Episode 41 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 41 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

ملاقات
انسان معاشرے کی اکائی ہے۔ کچھ انسان ”اسکی“ ضرورت ہوتے ہیں اور کچھ انسانوں کی ضرورت ”وہ“ ہوتا ہے۔ بالکل اسطرح جیسے دیوار کی اینٹ جو کہ کئی اینٹوں کا سہارا بنی ہوئی ہوتی ہے جبکہ خود بھی کئی اینٹوں کا سہارا لیے ہوئے ہوتی ہے۔ انسان کی ضرورتیں انسان سے وابسطہ ہیں۔ اس ناطے انسان کا واسطہ کئی طرح کے انسانوں سے پڑتا ہے۔ انسان کی انسان سے ملاقات اس معاشرے کی زندگی، حیات و بقا کی ضامن ہے۔
ملاقات بغیر چاہے بھی ہو جاتی ہے اور کبھی چاہ کر بھی نہیں ہوتی ہے بعض اوقات ہو کر بھی نہیں ہوتی ہے اور کبھی بغیر ہوئے بھی ہو جاتی ہے۔ بحرحال میل جول آنا جانا، ملنا ملانا معاشرتی زندگی کا جز لازم ہے۔ اس کے معاشرے میں کئی طریقے اور کئی انداز رائج ہیں۔ مثلاً سلام دعا، علیک سلیک، مصافحہ اور معانقہ وغیرہ وغیرہ۔

(جاری ہے)

معاشرہ بظاہر تیزی سے ترقی کر رہا ہے روایت پرستی سے جدت پرستی کی طرف گامزن ہے۔
جدید دور کے اپنے تقاضے ہیں۔ اقدار بدل رہی ہیں کہیں بدل گئی ہیں کہیں بدلنے سے بچ رہی ہیں کہیں بدل کر آگے نکل گئی ہیں۔ اس طرح آج کل معاشرے میں سب کچھ رائج ہے قدیم روایات بھی فائل بہ جدت روایات بھی، جدید روایات بھی اور جدید ترین اقدار بھی۔ مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ کون کس طرز پر چل رہا ہے۔ آج کل دوسرا شخص روایات و اقدار کی کس سیڑھی پر براجمان ہے۔
اس سے کن روایات کے تحت ملاقات کی جائے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل کام ہے۔ اور لگائے گئے اندازے کے مطابق عمل کرنا مشکل ترین ہے۔ یہ مشکل کبھی مصیبت بن سکتی ہے کبھی کبھار مذاق اور کبھی بے وقوفی۔ ایسا ہر طرح کے لوگوں کی ملاقات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً
روزانہ ہونے والی ملاقاتوں کا ایک روایتی سا انداز ہوتا ہے۔ اس قسم کی ملاقاتوں میں دونوں فریقین ایک دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں اور اس جان پہچان کے نتیجے میں ان کے درمیان ایک مخصوص انداز طے پا چکا ہوتا ہے۔
یعنی صرف ہیلو ہائے یا سلام دعا وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہ ملاقاتیں معمول کا حصہ ہوتی ہیں۔ ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ کم ہوتا ہے۔ اس لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے۔ ان ملاقاتوں میں جذبات و احساسات کا دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ مگر یہاں بھی اگر فریقین کے درمیان مسئلہ ہو جائے تو ہیلو ہائے میں روکھا پن آ جاتا ہے۔ لہجے کا فرق ناراضگی کا پیغام دیتا ہے۔
سلام دعا میں بے رخی آ جاتی ہے۔ حالات زیادہ خراب ہوں تو سلام دعا سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یا اگر سلام دعا کی بھی جاتی ہے تو اس میں خیریت کم تلخی زیادہ ہوتی ہے۔ لگتا ہے سلامتی نہیں بھیجی گئی بلکہ پتھر مارا گیا ہے زخمی کرنے کے لیے۔ اگر کسی کو اپنی غلطی کا احساس ہو تو وہ دوسرے کو روز مرہ سے زیادہ تپاک سے سلام دعا کرتا ہے۔
پہل کرتا ہے۔ خوشی اور تپاک سے ایسا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی کلمات ادا کرتا ہے تاکہ وہ دوسرے کی ناراضگی کا اندازہ کر سکے اور اس کو غیرمحسوس طریقے سے زائل کر سکے۔
کوئی ایک جان چھڑانا چاہ رہا ہو، نظر انداز کرنا چاہتا ہو جبکہ دوسرا اس اشارے کو سمجھ بھی رہا ہو پہلے شخص کو سمجھانا بھی چاہتا ہو کہ اس کی نیت کا پتہ چل چکا ہے تو وہ پہلے شخص کو چھوٹتے ہی وعلیکم السلام کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے یا Ice breaking کر کے ملاقات کا ماحول اچھا کرنا چاہتا ہے اور پیغام دیتا ہے کہ اس کی طرف تو سب اچھا ہے اور یہ جان چھوڑنے والا نہیں۔
زیادہ بے تکلف لوگ واعلیکم السلام کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کیا آج کل آپ کے ہاں سلام کرنے کا رواج نہیں رہا اور کوئی چیز رائج ہو چکی ہے۔ یا امی ابا نے منع کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ جبکہ نظر انداز کرنے والا سوچتا ہے کہ کتنا شوق ہے اس کو کہ دوسرا اسے لفٹ کرائے اور سلام کرے۔
بہت عرصے بعد ہونے والی ملاقات کا منظر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس میں بہت سے عوامل اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ مثلاً دونوں میں شدتِ جذبات کیا ہے؟ دونوں کتنے عرصے بعد ملے ہیں؟ دونوں کا اپنے جذبات پر کنٹرول کا نظام کیسا ہے؟ دونوں کا تعلق کیا ہے؟
دونوں میں تعلق گہرا ہو۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوئے ہوں اور دونوں اس خوشی کا اظہار چاہتے ہوں عرصہ زیادہ گزرا ہوا یا کم فرق نہیں پڑتا۔ ہر صورت میں ملاقات بہترین رہتی ہے چاہے یہ اچانک ہو یا متوقع۔
جہاں بات و تعلقات سلام و دعا، ہیلو ہائے سے زیادہ آگے ہوں یعنی جہاں مصافحہ بھی کرنا ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اگر ایک شخص صرف سلام دعا پر گزارا کرنا چاہتا ہو جبکہ دوسرا مصافحہ کرنا چاہتا ہو تو کوئی مشکل نہیں ہوتی دوسرا شخص پہلے کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر فوراً اپنا ہاتھ نکال لیتا ہے مصافحہ کر لیتا ہے اور یہ بات بھی چھپا لیتا ہے کہ اس کا مصافحہ کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا، اس کے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی اور اس نے مجبوراً ایسا کیا ہے۔
لیکن جہاں زیادہ لوگ ملنے والے ہوں۔ آنے والے صاحب موجود لوگوں میں سے ایک کو سلام کر کے فوراً دوسرے کی طرف متوجہ ہو جائیں اور سلام قبول کرنے والا شخص جذبات یہاں پر کنٹرول نہ کر سکے اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دے تو خاصی شرمندگی کا مقام ہوتا ہے کیونکہ آنے والے شخص کے نزدیک تو اس کی ملاقات کا کوٹہ اور وقت پورا ہو چکا ہوتا ہے اور اس کے نزدیک بس اتنا ہی کافی ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے اندر تشنگی باقی ہوتی ہے۔
کچھ لوگ اس تشنگی کو چھپا لیتے ہیں کچھ یہ کہہ کر ”ڈھنگ سے مل تو لو اتنے عرصے بعد آئے ہو۔“ دوسرے کو مصافحہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جتنی شرمندگی اس نے اٹھائی ہوتی ہے اسے دوگنا کر کے واپس دوسرے کو بھیج کر اناء کو تسکین پہنچائی جاتی ہے۔ دل ہی دل میں بے عزتی کا بدلہ لینے پر خوش ہوا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا شخص سوچتا ہے کیسا بے وقوف آدمی ہے زبردستی چمٹا جا رہا ہے۔
بہت عرصے بعد ملاقات ہو رہی ہو اور جان پہچان مناسب ہی رہی ہو تو ملاقات کے انداز پر صرف ایک چیز اثر کرتی ہے کہ وہ لمبا عرصہ جسمیں ملاقات نہ ہو سکی دونوں نے کیسا گزارا۔ اس طویل وقت نے دونوں کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب کیے اور ان اثرات کا ان شخصیات پر کیا اثر ہوا۔ ایسی ملاقاتوں میں جب فریقین میں سے ایک گزشتہ معلومات کی بنا پر (جو کہ اس کے پاس دوسرے فریق کے بارے میں ہوتی ہیں) دوسرے فریق سے صرف زبانی سلام دعا کرتا ہے تو دوسرا جس نے کبھی کسی سے ہاتھ نہ ملایا تھا گلے ملنے کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنے روکھے پن پر نالاں شخص کو خوش مزاجی سے پریشان کر دیتا ہے۔
دوسری صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے سے انتہائی جوش و خروش سے مل کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کیا ہوا زیادہ و قت گزر گیا مگر مجھے آج بھی سب کچھ یاد ہے میں آج بھی تعلقات کو اسی طرح مضبوط سمجھتا ہوں جبکہ دوسرا اس طرح لیا دیا کھڑا ہوتا ہے جیسے اس کی یادداشت چلی گئی ہو اور وہ تاثر دیتا ہے جیسے پہلے وہ بے وقوف تھا اورا ب عقل مندی میں سند حاصل کر چکا ہے اس لیے اب تمہیں فری نہیں ہونے دے گا۔
اور تمہیں گزشتہ حد سے کافی پیچھے رکھے گا۔ اسطرح ملاقات تو ایک طرف رہ جاتی ہے ماضی کی خوش اخلاقی (جس کے تحت آج یہ ملاقات ہو رہی ہوتی ہے) سے متاثر فریق دوسرے کی بے رخی اور روکھے پن پر حیران ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے وقت نے سارا اثر شاید اس کے دماغ اور مزاج پر ہی کیا ہے۔ وقت و حالات خوش اخلاق کو روکھا اور روکھے کو خوش اخلاق بنا دیتے ہیں۔
جہاں ملاقات پہلی بار ہو رہی ہو۔ ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوں تو بہت سارے Factors اندازِ ملاقات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک فریق وجہٴ ملاقات کے تحت دوسرے سے رسمی علیک سلیک کے بعد صرف مصافحہ کرنا چاہتا ہے اور ہاتھ بڑھا دیتا ہے جبکہ اس Action سے پہلے دوسرا فریق اسی وجہٴ ملاقات کو اس قدر اہم سمجھتا ہے کہ اس کے خیال میں صرف مصافحہ ناکافی ہوتا ہے تو وہ معانقہ کی تیاری کے ساتھ دوسرے کی طرف بڑھتا ہے۔
یعنی آپ نے ہاتھ نکالا جبکہ اسی اثنا میں دوسرا شدتِ جذبات میں بغلیں پھیلائے چمٹ گیا اس کی نظریں آپ کے چہرے پر مرکوز تھیں اس نے آپ کے ہاتھ کی طرف نہ دیکھا تو صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ آپ کا ہاتھ اس کے پہلو میں، بازو پیٹ پر زور ڈالتا ہے اور کندھے گردن اور چہرہ دوسرے کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔ بلکہ دوسرے نے خود لگائے ہوئے ہوتے ہیں آپ کی مرضی کے بغیر۔ آپ نے اب صرف خود کو خدا کرنا ہوتا ہے اس سے پہلے کہ اس کے پیٹ میں درد شروع ہو جائے آپ کے بازو کے دباؤ سے یا کہیں آپکی کہنی کوئی اثر نہ کر دے اس کے جسم پر اور وہ اپنی شدتِ جذبات کے تحت اپنا کوئی نقصان نہ کر لے۔ آپ اس صورت حال پر شرمندہ ہوئے یا نہیں اور فیصلہ کیا کہ آئندہ خیال رکھیں گے یہ آپ پر منحصر ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan