 2022
-
تحریکِ انصاف ، جماعت اسلامی ، پاکستان عوامی تحریک ، اور ریاست ِ مدینہ!!
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
اپوزیشن، عوام کی عدالت میں پیش ہونے سے قبل ان کے دل جیتیں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم پاکستان کے باشندے ہیں
ہفتہ 15 جنوری 2022
گل بخشالوی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.