تو ہمارا موروثی سیاسی مستقبل تاریک ہو جائے گا!!!

بدھ 26 اگست 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پاکستان مسلم لیگ ن کے عدالتی مفرور،ملزم و مجرم سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کے لئے تحریکِ انصاف کے کپتان عمران خان نے شوشہ چھوڑا وزیرِ اطلاعات شبلی فراز بھی بولے نواز شریف نے قانون کا مذاق اڑایا بیماری کا ڈرامہ کر کے ملک سے فرار ہو گئے ایسا ہی شوشہ سابق وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے دور میں بھی چھوڑا گیا تھا تحریکِ انصاف کے کپتان وزیرِ اعظم پاکستان ایسے شوشے تب چھوڑتے ہیں جب مسلم لیگ ن کے پر نکلتے ہیں کپتان جانتا ہے کہ اگر ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو واپس نہیں لایا جا سکا تو میاں صاحب کو واپس کیسے لایا جا سکتا ہے البتہ ایسے شوشوں سے میڈیا اور اپوزیشن کو بولنے کا موقع ملتا ہے مختلف جماعتوں کے درباری میڈیا ٹاکروں میں اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں اور قوم سنتی ہے چہروں سے نقاب اترتے ہیں اور عوام بہت کچھ جان لیتے ہیں
مسلم لیگ ن کے راہنما حضرت اقبال حسن اور محترمہ مریم اورنگ زیب تو ضرورت سے کچھ زیادہ بول جاتے اور جاتی ہیں جانے وہ کیوں بھول جاتے اور جاتی ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کو تختِ اسلام آباد سے عمران خان نے نہیں بلکہ اس وقت اتارا گیا تھا جب وہ خود وزیرِ اعظم تھے سپریم کورٹ نے کہا آپ صادق اور ا مین نہیں رہے اسلام آباد سے نکالے جانے کے بعد وہ سرِ عام بولتے رہے مجھے کیوں نکالا یعنی اس وقت بھی میاں صاحب نے اپنے نکالے جانے کی وجہ کو تسلیم نہیں کیا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اور جیل چلے گئے تو خیال آیا کہ مچھروں کے ساتھ رہنا تو مشکل ہو گا باہر جایا جائے لیکن کیسے سعودی عرب کے اعتماد کو تو پہلے ہی دھوکہ دے چکے تھے حالات کی نزاکت کو جانتے ہوئے جانے کس کے ساتھ رابطہ ہوا جس کے کہنے پر بیمار ہوگئے اور ایسے بیمار ہو گئے کہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی پریشان ہو گئے اس لئے کہ اسی احسن اقبا ل اور مریم اورنگ زیب نے کہا کہ اگر میاں صاحب کو بیرون ملک علاج کی اجازت نہ ملی اور انہیں کچھ ہو گیا تو عمران خان مجرم ہوں گے پوری قوم پریشان تھی اس لئے کہ میاں صاحب میڈیا رپورٹس میں قبر کے کنارے کھڑے تھے عدالت نے حکو مت سے پوچھا اور حکومت نے انسانی ہمدردی کے پیشِ نظر جانے کی اجازت دی لیکن ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا عدالت نے علاج کے لئے چار ہفتوں کی اجازت دی اور میاں صاحب خاندان کے جلوس میں انگلستان جانے لگے تو ان کی آدھی بیماری ختم ہو گئی اور یہ منظر ائیر پورٹ پر عوام کے ساتھ ادروں، حکومت اور دنیا نے دیکھا تھا
مریم اورنگ زیب کہتی ہیں وزیرِ اعظم کے پاس این آر او کے اختیارات کہاں سے آگئے اور احسن اقبا ل کہتے ہیں کی میاں صاحب کو حکومت نے خو د بیرون ملک جانے کی اجازت دی دونوں میں کون سچا ہے یہ تو قوم ہی بتا سکتی ہے لیکن وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے میاں صاحب کو واپس لانے کا جو شوشہ چھوڑا اس میں وہ کامیاب رہے قوم کو معلوم ہو گیا کہ میاں صاحب بیمار نہیں تھے بیماری کا بہانہ تھا اندر خانے ڈیل ہو چکی تھی جو کہ آج تک قائم ہے اپوزیشن اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر شور مچاتی ہے لیکن جب بھی کوئی بل اسمبلی میں پیش ہوتا ہے تو بھاری اکثریت سے پاس بھی ہو جاتا ہے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو تین سال مزید فوج کی حکمرانی کے لئے اسی اسمبلی نے بل پاس کیا ان ہی وجوہات کی بنیاد پر اے پی سی ، اے پی سی کھیلنے والے حضرت علامہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ مزید چلنا مشکل ہے یہ لوگ باہر کچھ ہیں اور ا ندرکچھ ہیں اس لئے مولانا صاحب نے تانگہ پارٹیوں پر مشتمل الگ اپوز یشن بنا لی لیکن دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنا عمل پھر بھی اپنے گریباں میں نظر نہیں آیا شاید اس لئے کہ جو وہ چاہتے ہیں مزید تین سال تک وہ ناممکن ہے !
 یہ لوگ اگر شور مچاتے ہیں عمران خان کو نالائق اور نااہل کہتے ہیں تو صرف خود کو قومی سیاست میں زندہ رکھنے کے لئے ورنہ ان تلوں میں مزید تیل نہیں رہا ہے اپوزیشن والے بخوبی جانتے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان مسلم ممالک میں اپنی شناخت کے حوالے سے اپنا مقام پیدا کر چکے ہیں مسلم دنیا کی پانچ سو اہم ترین شخصیات کی فہرست میں شامل عمران خان سال کے بہتر ین شخصیت قرار پائے ہیں پانچ سو شخصیات میں پچاس کا تعلق مذہبی سکالر ز اور سربراہانِ مملکت سے ہے عمران خان کا طیب اردگان اور شیخ محمد زید بن النہیان جیسی عالمی شخصیات کے ساتھ کھڑا ہونا پاکستان کے لئے اعزاز ہے جس پر پاکستانی قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے یہ اعزاز عمران خان کو 2018 میں اس وقت ملا تھا جب اقتدار میں آنے کے بعد بحثیت وزیرِ اعظم پاکستان بھارت سے دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے لئے تنازعات کے پر امن حل اور امن وامان کے حوالے سے اقدامات کی پیش کش کی تھی چونکہ ہماری قوم گزشتہ کل کو بھول جاتی ہے یہ ہی حال ہماری میڈیا کا بھی ہے اس لئے تحریک انصاف کی میڈیا سل نے یہ رپوٹ دوبارہ شائع کر دی تاکہ اپوزیشن جان جائے کہ عمران خان کون ہیں اور جسے قومی عدالت نے یہ کہہ کر تختِ اسلام آباد سے اتر دیا تھا کہ تم صادق اور امیں نہیں!!
 اپوزیشن جماعتوں نے کورونا وائرس پر سیاست میں عمران کی پالیسیوں پر تنقید کی لیکن کورونا وائرس سے نمٹنے کی کامیاب حکمت عملی پر اقوامِ متحدہ اور بل گیٹس پاکستان کو کامیاب ممالک کی فہرست میں شامل کر چکے ہیں اد ھر عالمی تجزیہ نگار مائیکل کو گلمین لکھتے ہیں کہ کو رونا وائرس سے نمٹنے کے لئے عمران خان کا لائحہ عمل ترقی پذیر ملکوں کے لیے ساز گار اور مثال ہے مزید لکھتے ہیں کہ عمران خان اپنی کامیاب پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم ہوں گے جو پانچ سال کی مدت پوری کریں گے اب یہ پاکستان کے عوام نے سوچناہے کہ ایک وزیرِ اعظم کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کہتی ہے تم صادق اور ا مین نہیں ہو اورعمران خان کو مسلم دنیا سال کی بہترین شخصیت قرار دے رہی ہے میاں محمد نواز شریف کے گھر میں سیاست سیکھنے والی مریم اورنگ زیب اور آصف علی زرداری کی گود میں سیکھنے وا لے بلاول کیا جانے کی قومی راہنما ئی کے لئے پاکستانی سیاست کو نہیں دنیا کی تاریخ سے سبق حاصل کیا جاتا ہے !!
قوم سوچتی ہے کہ آ خر وزیرِ اعظم کو شوشہ چھوڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے تو جیسا کہ میں پہلے لکھا ہے جب مسلم لیگ ن کے پر نکلتے ہیں مسلم لیگ ن کے میاں صاحب ذاتی مفاد کے لئے اداروں اور شخصیات کے حضور جھکتے جھک جاتے ہیں مطلب نکلتا ہے تو آنکھ دکھاتے ہیں چند ہی د ن پہلے آ صف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے بھی یہ ہی کہا تھا سعودی عرب سے معاہدے کو تھوڑا بے نظیر بھٹو کے ساتھ رابطہ ہوا پاکستان آ کر سیاست کھیلنے لگے اب علاج کے بہانے برطانیہ گئے ہیں قانوں اور عدالت کے اعتماد کو دھوکہ دیااورجن سے ڈیل ہوئی ان بھی کو لگتا ہے کہ میاں صاحب ان کے اعتماد کو بھی دھوکہ دینے کی سوچ رہے ہیں اس لئے کہ میاں صاحب کی ہدایت پر محترمہ مریم نواز لاہور میں جس انداز سے سامنے آئیں سب نے دیکھا اس لئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہاں ہم میاں صاحب کو واپس لانے کے لئے برطانیہ سے رابطہ کر رہے ہیں وزیرِ اعظم کے اس اعلان میں وہ تنہا نہیں یہ میاں صاحب اور اس کے پاکستان میں درباری بھی خوب جانتے ہیں اپوزیشن والے یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اپوز یشن والے بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ چھ ستونوں پر کھڑی عمران خان کی حکومت گرا سکیں لیکن یہ قسم ضرور کھائی ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام کے لئے وہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے عوام اور حکومت کو سکوں کا سانس نہیں لینے دیں گے اس لئے کہ اگر عمران خان کو سکون سے حکمرانی کاموقع دیاگیا تو ہمارا موروثی سیاسی مستقبل تاریک ہو جائے گا!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :