حکومت جمہوری رویہ اپنائے

پیر 21 اکتوبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

جمہوری معاشرے میں سیاسی اختلاف فطری ہے جمہور کی رائے اور جمہور کی حکمرانی ہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ جمہوری ادوار میں پاکستان میں سیاسی میدان ہمیشہ ہی سجا رہا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں نت نئے تجربات کا ہونا روایتی بات ہے۔جب ہم نے ہوش سنبھالا دو ہی جماعتیں بر سر پیکار تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو لبرل بائیں بازو کی پارٹی تصور ہوتی تھی دوسری مسلم لیگ جو اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی سمجھی جاتی تھی۔

مختصراً کہیں تو پیپلز پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ دیگر جماعتیں اسٹیببلشمنٹ کی حامی کردارادا کرتیں۔ بحالی جمہوریت کے بعد 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو بر سر اقتدار آئیں تو 18ماہ بعد ہی ان کی حکومت کو رخصت کر دیا گیا۔ پھر ایسا میوزیکل چئیر کا سلسلہ شروع ہوا کہ بات 12اکتوبر 1999ء پر جا کر ختم ہوئی۔

(جاری ہے)

جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔رواں صدی کے آغاز سے ملکی سیاست میں تیسری سیاسی قوت کیلئے کوششیں کی گئیں، ق لیگ بطور جماعت حکومت کا حصہ رہی مگر عوامی حمایت حاصل نہ کر سکی۔

مشرف کے رخصت ہوتے ہی ایک دفعہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز بالترتیب حکومت بنانے میں کامیاب رہیں۔ اس عشرہ میں تیسری قوت کے طور پر تحریک انصاف مضبوط ہوئی اور عمران خان لیڈر بن کر سامنے آئے۔ملک میں ہونے والے سیاسی تجر بات کے برخلاف عمران خان کو بطور تیسری سیاسی طاقت بھر پور عوامی حمایت بھی حاصل ہوئی۔ 
عمران خان کے سیاسی طرز عمل سے اختلاف کا مطلب کرپشن کی حمایت، بوسیدہ نظا م اور ڈلیور نہ کرنے والی حکومتوں کے حمایتی کے طور پر لیا جانے لگا۔

پی ٹی آئی کا ووٹر اپنی لیڈر شپ کی طرح خودکو درست اور مخالفین کو مکمل طور پر غلط سمجھتے ہیں۔ آصف علی زردار ی کے سیاسی قد کاٹھ کے اضافہ میں مفاہمت کی سیاست کا بڑا عمل دخل ہے مگر اس طرز سیاست سے و ہ پنجاب میں عوامی حمایت سے محروم ہو گئے۔عمران خان نے سیاسی مخالفین پر کھل کر تنقید کی، اختلاف ہی نہیں تذلیل کی حد تک مخالفین پر جملہ بازی کی۔

پی ٹی آئی اور سیاسی مخالفین میں گفت و شنید اور اتفاق رائے کا ہونا دوسری کسی بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان اس طر ز عمل سے بہت مشکل ہو چکاہے۔ مذاکرات اور مفاہمت کو عمران خان نے ہی مک مکا قرار دیا۔ پی ٹی آئی کا ووٹر اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا کہ انکی سیاسی قیادت بھی غلط کر سکتی ہے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی مخالفین کی رائے کا احترام بھی ہوناچاہئے، عمران خان نے نعرے بیچے، ملک میں سرمایہ کاری سے لیکر ٹیکسوں کے حصول میں آسانی، کروڑوں نوکریاں، لاکھوں گھروں کی تعمیر کیسے کیسے سہانے خواب اس قوم کو دکھائے گئے جو ہنوزخواب ہی ہیں۔

ملک کی تمام سیاسی قیادت کرپٹ ہے جو حکومت کا حصہ نہیں اور جو پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے کرپشن کے الزام سے بری ہو گئے۔ یہ وہ فاشسٹ سوچ ہے جو کسی بھی جمہوری نظام کیلئے اچھی نہیں ہو سکتی۔
 الغرض تبدیلی سرکار کو آئے 14ماہ کا عرصہ ہو چکا کسی بھی شعبہ میں مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب ادارے کرتے اور لوٹی ہوئی دولت قو می خزانے میں واپس آتی تو عام آدمی بھی مطمئن ہوتا۔

سابق وزیر اعلی کے پی کے پر ویز خٹک، موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان، بابر اعوان، اعظم سواتی سمیت کئی عہدیداران پر مقدمات اور الزامات ہیں۔ انکوائریز بھی چل رہی ہیں مگر علیم خا ن کے علاوہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی گرفتاروں سے ایسا ماحول بنایا گیا کہ نیب کا کردار ہی متنازع ہو چکاہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف انٹرنیشنل پانامہ لیکس کی گرفت میں آئے مگر وہ سیاسی طور پر قوم کو پانا مہ، اقامہ کے چکر میں ڈال کر سزا یافتہ ہونے کے باوجو د سیاسی انتقام کا تاثر دینے میں کامیاب رہے۔ 
انتخابات کے نتائج پر اپوزیشن کے تحفظات، پکڑ دھکڑ کا ماحول، عام آدمی کی مشکلات میں دن بدن اضافہ اور سب سے بڑھ کر حکومت کا غیر سیاسی رویہ، ایسے میں سیاسی تحریک کے شروع ہونے کے امکانات روشن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اگر مان بھی لیا جائے کہ حکومت کو اپوزیشن کی تحریک سے کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی کسی احتجا ج سے۔۔ ہاں معیشت کیلئے کسی بھی طرح کی تحریک ضرور نقصان دہ ہوگی۔
حکومت کے ایک سال پورا ہونے پر مولانا فضل الرحمن نے کہا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ نے جعلی مینڈیٹ کے ذریعے موجودہ حکومت کو مسلط کیا۔ کوئی بیورو کریٹ یا جنرل ہمیں جمہوریت نہ سکھائے بلکہ جمہوریت کی تشریح سیاستدانوں نے ہی کرنی ہے۔

موجودہ حکومت جمہوری نہیں بلکہ غیر اعلانیہ مارشل لاء ہے۔سیاسی دانشمند ی کا تقاضہ تو یہ تھا حکومت اپوزیشن کو مطمئن کرتی مگر کپتان نے تو لڑائی ہی لڑنی ہے۔
 سیاسی مخالفین پر مقدمات ایک طرف انکی تذلیل اور جملہ بازی میں بھی پی ٹی آئی نے کوئی کمی نہ کی۔نواز شریف اور آصف علی زردار ی پابند سلاسل ہیں تو کیا ہوامولانا فضل الرحمن تو سیاست کرنے میں آزاد ہیں۔

وہ ایک کل وقتی سیاستدان ہیں اور سو سا ل پرانی مذہبی سیاسی جماعت کے قائد بھی ہیں۔ میرے نزدیک مولانا جمہوریت اور جمہوری نظام پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کی جانب سے 27اکتوبر کو آزادی مارچ کے اعلان کے بعد حکومت کی طرف سے سخت موقف سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر مولانا کی جماعت، انکے سیاسی نظریات کو متنازع اور نفرت کا نشانہ بنانے کیلئے مہم شروع کر دی گئی۔

پی ٹی آئی کی طرف سے مدارس کے بچوں کے استعمال کی بات کی گئی۔ دھرنے کیخلاف طاقت کے استعمال کی باتیں اور وزراء کے دعوے عام پاکستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی عمران خان کی قیادت میں مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے کیسے درست تھا اور آج کیسے درست نہیں۔
مولانا اپنے لائحہ عمل کا اعلان تو 31اکتوبر کو ہی کریں گے لیکن حکومت کے ایوانوں میں خاصی پریشانی دیکھنے کو نظر آ رہی ہے۔

ایک طرف حکومت نے احتجاج روکنے کیلئے پرویز خٹک کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی تو دوسری طرف وزیر اعظم نے لہجہ بھی مذاکرا ت والا اختیار نہیں کیا۔سیاسی حلقے یہ بات سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا احتجاج حکومت کیلئے درد سر تو بن سکتا ہے کیونکہ ایک بات واضح ہے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت کے خاتمہ کے نقطہ پر جمعیت علما اسلام سے متفق ہے۔

حکومت کے خلاف تحریک تو ضرور چلے گی۔ حکومت سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرے تو حالات کو سنبھال سکتی ہے،اس کے لیے حکمران جماعت کو حکومت کا کردار ادا کرنا ہو گا اور کنٹینر والی سیاست اور سیاسی گفتگو سے باہر نکلنا ہو گا۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے لاکھ اختلاف کریں ایک کریڈٹ دونوں پارٹیوں کو دینا پڑے گا کہ عمران خان کے 126دن کے دھرنا کے باوجود حکومت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔

آصف علی زرداری اور انکی پارٹی نے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا اور پارلیمنٹ کی مدد سے عمران خان کی احتجاجی تحریک کو ناکا م بنا دیا۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو تالے لگا دیے ہیں، سیاسی فیصلے سڑکو ں پر ہی ہونگے۔
تاجر برادری جو ملکی معیشت کا چہرہ ہوتی ہے انکا اضطراب سب کے سامنے ہے۔

کاروباری حلقے حکومتی پالیسیوں کو مسترد کر چکے ہیں، ملک گیر احتجاج کی باتیں ہو رہی ہیں۔سیاسی مخالفین طبل جنگ بجانے کو تیار ہیں اور عام آدمی پریشان ہے مگر حکمران طبقے کو زعم ہے کہ انکا لیڈر کرپٹ نہیں۔ ماضی میں کنٹینر دینے کا وعدہ کرنے والی پی ٹی آئی آج اپنے وزراء کے بیانات ہی دیکھ لے۔حکومت پریشان ہے مگر سیاسی انداز اختیار کرنے پر تیار نہیں۔

سیاسی احتجاج کو سیاسی طریقہ سے ہی روکا جا سکتا ہے، عمران خان کی شخصیت، کردار اور کرپشن کے الزامات پر ووٹ تو حاصل کر لئے اب نظام کو چلانے کیلئے سیاسی بصیرت ہی کی ضرورت ہے۔این آر او نہ دینے اور جیلوں میں ڈالنے کے اعلانات کو آصف علی زرداری نے ضمانت کی درخواست دائر نہ کر کے ہی ہوا میں اڑا دیا تھااب مولانا فضل الرحمن نئی صف بندی کے ذریعے حکومت کو للکار رہے ہیں۔فوراً سیاسی تبدیلی نہ آئے لیکن حکومت کیلئے خزاں کا موسم ہی طویل ہوگا عام آدمی بہار کا مزید انتظار نہیں کرے گا۔ تبدیلی نہ سہی،لیکن تبدیلی کی راہ ضرور متعین ہو جائے گی۔اب بھی حکومت نے جمہوری رویہ اختیار نہ کرتے ہوئے سنسر شپ، ریاستی مشینری پر کلی انحصار کیا تو معاملات مزید خراب ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :