مینار پاکستان کا جلسہ۔۔۔"یہ چراغ بجھ رہے ہیں"

پیر 14 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

طارق عزیز مرحوم نے اپنی کتاب "داستان"میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ میں بھٹو صاحب کا سیکرٹری تھا، ایک مرتبہ بھٹو صاحب نے مرحوم شاہ نواز بھٹو کو کہا کہ شاہ نواز تم نے آج تیار ھو کر جلسے میں چلنا ہے اور اسٹیج پر بیٹھنا ھے، شاہ نواز بھٹو نے ایسا ہی کیا، بھٹو صاحب جلسے سے خطاب کر رہے تھے، اچانک جوش میں مخاطب ھوئے، یہ نیچے جو عوام بیٹھے ہیں، یہ بھی بھٹو ہیں، میں بھٹو ، اچانک شاہ نواز بھٹو کی طرف مڑے، شاہ نواز تم اسٹیج پر کیوں بیٹھے ہو، جاؤ میرے عوام کے ساتھ زمین پر بیٹھو، تمہیں جرات کیسے ھوئی کہ عوام کو چھوڑ کر یہاں بیٹھے ھو" طارق عزیز کہتے ہیں میں حیران،پیشمان دیکھتا رہ گیا، لاھور مینار پاکستان گراؤنڈ میں گیارہ جماعتوں کا جلسہ ھوا، خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے بھی اسٹیج سے اتر کر  اسی طرح کا اعلان کیا اور عوام کے ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کیا، ن لیگ کے لاھور سے تیرہ ایم این ایز، اور  ایم پی ایز مینار پاکستان کا گروانڈ چھوٹا کر کے بھی نہ بھر سکے کیا مسلم لیگ ن کے لیے یہ سیاسی موت نہیں ہے؟، کسی قسم کی حکومتی اور انتظامی رکاوٹ نہ  ہونے کے باوجود یہ حالت تھی تو رکاوٹیں عبور کر کے کتنے لوگ اسلام آباد پہنچیں گے؟، پشاور سے پورے پنجاب تک سب کارکنان لائے گئے، مگر صورتحال مایوس کن تھی، شیخ رشید صاحب کہتے ہیں"تاریخ میں اتنا ناکام جلسہ مینار پاکستان گراؤنڈ میں نہیں دیکھا"چلیں ان سب باتوں کو چھوڑ کر 2011ء کے تحریک انصاف کے جلسے کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو بھی یہ جلسہ اس کے عشر عشیر بھی نہیں تھا، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ کرپشن بچاؤ، کورونا پھیلاؤ مہم اپوزیشن نے شروع کر رکھی ہے، تیسری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ھے کہ حکومت اس شوہر کی طرح ھوتی ھے جہاں ایک طرف بیوی اور دوسری طرف ماں، وہ کس کو روکے، کیا کرے، فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے، لاھور کا جلسہ فائنل راؤنڈ ھوگا، آج ن لیگ کے حامی لوگ بھی جلسے کو جلسہ نہ کہہ سکے، اپوزیشن کے حامی بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ جلسہ نہ ھوسکا۔

(جاری ہے)

ایک لمحے کے لیے سب کچھ بھول کر بھی جلسے کی حمایت کی جائے تو لاھور  سےمسلم لیگ  ن کے کارکن زیادہ نہیں نکل سکے جو نکلے, وہ جاتے رہے،  جس دن شہباز شریف صاحب، میاں نواز شریف کو لینے ائیرپورٹ گئے تھے وہ منظر یاد ھو گا کتنے کارکن نکلے تھے ،  لوگوں کی کم تعداد دیکھ کرفضل الرحمن صاحب کا چہرا بجھ گیا،  سیاسی شو تو چلتا ہے چلتا رہے گا، استعفے آئیں گے کہ نہیں یہ بات سب سے اہم ھے، اسپیکر کے پاس آئیں گے, ممکن نہیں لگتا، البتہ سوشل میڈیا پر، ایک کے بعد دوسری جیب میں آتے جاتے رہیں گے۔

مریم نواز نے کہا کہ 2011ء کا جلسہ کروایا گیا تھا، کیا کوئی جلسہ کروا سکتا ہے اس کا اندازہ "چارج " آڈین سے لگایا جا سکتا ہے ، جلسے میں لوگ لائے جاتے ہیں 2011 میں لوگ خود بلانے پر آئے تھے،  یہاں لایا گیا ہے پھر بھی کھسکتے رہے، 2011،ء کا جلسہ ھو یا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کاجلسہ دونوں کے عوام  اورکارکن چارج تھے، یہاں چالیس ھزار لوگ تھے یا چھ ھزار  مگرچند لوگ ہی ریسپانس دے رہے تھے حالانکہ میاں صاحب نے "زندہ دلان لاھور"کا پیغام بھی بھیجا، پھر بھی بات نہیں بنی۔

مریم نواز نے اس مرتبہ" آر  یا پار "کا دعویٰ کیا تھا مگر آر پار نہیں ھو سکا، بلاول بھٹو نے" سلیکٹرز اور سلیکیڈڈ " مخاطب کرنے کی زور لگا کر کوشش کی، اور کہا کہ ھم اسلام آباد آرہے ہیں، آئیں گے تو بھی 126 دن کوئی نہیں ٹھہرے گا ، جناب استعفے لے کر آئیں، تاکہ کچھ تو سچ ھو بلکہ سندھ اسمبلی کے استعفے پہلے ہونے چاہئیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ھو جائےگا  پہلے سندھ اسمبلی کے استعفے آئیں اور پھر لانگ مارچ ھو اور قومی اسمبلی کے استعفے پیش ھوں، اسی بنیاد پر سچائی اچھل کر بولے گی ، مولانا فضل الرحمٰن صاحب تو حسد کی وجہ سے کچھ بھی کروا سکتے ہیں، یہ بات خطرناک ہے، تاریخ گواہ ہے حسد نے معاشرے کو شدید نقصان پہنچایا، سیاست کا حق سب کو ھے، مریم نواز باھر جانے کے لئے زور لگاتے لگاتے سیاست میں کود ہی گئیں، اب تو بلاول اور مریم کا  کرزمہ یا کوئی"کرشمہ" ہی کوئی تبدیلی دکھائے، تیور سوڈا واٹر کی بوتل کی طرح ہیں اب ڈھکن کھل چکا ہے شاید زور ختم ہو گیا ہے، کہ" آر یا پار" کا جوش کہیں ٹھنڈا پڑ گیا۔

اس مرتبہ مسلسل تنقید کی وجہ سے مہنگائی، آٹا چینی،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر زور زیادہ رہا یہ بھی ایک تبدیلی ھے مریم نواز اب 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش جائیں گی وہاں پیپلز پارٹی کا بڑا شو ھو گا، بلاول نے زور دار انٹری پنجاب میں بھی دے دی، اب گڑھی خدا بخش بلا کر ، مسلم لیگ کو زرداری صاحب آم کی طرح چوس کر پھینک دینے کے درپے ہیں ، کہاں ھیں جاوید ہاشمی صاحب جو زرداری صاحب سے دور رہنے کا میاں صاحب کو مشورہ دے رہے تھے، آج دیکھ لیں وہی ھونے جا رہا ہے ، روک سکو تو روک لو ،اب  اپوزیشن جماعتوں کا سخت نفسیاتی اور اعصابی امتحان شروع ہو گا، اور وہ ھے" استعفیٰ یا استعفے" استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کا اور استعفے اپوزیشن  کے، یہ دونوں نہ ھوئے تو 2023ءکے الیکشن دو تہائی کی اکثریت سے عمران خان باآسانی جیت سکتے ہیں۔

ویسے کورونا کا انتظار کر لیا جاتا تو عزت اور لوگوں کی جان بخشی ہوتی اب عوام کو نقصان اور سیاسی جماعتوں کو کورونا ھوسکتا ھے۔امتحان ہی امتحان ہیں، صاحبو!کامیابی کس کے ھاتھ آتی ہے آج لاھور نے واقعی فیصلہ دے دیا ہے۔ کہ ھم ابھی حکومت کو وقت دینا چاہتے ہیں، ایک زمانہ تھا اینٹی بھٹو ووٹ کی بات تھی، پھر انٹی نواز ووٹ آیا، اب انٹی عمران ووٹ ھو گا، وہ وہی حاصل کرے گا جو نوجوانوں کو جیتے گا، جو بیانیے سے کم کردار سے بنے گا، اگر بالفرض کسی کو فائدہ ھوا تو وہ بلاول بھٹو ھوں گے۔چونکہ لاھور نے فیصلہ سنا دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :