پی ٹی آئی اورپیپلزپارٹی کے معاملات طے ہونے کی بازگشت

بدھ 3 جولائی 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ضمانت کیلئے دائر کی گئی سات درخواستیں واپس لینے کے بعد پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ معاملات طے ہونے کی خبروں کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی نے جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ حکومت مخالف تحریک چلانے کی بھی حمایت نہیں کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے پاس سینیٹ (ایوان بالا) میں مستحکم پوزیشن تُرپ کا پتہ ہے جسے انہوں نے بروقت کھیلا اور چیئرمین ایوان بالا ان کی عیادت کے لئے پہنچ گئے ، اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو آل پارٹیز کانفرنس اور حکومت مخالف تحریک کے ہوَّا کو بھی تحلیل کرنا تھا۔

اس لیے تمام کام بیک وقت ہوتے نظر آئے۔ اگر چہ شرجیل انعام میمن کی ضمانت منطور ہوئی، لیکن اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی گئی، شہر قائد میں یہ خبر بھی زیرگردش ہے کہ عنقریب پیپلز پارٹی کو مزید خوش خبریاں ملنے والی ہیں، ڈاکٹر عاصم حسین پر بھی مشکلات مزید کم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ۔

(جاری ہے)


یہ سوال پھر سر اٹھائے گا کہ جس احتساب عمل پر کروڑوں روپے عوام کی ٹیکس انکم سے لگائے گئے ہیں ، کیا رائیگاں جائیں گے۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کا شور پورے ملک میں سنائی دیا، آخر اس کا انجام کیا ہوگا۔
پیپلز پارٹی نے حفظ ماتقدم کے طور پر آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی کی تین قائمہ کمیٹیوں میں رکنیت دے دی ہے، ان کمیٹیوں کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کے پاس ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق یہ سارا عمل پروڈکشن آرڈر کے حصول کیلئے کیا گیا ہے۔ کیونکہ قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بھی پروڈکشن آرڈر جاری کرسکتا ہے۔

میاں شہباز شریف کے لیے بھی مسلم لیگ ن نے ایسی سہولت پیدا کی ہے۔ صوبائی اسمبلی سندھ میں شرجیل انعام میمن کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے لیے انہیں بھی قائمہ کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تھا۔ یوں اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن نے ایسی سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔ ماضی میں سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم حقیقی کے ممبر کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

اس وقت ایم کیو ایم حق پرست اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور استعمال کرتی تھی۔ 2002 سے 2007 تک حقیقی کے نمائندے مشکل ترین وقت دیکھا لیکن اب ایک مضبوط اپوزیشن مجبور نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں قربتیں بڑھ گئیں تو متحدہ اپوزیشن مزید کمزور ہوجائے گی۔ سب سے ز یادہ دھچکا مولانا فضل الرحمن کو لگے گا، مسلم لیگ ن یہ چاہا رہی تھی کہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے متحدہ اپوزیشن کا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے، لیکن ہر پارٹی اور ہر سیاستدان کے اپنے اپنے مفادات ہیں، کوئی کسی کو فی سبیل الله فائدے دینے کی نیت سے سیاست نہیں کررہا، ہر کوئی اپنے ایجنڈے اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے حمایت اور مخالفت کرتا ہے، ماضی میں کسی فوجی حکمران کے خلاف متحدہ اپوزیشن مؤثر دکھائی دیتی تھی اور اسے متحد کرنے کا سہرا بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر الله خان کو جاتا تھا جو اکثر اپنے حقّے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ”میں آگ اور پانی کو اکٹھا کرلیتا ہوں“۔

اس سے ان کی مراد علامتی طور پر پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی جانب بھی ہوتی تھی، مولانا فضل الرحمن ، نوابزادہ نصر الله نہیں بن سکتے۔
پیپلز پارٹی کیلئے اگر اچھا وقت قریب ہے تو ضروری نہیں کہ چند اہم افراد کی گرفتاریاں رُک جائیں، ممکن ہے کہ مزید گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں، اس دوران سندھ اسمبلی نے نئے مالی سال کا بجٹ منظور کرلیا ہے۔

اپوزیشن زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی، سندھ حکومت کی پوزیشن اسمبلی میں خاصی مضبوط ہے، تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو مسلسل ہدف تنقید بنارہے ہیں۔ جس میں کراچی میں پانی کی شدید قلت، سندھ میں غربت اور تعلیم وصحت کے مسائل قابل ذکر ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت شہر کراچی میں پانی کی فراہمی میں ناکام ہے، لوگ مہنگے داموں ٹینکرز خرید رہے ہیں، جس میں بااثر افراد کے مالی فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پانی منشیات کی طرح فروخت ہورہا ہے۔ واٹر بورڈ کے چیئرمین بے اختیار نظر آتے ہیں اور بااختیار وزیر سعید غنی بھی اس سلسلے میں بے اثر دکھائی دیتے ہیں،شہر کراچی کے عوام رمضان المبارک سے لے کر اب تک پانی کی خریداری میں بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔
کراچی کے مسائل کے حوالے سے جماعت اسلامی نے سہراب گوٹھ سے مزار قائد تک ”کراچی عوامی مارچ “ کا انعقاد کیا جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

اس موقع پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنے خطاب میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ہدف تنقید بنایا ، ان کا کہنا تھا کہ ایک دہائی سے صوبہ سندھ میں حکومت کرنے والی جماعتیں عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک طویل جدوجہد ہے جو مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔
سندھ حکومت نے نیا پولیس ایکٹ نافذ کردیا ہے۔

اعلیٰ پولیس افسران کے تقرر و تبادلے کیلئے وزیراعلیٰ اور آئی جی میں مشاورت ہوگی۔ حکومت کو سیفٹی کمیشن بھی بنانا ہوگا۔ ضلعی سطح پر بھی کمیشن بنے گا، دیکھنا یہ ہے کہ اس نئے نظام سے پولیس کی کارکردگی کس طرح بہتر ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت تمام صوبے سے زیادہ کرپٹ اور غیرفعال ہے۔ اگر پولیس عوام کو انصاف دلانے میں معاون ثابت ہوتی ہے تو عوام کے لیے ایک بڑا ریلیف ہوگا، جب تک اس نئے ایکٹ کے فوائد اور نقصانات سامنے نہیں آتے، اس وقت تک حکومت سندھ اور محکمہ پولیس کو وقت دیا جانا چاہیے۔

اگر چہ محکمہ پولیس کا ریکارڈ اس لحاظ سے خراب ہے کہ یہ ادارہ سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ہے اور اس میں سیاسی مداخلت زیادہ ہوتی ہے، پولیس کلچر کی تبدیلی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
18جولائی کو گھوٹکی میں ہونے والی ضمنی الیکشن کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے ، سندھ کے سینئر وزیر ناصر حسین شاہ نے جن کے پاس کئی وزارتوں کے قلمدان تھے، انہوں نے اچانک اپنا استعفیٰ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کردیا ہے، ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ وہ گھوٹکی کی انتخابی مہم چلانا چاہتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ناصر حسین شاہ کے استعفیٰ کی ٹائمنگ انتہائی اہم ہے، ان کا نام سندھ کے آئندہ وزیراعلیٰ کے طور پر بھی لیا جارہا تھا ، ان کے اچانک استعفیٰ نے خود پیپلز پارٹی کے حلقوں کو بھی حیران کردیا ہے، دیکھنا ہوگا کہ ان کے استعفیٰ کی وہی وجوہات ہیں یا پس پردہ کوئی اور کہانی ہے ۔
قومی معاشی نظام کو دھچکے پر دھچکے جاری ہیں، کراچی کی مارکیٹوں میں خوف و ہراس کا عالم ہے، ایمنسٹی اسکیم میں تین دن کی توسیع کردی گئی ہے ۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ خریدار اور اسٹاک ایکسچینج اور رئیل اسٹیٹ سے رقم نکلوا کر ڈالر اور سونے کی خریداری میں دلچسپی لے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈالر اور سونے کے نرخ دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ عالمی منڈی میں بھی سونے کے نرخ میں اضافہ ہوا ہے۔ تیل کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں، لیکن پاکستان میں ”Panic Trading“ نے صورتحال بہت خراب کردی ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے کاروباری طبقے کو مشکل حالات سے دوچار کرنے کی خبریں مزید خوف پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، جس سے کراچی کی مارکیٹوں میں خریداری 50 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ سیاسی کشیدگی نے بھی اس میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، حالات پر قابو پانا حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :