
نعیم الحق ،سیاسی وفاداری کی عمدہ مثال
ہفتہ 22 فروری 2020

مبشر میر
نعیم الحق مرحوم کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ ان کا علاج شوکت خانم کینسر ہسپتال میں اس لیے نہیں ہوسکا تھا کیونکہ ان کی بیماری کی نوعیت بہت مہلک ہوچکی تھی اور علاج کی صورت میں صحتیابی کے امکانات محدودبتائے گئے تھے۔
(جاری ہے)
ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے جوں کے توں ہیں، اسد عمر کے ساتھ ڈاکٹر مقبول صدیقی کی ملاقات اور اس میں وزیر اعظم عمران خان کا شامل ہوجانا بھی صورتحال کو نارمل نہیں بنا سکا۔ ڈاکٹر مقبول صدیقی بہت زیادہ دھیمے انداز سے چلنے کے عادی ہیں، ابھی تک انہوں نے وہی انداز اپنایا ہوا ہے، اپنے انٹرویوز اور بیانات میں انہوں نے یہ انکشاف ضرور کیا ہے کہ انہوں نے خود یا پارٹی نے انہیں وفاقی وزیربنانے کی حواہش نہیں کی تھی، بلکہ کابینہ میں شمولیت کی اطلاع پر انہیں حیرت ہوئی تھی۔ اپنی پوزیشن پر برقرار رہتے ہوئے وہ پارٹی میں اپنی پوزیشن بہتر رکھنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں، لیکن حتمی فیصلے کے لیے ”انتظار کریں“ کی سلائید دکھائی دیتی ہے۔
تحریک انصاف ابھی تک کراچی کا مقدمہ صحیح انداز سے لڑنے کی اہل دکھائی نہیں دے رہی، اس لیے ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ اس کے لئے اپنی پوزیشن بحال کرنے کا سنہری موقع ہے، بلدیاتی الیکشن تحریک انصاف اور ایم کیو ایم دونوں کیلئے ایک چیلنج ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کے متاثرین، جن کی عمارات سپریم کورٹ کے حکم سے مسمار کی جارہی ہیں، اس حوالے سے ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی وجود میں آگئی ہے، اس کیلئے ایک آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں تحریک انصاف کے فردوس شمیم نقوی بھی شریک تھے۔لیاری ایکسپریس کے راستے میں آنے والی بستیوں کے مکینوں کے لیے پرویز مشرف کالونی بنائی گئی تھی، لیکن سرکلر ریلوے کے متاثرین کیلئے کوئی جگہ مخصوص نہیں کی گئی،یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے کہ وہ اس حوالے سے متاثرین کی بحالی کیلئے کسی جگہ کا اعلان کریں، کیونکہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے ساتھ ساتھ بے گھر افراد کیلئے رہائش کا بندوبست بھی ضروری ہے۔
اندرون سندھ سے آنے والی مختلف خبروں کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر سرداری اور جاگیرداری نظام زیربحث ہے، اعلیٰ عدلیہ کا اس حوالے سے ایک فیصلہ موجود ہے کہ جرگہ سسٹم غیرقانونی ہے، ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد صرف سپریم کورٹ ہی اس پرنظرثانی کرسکتی ہے کہ کیا کیا جائے ؟ کیا اس سسٹم سے نقائص ختم کرکے اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے ؟ یا مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے حکومتی رٹ استعمال کی جائے۔
سندھ پولیس اور بیوروکریسی نے اگرچہ اس مسئلہ پر متعدد مرتبہ سیمینارز کروائے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں کبھی بھی گذارشات پر عمل نہیں ہوا، سندھ اسمبلی کو بھی چاہیے کہ ان حالات میں اس پر بحث کرے، اس کے نقائص اور اگر فوائد ہیں تو سامنے لائے جائیں اور حتمی رائے قائم کرنے کی کوشش کی جائے، سول سوسائٹی اس پر متعدد بار اپنی رائے دے چکی ہے، سندھ میں تعلیمی پسماندگی اور مجموعی طور پر کمزور ریاستی نظام کی وجہ سے یہ نظام ابھی تک کسی نہ کسی مشکل میں موجود ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق بہت سے اہم سیاسی راہنما ان جرگوں کی سربراہی کرتے ہیں۔ ایک سابق وزیر جن کا تعلق بلوچستان سے ہے وہ بھی کئی مرتبہ ثالثی سربراہ کی حیثیت سے کئی فیصلے کرچکے ہیں۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل بغیر اخراجات اور تاخیر کے حل ہوجاتے ہیں۔ ان کی نظر میں ریاستی عدالتی نظام وقت اور پیسہ کا ضیاع ہے۔ اس لیے وہ جرگہ یا ثالثی یا مصالحتی نظام کے تحت سیاسی طور پر مضبوط خاندانوں سے رابطہ کرکے اپنا فیصلہ کرواتے ہیں۔ اس ایشوز پر بھرپور بحث و مباحثے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض صورتوں میں ان کے فیصلے بہت زیادہ ہدف تنقید بنتے ہیں۔ خصوصاً کاروکاری کے حوالے سے کیے گئے فیصلے غیر مقبول ہی تصور کیے جاتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے میڈیا کنٹرول پالیسی کے نئے قوانین نافذ کرنے کے اعلان کے بعد کراچی کے میڈیا کے حلقوں میں بھی بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا عوام کی آواز بنتا جارہا ہے، اس پر فقط حکومت پر ہی تنقید نہیں ہوتی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی زد میں آتے ہیں، لیکن وزیراعظم پاکستان عمران خان کی گذشتہ تقریر سے واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے حوالے اور ان کی حکومت کی کارکردگی پر کی جانے والی تنقید سے وہ سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کی سوچ ان کے ہاں بھی شدومد سے ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن صحافتی حلقوں اور تنظیموں میں اس پر بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔
اقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک نجی محفل میں اظہار کیا کہ قوم کو تھوڑا سا اور صبر کرنا پڑے گا اس کے بعد صورتحال بہت بہتر ہوجائے گی۔ ان کا خیال تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کے انڈکس پر نظر کم رکھی جائے۔ دیکھا جائے تو مہنگائی کچھ اشیاء پر کم ہوئی ہیں لیکن مافیا نے اپنی توجہ پیاز اور ادرک پر جمالی ہے، دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مبشر میر کے کالمز
-
ہمتِ مرداں ،مددِ خدا
جمعہ 5 فروری 2021
-
دل دہلادینے والا مچھ واقعہ
پیر 11 جنوری 2021
-
کورونا وبا کی دوسری لہر میں شدت
جمعہ 27 نومبر 2020
-
(ن لیگ) کا فوج مخالف بیانیہ
جمعہ 6 نومبر 2020
-
کراچی میں اپوزیشن کا جلسہ
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
جزائر پر وفاق اور سندھ کا تنازعہ
جمعہ 9 اکتوبر 2020
-
اے پی سی میں شہری سندھ کی نمائندگی نہ ہوسکی
جمعرات 24 ستمبر 2020
-
وزیراعظم کے دورہ کراچی کی گونج
جمعرات 10 ستمبر 2020
مبشر میر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.