آصف علی زرداری کی گرفتاری،پیپلزپارٹی کا بڑا امتحان

بدھ 12 جون 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے ایک بڑا امتحان یہ ہوگا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد وہ کتنی شدت کے ساتھ اپنی اسٹریٹ پاور دکھا سکتی ہے ۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وسائل کی بھی کمی نہیں ، صوبائی حکومت کی سرپرستی میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی اور اندرون سندھ کئی جلسے کیے ، لیکن ان میں متاثر کن یا حیران کن کارکردگی دکھائی نہیں دی۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ کے بنچ جو جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل تھا، مسترد کردی گئی۔ 29 جعلی اکاؤنٹس جو یوبی ایل ، اسلامک بینک اور سمٹ بینک سے پکڑے گئے ، ایک اندازے کے مطابق 35ارب کی رقم کی منی لانڈرنگ ہوئی۔

(جاری ہے)

نیب کے مطابق ایک اکاونٹ کی تحقیقات مکمل ہوئی ہیں جس سے 4 ارب روپے کی نقل و حمل ہوئی باقی 28 اکاونٹس کی تحقیقات مکمل نہیں ہوسکی۔

نیب کی ٹیم تحقیقات کا کام بڑی سست روی سے کررہی ہے بینکنگ کا تمام کام ڈیجیٹل ہونے کے باوجود سست روی سمجھ سے بالاتر ہے۔ احتساب عدالت نے ابھی اس کے لیے حتمی تاریخ کا تعین نہیں کیا کہ تحقیقات کب تک مکمل کرنی چاہیے۔ 
سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد احتجاجی تحریک کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کریں گے، ان کی قیادت کا ایک بڑا امتحان ہوگا، ہوسکتا ہے کہ پی پی پی احتجاج کیلئے صرف اور صرف پارلیمنٹ کا فلور ہی استعمال کرے کیونکہ عوام کا سڑکوں پر آنا دشوار دکھائی دیتا ہے ۔

اسٹریٹ پاور شو کیلئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی مولانا فضل الرحمن سے امیدیں وابستہ کریں گی کیونکہ ان کے پاس مدارس سے طلباء کو جلسوں اور ریلی میں لانا مشکل نہیں۔ لیکن مولانا کی خدمات فی سبیل الله ہرگز نہیں ہیں۔ 
وزیراعظم پاکستان عمران خان کا مختصر پیغام جو ٹی وی پر نشر ہوا اور اس میں ایک اپیل اور ایک دھمکی تھی۔ اپیل کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانی عوام سے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں ظاہر کریں۔ بے نامی اکاونٹس کو سامنے لائیں اور ٹیکس ادا کریں ، یہ ملک اور قوم کیلئے بہتر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا کہ آج حکومت کے پاس وہ معلومات ہیں جو اس سے پہلے کسی حکومت کے پاس نہیں تھیں ،گویا اگر بے نامی جائیدادیں سامنے لانے میں لوگوں نے تامل کا مظاہرہ کیا تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔

لیکن وزیراعظم! آپ نے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں دیا۔ جبکہ ان کے پاس دولت کے انبار لگے ہیں۔ کئی سرکاری ملازم ارب پتی ہیں۔
 پولیس، انکم ٹیکس، کسٹم جیسے محکموں میں کرپشن کا سونامی موجود ہے۔ اس وقت بزنس کمیونٹی کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ بہتر یہی ہے کہ سرکاری اداروں کے لوگوں کو بھی ایمنسٹی اسکیم کا حصہ بنایا جائے۔

ایسے سیاستدانوں جن کا کوئی کیس احتساب عدالت میں نہیں ان کو بھی اس سے استفادہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ 
وفاقی بجٹ کے اعلان سے پہلے اقتصادی سروے جاری کیا گیا ہے، جس میں شرح نمو کا ہدف حاصل نہ ہونا تشویشناک ہے۔ پاکستان جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ آبادی کے بوجھ کے نیچے اس لیے دبا جارہا ہے کیونکہ آدھی آبادی غربت کے انڈکس سے بھی نیچے زندگی گذار رہی ہے۔

جبکہ غربت کی بڑی وجہ ہیومن ریسورس انڈکس میں پاکستان کا نمبر 150واں آیا ہے۔ گویا ہم عوام الناس کی تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ریاستی ذمہ داریاں بھی اچھے انداز سے پوری نہیں کررہے۔ وی وی آئی پی کلچر پر کروڑوں روپے برباد ہورہے ہیں۔ عوام کی حالت تبدیل ہونے کا عمل صدیوں میں مکمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ شارٹ کٹ سے بڑے نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے۔

طویل مدتی منصوبہ بندی ہی پاکستانی عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ 
وفاقی بجٹ میں ترقیاتی فنڈز کی مد میں خطیر رقم رکھنے کی امید ہے۔ ٹیکس بھی زیادہ لگائے جارہے ہیں، لیکن اصل مسئلہ بالواسطہ ٹیکسوں کے نظام کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس میں کرپشن بہت زیادہ ہورہی ہے۔ادھر ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی کو یہ کہا جارہا ہے کہ آپ 5500 ارب روپے ہر صورت جمع کرکے دیں تو مراعات یافتہ طبقہ سے زیادہ ٹیکس ، براہ راست ٹیکس سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان یقینا یہ جان چکے ہونگے کے پاکستان اتنے بڑے انتظامی ڈھانچے کو چلانے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ انتظامی اخراجات کم کرنے کے لیے انتظامی ڈھانچہ بھی کم کرنا ہوگا۔کراچی میں عیدالفطر کے موقع پر امن و امان مثالی تھا، یقینا سندھ پولیس اور سندھ رینجرز کے اقدامات کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا جانا چاہیے۔ انہی ایام میں قوم ایک زیرک سیاستدان سے محروم ہوئی ۔

جعفریہ الائنس کے چیئرمین علامہ عباس کمیلی کی موت نے شہر کو سوگوار کردیا۔
 شرافت اور صبر کی ایک عمدہ مثال علامہ کمیلی تھے۔ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے ایوان بالا (سینٹ) کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ سینٹ میں ان کا کام مثالی رہا، جمیل الدین عالی کی طرح انہوں نے کراچی کے عظیم تر مفاد میں اگرچہ ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سیاسی جدوجہد میں حصہ لیا لیکن بانی ایم کیو ایم کے شدت پسندانہ بیانات کی کبھی حمایت نہیں کی۔

ان کے ساتھ مکمل طور پر متفق نہیں تھے۔
کراچی کے بیشتر خاندانوں کی طرح انہوں نے شہر کے امن کی خاطر اپنے بیٹے کی موت کے غم کو بھی صبر و استقامت سے برداشت کیا۔ علامہ علی اکبر کمیلی کو 2014میں 42برس کی عمر میں ضلع وسطی عزیز آباد میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ علامہ عباس کمیلی جواں سال بیٹے کی موت پر غم کی تصویر بن گئے۔ ذیابیطس کا عارضہ بھی لاحق تھا، علامہ عباس کمیلی کی سیاسی اور سماجی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

آپ فلسطین فا ؤنڈیشن سے بھی وابستہ رہے، فلسطین اور کشمیر کے مظلومین کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ بالاخر چند دن کی علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے، شہر کراچی ایک باعمل عالم سے محروم ہوگیا۔ 
پاکستان تحریک انصاف کراچی نے ممکنہ سیاسی کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ حکومت کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کراچی کے مسائل خصوصاً پانی کے مسئلہ پر پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک شروع کردی گئی ہے، اس حوالے سے ایک ریلی بھی نکالی گئی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی بھی پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی۔ پی پی پی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ ہم عدالتوں کے ذریعے سے ہی ریلیف لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
موسم کی شدت میں اضافہ، سیاسی شدت کی طرح زیادہ ہوگا۔ بحیرہ عرب میں سمندری طوفان کا خطرہ ہے، اگر چہ یہ کراچی کے ساحلوں سے بہت دور سے گزرے گا لیکن موسم کا متاثر ہونا یقینی ہے، گرمی اور حبس کی شدت دیکھنے میں آئیگی۔

کراچی پہلے سے ہیٹ ویو کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی میں کمی، کراچی کے شہریوں کیلئے مسائل میں اضافہ کردیتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے شہری دربدر ہوتے ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کے احیاء کے لیے سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن قریب ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ سرکلر ریلوے کو کون چلاتا ہے۔ ہم پہلے بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ لوکل ٹرانسپورٹ ، ریلوے ہو یا میٹرو، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے حوالے کرنی چاہیے۔

اس سے بہتر اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی میں پاکستان تحریک انصاف کو کے ایم سی کو ہر لحاظ سے سپورٹ کرتے ہوئے شہری ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ عوامی مسائل پر سیاست بازی سے عوام کی زندگی پہلے ہی اجیرن ہوچکی ہے۔ 
نیب کی طرف سے اراکین اسمبلی کی گرفتاری کے نتیجے میں پروڈکشن آرڈر کا ہتیھار استعمال کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس کا پہلے بھی بھرپور استعمال کیا ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کیلئے سندھ اسمبلی کے اجلاس کو ریکارڈ دنوں تک چلایا گیا ۔اسی طرح شرجیل انعام میمن بھی پروڈکشن آرڈر کے ذریعے ایوان میں بلائے جاتے ہیں۔ یہ سہولت خواجہ سعد رفیق اور میاں شہباز شریف کیلئے بھی کارگر ثابت ہوئی۔
اب آصف علی زرداری کے لئے بھی پروڈکشن آرڈر کا ہتھیار بھی استعمال ہوگا اور ان کو ایوان میں لایا جائے گا۔

بہرحال سیاسی ماحول میں شدت آرہی ہے۔ سابق صدر کی گرفتاری سے اپوزیشن کی ڈرائیونگ سیٹ پیپلز پارٹی کے پاس آگئی ہے۔ مسلم لیگ ن جو عید کے بعد احتجاجی تحریک شروع کرنے جارہی تھی اور میاں شہباز شریف، حمزہ شریف اور مریم نواز نے اسے قیادت کرنی تھی، اب متحدہ اپوزیشن میں پیپلز پارٹی کا احتجاج اولین درجہ حاصل کرلے گا۔ 
تحریک انصاف کا بھی امتحان ہوگا کہ سندھ کی وہ صوبائی حکومت کو کس قدر مشکل سے دوچار کرتے ہیں۔ سندھ اسمبلی یا پھر اسٹریٹ پاور میں سے کس میدان کا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں اطراف کی سیاسی قیادت کیلئے چیلنج ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :