Episode 38 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 38 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

مستقبل کا پاکستان
حالات دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو آپ ٹھیک نہیں کر سکتے اور ایک وہ جو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم کے حالات میں وہ ملکی، اور دنیاوی حالات شامل ہیں جن کے لیے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے مثلاً ملک میں امن و امان کا مسئلہ ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہے۔ آپ بجلی کا استعمال کم کر کے بچت کر سکتے ہیں مگر بجلی کی پیداوار نہیں بڑھا سکتے وغیرہ وغیرہ۔
مگر دوسری قسم کے حالات کی وہ ہے جو کہ آپ کے اختیار میں ہے۔ جس پر آپ کا عمل اثر کرتا ہے یعنی جس میں آپ حصہ دار ہیں، جس کو آپ ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت ملک میں میڈیا پر چند ایسے مسائل پر بے تحاشہ وقت اور پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے جن کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا سے مراد ہر قسم کا میڈیا ہے پرنٹ میڈیا بھی، الیکٹرونک میڈیا بھی، سوشل بھی وغیرہ وغیرہ۔

(جاری ہے)

مگر سب سے زیادہ ذمہ داری اٹھاتے ہوئے الیکٹرونک میڈیا نظر آتا ہے۔ جس میں ٹیلی ویژن کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
ٹیلی ویژن کی نشریات تمام Entertainment چینلز کی بشمول پرائیویٹ چینلز چند دن لگاتار دیکھ لیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ عوام کے سب سے بڑے مسائل (جو کہ نشریات دیکھ کر لگتے ہیں) جن کو حل کرنے کی ہر وقت سب کے سب کوشش کر رہے ہیں وہ مستقبل کی بے صبری، بے یقینی، جادو، ٹونہ، صحت اور موٹاپا ہیں۔
عوام الناس شادیوں کے لیے پریشان ہے ان کی شادیوں میں رکاوٹ ہے جب کہ میڈیا پر شادی شدہ لوگوں کی بھی شادیاں دوبارہ صرف تجدید یادداشت اور شوقِ شادی کی خاطر کروائی جاتی ہیں۔ اس سے خطرہ یہ ہے کہ شادی شدہ لوگوں میں بھی دوبارہ شادی کرنے کی امنگ پیدا ہو سکتی ہے اسی طرح رہا قوم کئی گنا مسائل کا شکار ہو جائے گی۔ بحرحال میڈیا Viewers کی شادیاں تو نہیں کروا سکتا مگر شادی میں حائل رکاوٹیں ہٹانے میں مدد کر سکتا ہے چاہے وہ جادو کی بدولت ہوں۔
حسن کی کمی یا موٹاپے کی وجہ سے ہوں۔ ان ساری کوششوں سے میڈیا یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ گزرے کل کو یاد کر کے وقت ضائع نہ کریں بلکہ اپنے آج کا استعمال کریں حسن کو بڑھانے کے لیے، جادو اور بُرے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اور موٹاپے سے جان چھڑانے کے لیے تاکہ آپ کا کل یعنی آپ کا مستقبل بہترین ہو۔ تاکہ غیر شادی شدہ کی شادی ہوجائے۔ جس کی شادی ہو چکی ہے اس کی شادی شدہ زندگی خوش گوار ہو جائے اور جس کا دل چاہے وہ کسی چینل پرآ کر جھوٹ موٹ کی شادی دوبارہ کر سکے۔
اصلی شادی دوبارہ کرنے سے بہتر ہے ایسی شادی (جھوٹ موٹ کی) کر لی جائے۔ آپ کا بھی دل بہل جائے گا چینل کا بھی ایک ہفتہ آسانی سے گزر جائے گا۔
میڈیا کی ان ساری کوششوں کے بعد مستقبل کے پاکستان اور کل کے جدید، مضبوط، صحت مند معاشرے کا جو نقشہ ابھرتا ہے وہ کیسا ہے؟ یہ جاننے کے لیے پہلے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ آج معاشرے میں کن چیزوں پر کس طرح اور کتنا زور، کس انداز سے دیا جا رہا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ موٹاپے کا ہے۔ سارا دن قوم کے موٹاپے کو کم کرنے کے لیے مختلف شعبوں کے لوگ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ کوئی Diet Plan بتاتا ہے، کوئی جسم کی Detoxification کرتا ہے۔ کوئی قہوے بتا رہا ہے پینے کے لیے۔ کوئی ان Soups کی کہانی بیان کر رہا ہے جن سے وزن کم ہو جاتا ہے۔ کوئی Herbalist جڑی بوٹیوں سے عوام کا وزن و چربی اتارنے میں مصروف ہے۔ سب کا ایک ہی سلوگن ہے۔
”سمارٹ بنیں۔“ ہر کوئی نئے ”گر“ اور نئے ”طریقے“ بتاتا ہے۔ ایک پروگرام کی بات کبھی کبھی دوسرے پروگرام کی بات سے بالکل الٹ ہو جاتی ہے۔ ایک Exercise کرنا سکھا رہا ہے۔ دوسرا Yoga Expert بیٹھے بیٹھے وزن کم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ کوئی حکیم صاحب صدیوں سے آزمودہ نسخوں سے قوم کو Slim بنا رہے ہیں تو کوئی جم جا کر مشینوں پر چڑھ کر چربی کو پسینہ بنانے کی تجویز دیتا ہے۔
جبکہ ایک حضرت یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مشینوں سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہڈیوں اور جوڑوں کی تکالیف ہوتی ہیں، جسم اور گوشت لٹک جاتا ہے اور ویسے بھی تمام عمر تو اتنی زیادہ مشنری پر نہیں گزاری جا سکتی اس لیے اپنے لائف سٹائل کو بدلیں۔ اسی اثناء میں ایک ماہرِ ذہن و سائنس یہ نوید سناتے ہیں کہ دن میں Exercise کرنے پر وقت ضائع نہ کریں بلکہ سوتے سوتے لا شعور کے ذریعے جسم کو پیغام دے کر اپنی Calories کو Burn کریں یعنی دن میں کھائیں رات کو سوئیں بھی اور چربی بھی پگھلائیں اور صبح سمارٹ حالت میں اٹھیں یعنی آپ سو رہے ہوں گے، جسم Exercise کر رہا ہو گا۔
یہ باکمال Two in one formula ہے۔ نہ ہی لذتِ خوراک کے بچھڑنے کا ڈر، نہ ہی خود پر جبر اور نہ ہی موٹاپا، ہر طرح سے وارے نیارے۔ ایک خاتون کچھ اس طرح مشورے دے رہی تھیں چائے نہ پئیں، نمک نہ کھائیں، چکنائی اور میٹھے سے پرہیز کریں۔ Carbohydrates نہ لیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا پانی کا استعمال کم کریں۔ وہیں موجود Host نے کہا نہیں ایسا ہرگز نہ کریں۔ اپنی پیشہ وارانہ تعلیم کے تحت میں اس چیز سے اختلاف کرتے ہوئے لوگوں کو منع کرتی ہوں اس بات پر عمل کرنے سے بلکہ پانی زیادہ پئیں۔
اتنا پئیں، فلاں وقت پئیں۔ اس کے فلاں فلاں فائدے اور اثرات ہیں۔ یہ تو صورت حال ہے۔ اب عوام بچاری کی جگہ رہ کر سوچیں کہ وہ کیا کرے؟ کس کی سنے؟ کس کی نہ سنے؟ کس پر عمل کرے؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کھانے کے Portions کم کر دیں، اور Number of Meals بڑھا دیں۔ جن لوگوں نے اس پر عمل کیا وہ کم کھاتے مگر پیٹ نہ بھرتا۔ ساتھ ہی دوسرے وقت کیا کھائیں گے؟ کب کھائیں گے؟ کی فکر شروع ہو جاتی۔
انتظار و اضطراب میں سارا دن گزرتا۔ سوائے کھانے، کھانے کی اشیاء کی منصوبہ بندی اور انتظام کرنے کے اور باقی وقت انتظار کرنے کے اور کچھ نہ سوجھتا تھا۔ تمام دن اسی میں مصروف رہتے اور کچھ کرنے کے لیے وقت ہی نہ بچتا۔ اگر وقت کبھی بچ بھی جاتا تو کچھ کرنے کو دل نہ چاہتا کیونکہ دماغ کو بھوک برداشت کرنے، خود پر جبر کرنے اور اگلے کھانے کے وقت کے آنے کا منتظر ہونے سے ہی فرصت نہ ہوتی۔
ایسے حالات میں انسان خود ترسی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا کہاں دل کرتا ہے کچھ کرنے کو۔
مندرجہ بالا تمام معلومات، علم و کوشش اور تدبیروں کے باوجود لوگ موٹے ہی ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ اپنی سی کوشش ہر بندے نے کی ہوتی ہے اس موذی (موٹاپے) سے بچنے اور نجات کی۔ وجہ یہ ہے کہ سب موٹاپا آنے کے بعد رخصت کرنے کی بات کرتے ہیں۔ جس چیز (موٹاپے) کو آپ اتنی محنت اور منصوبہ بندی سے پیسہ اور وقت خرچ کر کے حاصل کرتے ہیں وہ کیسے اتنی آسانی سے چلی جائے۔
سارا دن طرح طرح کے کھانے کھانے کے بارے میں جدوجہد ہوتی ہے۔ مختلف سے مختلف، جدید سے جدید، تیار کا تیار…… اس کے علاوہ سارا دن مختلف چینلز پر مختلف طرح کے کھانے پکانے سکھائے جاتے ہیں۔ کھانا بنانا سیکھ کر، بنا کر، ظاہر ہے اٹھا کر نہ تو فوراً بغیر کھائے ہی کھانے Freeze کیے جاتے ہیں اور نہ ہی پڑوسیوں کے گھر بھجوائے جاتے ہیں۔ یقینا کھائے ہی جاتے ہیں چکھنے کے نام پر یا کھانے کے نام پر۔
Organic فوڈ کی بجائے Refined اور Processed فوڈ وہ بھی Semi cooked لینے کا رواج تیزی سے زور پکڑ رہا ہے۔
سارا دن سارے کاموں کے لیے نوکروں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ صفائی کروانی ہو، کپڑے دھلوانے یا استری کروانے ہوں، کھانا پکوانا ہو چاہے Semi cooked food کو ہی cooked food میں تبدیل کیوں نہ کرنا ہو۔ غرض ہر کام کے لیے نوکر اور نوکر کے لیے بہت سارے کاموں کا انتظام کرنا آج کل سب سے بڑی چوٹی ہے جس کو سر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خود کو بے کار رکھنے اور نوکر کو مصروف تر رکھنے کی منصوبہ بندی ہی روز کی سب سے بڑی مصروفیت ہوتی ہے۔ نوکروں کی تنخواہوں پر پیسے خرچ کر کے خود کو بے کار کیا جاتا ہے یعنی بے کاری خریدی جاتی ہے۔ بے کاری کا مطلب ہے کہ آپ اپنی Calories کو بچا رہے ہیں تا کہ یہ کام کرنے میں خرچ نہ ہو جائیں۔ جو چیز خرچ نہ ہو گی وہ جمع ہو گی یعنی Calories کو آپ نے جمع کیا اپنا پیسہ (نوکروں پر) خرچ کر کے۔
جو کام آج کل کیے جاتے ہیں یعنی کپڑے Designer کے خریدے اور پہن لیے نہ کھلا کپڑا خریدنے کا جھنجھٹ، نہ ڈیزائننگ کی فکر اور نہ ہی سلوانے اور درزی ک چکر لگانے کی پریشانی یعنی کتنی محنت سے یہ ساری Calories بچائی گئیں، کھانا نوکر نہ پکائیں تو Home Delivery سروس سے پہنچ جاتا ہے۔ یہاں بھی آپ اندازہ کر سکتے ہیں Calories کی ہونے والی بچت کا اور اس بچت کے لیے ادا کی جانی والی قیمت کا۔
چند کام ہیں، چند ایک فکریں ہیں جو کہ سب کو لاحق ہیں۔ نوکروں پر حکم چلانے کا کام، ان کے جھوٹے سچے مسائل اور بہانے سننے کا کام، سب جھوٹے سچے معاملات کے باوجود ان سے کام کروانے کا کام، ان کے ہاتھوں ہونے والے نقصان اور چھٹیوں کا حساب رکھنے کا کام، ان پر غصہ کرنے کا کام وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام کیے گئے کاموں میں کتنی Calories خرچ ہوتی ہوں گی اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی حساب کتاب کی ضرورت نہیں۔
حالاں کہ سنا ہے کہ غصہ کرنے سے Caloriesبڑھ جاتی ہیں کم نہیں ہوتیں یعنی ایک اور نقصان……
فکر صرف ایک ہی لاحق ہے سب کو کہ بچے کچھ کھاتے نہیں اور ماں بغیر کچھ کھائے موٹی ہو رہی ہے اور ہوتی ہی جا رہی ہے (حالانکہ ہوا میں تو Calories موجود نہیں اور پانی میں بھی ڈھونڈنے سے بھی کوئی Calories نہیں ملتیں صرف کھانا ہی رہ گیا ہے اور اس کے بارے میں بھی Confirm ہے کہ کھانا کھانے سے ہی ایسا ہو گا صرف کھانا دیکھنے سے Calories اوپر نہیں چڑھ جائیں گی۔
) یہ (موٹا ہونے کا) وہ واحد کام ہے جو وہ (ماں) خود کر رہی ہوتی ہے کیونکہ موٹا ہونے کے علاوہ باقی سب کاموں کے لیے تو نوکر رکھے ہوئے ہیں جبکہ موٹا ہونے کے لیے نوکروں نے ان کو رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ خود تو بیچارے ایسا کرنا (موٹا ہونا وہ بھی بے کار رہ کر) Afford نہیں کر سکتے۔
یہ سب (مالکانِ ملازمین) جب آرام کر کے تھک جاتے ہیں تو اس قدر محنت اور پیسے سے جمع کی گئی Calories کو Burn کرنے کے لیے Walk کی جاتی ہے۔
سڑکیں، فٹ پاتھ اور جوگنگ ٹریک گھسا دئیے جاتے ہیں مگر Calories (چربی کی شکل میں جمع شدہ) ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔ تھوڑی بہت اگر گر بھی جاتی ہیں تو ان کا گرنا محسوس نہیں ہوتا۔ اب پھر خرچ کیا جاتا ہے یعنی Exercise Machine خریدی جاتی ہے Calories کو رخصت کرنے کے لیے یعنی پیسہ اور وقت لگا کر لائی گئی Calories کو پیسہ خرچ کر کے (مشین پر) بھگانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر جب یہ کوشش بے کار جاتی ہے تو مزید خرچہ کرنا پڑتا ہے۔
جم Join کرنے پر۔ جب اس طرح بھی مطلوبہ فرق نہیں پڑتا تو Exercise Expert اور Diet Plan کے تحت معمولاتِ زندگی و خوراک کو ڈھال کر مزید نوٹ گنوائے جاتے ہیں (یہ سب کافی مہنگا ہوتا ہے کیونکہ اس کی Demand جو آج کل بہت ہے) تاکہ Calories سے نجات ملے اور اگر خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو ملی رہے یعنی ان کی (Calories) دوبارہ مہمان نوازی نہ کرنے پڑے مگر استقامت کم ہی نصیب ہوتی ہے۔
پھر دوبارہ یہ Vicious Circle/Cycle شروع ہو جاتا ہے۔
عجیب مصیبت ہے، عجیب لوگ ہیں پہلے مال خرچ کر کے اس چربی کے چڑھنے کا انتظام کیا جاتا ہے پھر خون پسینے کی کمائی لٹا کر ان Calories سے جان چھڑانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں Calories اتنی زیادہ ہیں۔ ہم اتنی بچت کر چکے ہیں ان کی کہ ان کو (Calories کو) ضائع کرنے پر خرچ کرنے کی بجائے اگر ان کو Export کرنا شروع کر دیا جائے تو بہت سا زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
اس طرح یہ ایک منافغ بخش تجارت بن جائے گی پھر یہ کہاوت سچ ثابت ہو گی کہ پیسہ ہی پیسے کو کھینچتا ہے۔ بلکہ اگر صحیح منصوبہ بندی کی جائے اور حکومت دل چسپی لے تو ملک کا سارا قرضہ اس Export سے اتارا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کیا کہے گی دنیا کیسی قوم ہے دنیا سے قرضے لے لے کر یہ لوگ Calories جمع کرنے پر پہلے خرچ کرتے ہیں پھر ان کو ضائع کرنے اور جلانے پر خرچ کرتے ہیں۔ مالِ مفت دل بے رحم۔ مال بے شک پرایا ہے مگر جسم تو آپ کا اپنا ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan