دیر کس بات کی

بدھ 26 دسمبر 2018

Khalid Imran

خالد عمران

آج کل مولانا طارق جمیل مدظلہ کے ایک مختصر ویڈیو پیغام کا چرچا ہے۔ قوم کے نام مولانا کے اس پیغام کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ریاست مدینہ کی بات کی ہے، قوم کو وزیراعظم کا ساتھ دینا چاہیے، پہلی بار کسی حکمران نے ملک کو ریاست مدینہ بنانے کی بات تو کی…
جہاں تک ریاست مدینہ کی اصطلاح کا تعلق ہے تو کسی مقتدر شخصیت کی جانب سے یہ اصطلاح واقعی پہلی بار استعمال کی گئی ہے لیکن بانیٴ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر میاں محمد نوازشریف تک ہمارے اکثر مقتدر حضرات اس طرح کی بات کرتے رہے ہیں۔

بانیٴ پاکستانی قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ“ کا نعرہ لگایا اور پاکستان بننے سے پہلے اور بعد بھی مسلم لیگی قیادت بالخصوص قائداعظم نے اپنی درجنوں تقاریر اور بیانات میں پاکستان یا مسلمانوں کے لیے الگ خطے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہم مسلمان وہاں قرآن وسنت یعنی اسلامی قوانین کے تحت زندگی گزاریں گے۔

(جاری ہے)

طوالت کے خوف سے ان اقتباسات کو درج نہیں کیا جا رہا، لیکن اب ان کا پالیسی ساز بیان 11 اگست کی تقریر کو قرار دیا جارہا ہے۔ پھر شہید ملت لیاقت علی خان نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد منظور کرائی۔ 1956ء میں چودھری محمد علی مرحوم نے جو دستور مرتب کیا، اس میں بھی اسلامی قوانین کو مدنظر رکھا گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962ء میں جو آئین مرتب کروایا، اس میں مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔

جنرل (ر) یحییٰ خان کے دور میں بھی دو قومی نظریے کا بہت چرچا ہوا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی جماعت پیپلزپارٹی کے منشور میں ”اسلام ہمارا دین“ اور ”مساواتِ محمدی“ کی بات کی۔
بھٹو مرحوم کے دور میں 1973ء کا آئین بنایا گیا، اس میں نہ صرف اسلامی قوانین کو اہمیت دی گئی، بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ دس برس تک پاکستان میں رائج تمام غیراسلامی قوانین کو اسلامی بنالیا جائے گا۔

بھٹو صاحب نے اس وقت قومی اسمبلی میں موجود علمائے کرام کی بہت سی آراء کو آئین میں شامل کرکے قانونی شکل دی اور بعد میں کئی ایک اقدامات بھی کیے۔
1977ء میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع ہوا، اس نے آگے چل کر ”تحریک نظام مصطفےٰ“ کا روپ دھار لیا، اس کے نتیجے میں جنرل محمد ضیاء الحق برسراقتدار آئے، جنرل ضیاء نے بھی گیارہ برس تک نفاذ اسلام کی نہ صرف بات کی، بلکہ متعدد اسلامی قوانین پر مبنی صدارتی آرڈیننس جاری کیے۔

پھر وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے بہت سی اسلامی شقیں آئین میں شامل کروائی گئیں، قرارداد مقاصد جو پہلے محض آئین کا دیباچہ تھی، اسے آئین کا ناقابل تغیر وتبدل حصہ بنا دیا گیا۔
1988ء میں میاں نوازشریف کی زیرقیادت اسلامی جمہوری اتحاد نے نفاذ اسلام کے نعرے پر ووٹ حاصل کیے، اگرچہ انہیں وفاقی حکومت نہ مل سکی۔

1990ء میں بھی اسلامی جمہوری اتحاد نے اپنے اسی منشور پر ووٹ حاصل کیے، جس میں نفاذ اسلام کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کو وفاقی حکومت ملی اور پھر میاں صاحب نے اس اتحاد کا منشور نافذ کرنے کی بجائے ایسے اقدامات کیے کہ مولانا سمیع الحق شہید اور جماعت اسلامی ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ 1993ء میں وزیراعظم بننے والی بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی دوپٹے اور تسبیح کو نمایاں کرکے عوامی اکثریت کی مذہبی عصبیت کو اپیل کیا۔

1997ء میں بھاری مینڈیٹ لے کر برسراقتدار آنے والے میاں نوازشریف نے جمعے کی چھٹی ختم کی اور دینی مذہبی جماعتوں کو بھی اپنے سے دور رکھا۔ 2008ء کے بعد پیپلزپارٹی کے زرداری دور میں 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں لیکن اسلامی شقوں سے چھیڑچھاڑ کی جرأت نہ ہوئی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کسی نہ کسی انداز میں قوم کے دینی جذبات کو استعمال کیا، ان کی نیت کیا تھی، اس کا پتا بعد میں ان کے اقدامات سے چلتا رہا۔


اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انتہائی قابل احترام مولانا طارق جمیل اور ہمارے دیگر اکابر جو اس وقت ریاست مدینہ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی حمایت کی بات کررہے ہیں، وہ اس تمام تر تفصیل سے واقف نہیں۔ انہوں نے یقینا یہ سب کچھ پڑھا اور سنا ہے لیکن انورچراغ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ہمارے ان مخلص بزرگوں کو شاید زیادہ قریب سے اس طرح کی بات سنائی جا رہی ہے۔

مولانا طارق جمیل اور دیگر بزرگوں کو اگر وزیراعظم کی ریاست مدینہ کی بات پسند آئی اور انہوں نے عوام سے اس کی تائید کی اپیل کی تو کیا برا کیا۔ سب جانتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل کی چالیس پینتالیس سال کی محنت اور جدوجہد ہی دعوت وتبلیغ کے میدان میں ہے، اس کے لیے انہوں نے جو قربانیاں دیں، وہ شاید آج کے مولانا طارق جمیل کے معترضین تو کیا مداحین کے علم میں بھی نہیں ہوں گی، اس طرح ہمارے دیگر مخلص بزرگ بھی مدتوں سے پاکستان کو اسلام کا گہوارہ دیکھنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔


وزیراعظم عمران خان نے اگر کسی ملاقات یا کسی ذریعے سے مولانا طارق جمیل جیسا دینی و دعوتی پس منظر رکھنے والی شخصیت کے سامنے ریاست مدینہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور پھر مولانا نے ان کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ عوام سے تائید کرنے کا پیغام جاری کردیا تو یہ مولانا کے اخلاص کی دلیل ہے۔
انورچراغ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سیاسی مولانا ہوتے تو وہ ”ریاست مدینہ“ کی اصطلاح کا شکار ہوکر شاید اس طرح کا پیغام قوم کو نہ دیتے بلکہ وہ اپنے سیاسی تجربے اور گزشتہ 70 برس میں کی جانے والی آئینی جدوجہد سے واقفیت کی بنا پر شاید یہ سوال اٹھا دیتے کہ حضور ڈالر مہنگا کرتے وقت آپ کو کسی نے روکا؟ کرتارپور راہداری بناتے وقت کسی نے ٹانگ اڑائی؟ سابق حکمرانوں کے ساتھ عدالتوں میں جو کچھ ہورہا ہے اور آیندہ ان کے ساتھ جو کچھ کرنے کا عزم آپ روزانہ دہراتے ہیں، اس میں کوئی رکاوٹ بنا؟ انہی سابق حکمرانوں کے وہ ساتھی جن پر کرپشن کے الزامات تھے، انہیں ڈرائی کلین کرکے آپ کے ساتھ جوڑ دیا گیا، کسی نے کچھ کہا؟ آپ نے اسی فیصد داڑھی والوں کو بددیانت اور باقی بیس فیصد کو مشکوک قرار دیا، کسی کے ماتھے پر بل پڑا؟ سیاسی مقاصد کے لیے آپ دھرنے دیں، ملک بند کرنے، دارالحکومت لاک ڈاوٴن کرنے، یوٹیلیٹی بل جمع نہ کرانے، بیرون ملک سے رقوم بینکوں کی بجائے ہنڈی حوالے سے بھجوانے کی بات کریں تو آپ کا سیاسی حق لیکن اگر کوئی مذہبی گروہ اپنے مذہبی جوش وجذبے کے اظہار کے لیے دھرنا دے، احتجاج کرے تو پہلے تو ہاتھ باندھ کر سر جھکاکر اس سے معاہدہ کیا جائے اور پھر معاہدے کو روندکر انہیں جیلوں میں ڈال دیا جائے اور بجائے کسی قسم کی اخلاقی گراوٹ محسوس کرنے کے، دین بے زار لبرلز کی طرف سے ذرائع ابلاغ میں ”مارو پکڑو، ریاست کی رٹ بحال کرو“ کے مفہوم کے اشتہار شائع کروائے جائیں، یعنی : جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اور پھر دھرنے کے نام پر آپ نے جس قسم کے مخلوط سیاسی احتجاج کی بنیاد رکھی، اس پر کسی نے آپ کا کیا بگاڑ لیا؟ آپ کے وزیر خزانہ فرما رہے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کی امداد ملنے سے پہلے ہی اس کی شرائط مان لیں اور بجلی گیس کی قیمتیں بڑھا دیں، روپے کی قیمت گراکر آپ نے ملک کو مزید مقروض کردیا، آپ نے کرپشن کو پاکستان کے مترادف کیا تو کسی کی ہمت ہوئی کہ آپ کی زبان روکے؟ اقتدار میں آنے سے پہلے آپ جن خیالات کا اظہار فرمایا کرتے تھے، جب آپ نے گزشتہ چار ماہ میں اس کے برعکس کیا، کسی نے آپ کا کیا کرلیا؟ اقتدار میں آکر آپ نے صبح دوپہر شام یوٹرن لیے اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ بڑا لیڈر یوٹرن نہ لے تو ناکام ہوجاتا ہے، تب کسی نے آپ کی نکیر کی؟ لیکن اب ریاست مدینہ بنانے کے لیے آپ کے سامنے کون سی رکاوٹ ہے؟ اور اس سلسلے میں عوام آپ کا کیا ساتھ دے سکتے ہیں؟ عوام تو 25جولائی کو پرچی کے ذریعے اپنی رائے کا استعمال کرچکے، جس کا نتیجہ آپ کے اقتدار کی شکل میں نکالا گیا۔

اب عوام نے اگلے انتخابات میں ہی کچھ کرنا ہے، اگر موقع مل سکا تو۔
اب آپ ہمت کیجیے، ریاست مدینہ بنانے کے خواب کو تعبیر دیجیے، پاکستان کے آئین میں اس سلسلے میں بہت راہنمائی موجود ہے، مزید رہبری کے لیے غیرسیاسی علماء وماہرین بھی آپ کو آسانی سے دستیاب ہوسکتے ہیں، ویسے بھی بقول آپ کے وزیراطلاعات کے عدلیہ اور فوج آپ کے پیچھے ہیں، پھر دیر کس بات کی ہے حضور، بنادیں ناں ریاست مدینہ!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :