Episode 6 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 6 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

 گیس کو استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی اس لئے سب نے بغیر اجازت چوری کرنا شروع کر دی۔ چوری پکڑے جانے کا ڈر ہوا تو main pipe line سے درد دل رکھنے والوں کی مدد سے چوری شروع ہو گئی۔ جتنا بڑا آدمی تھا اتنا ہی بڑا چور بن گیا۔ اپنے اس عمل کا نتیجہ بھی عوام کو خود ہی بھگتنا پڑا گیس گاڑیوں میں استعمال کیلئے بھی ناپیند ہو گئی پہلے ایک دن کا ناغہ پھر دو دن تین دن پھر ہفتے میں پانچ دن کا ہوتے ہوتے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گیس ملنا ہی بند ہو گئی بہت دعاؤں اور کوششوں کے بعد مہنگی گیس ملنے لگی گاڑیوں کیلئے وہ بھی محدود دنوں کیلئے۔
عوام نے بھی اپنے طور پر ہی ہمیشہ ہر مسئلے سے نمٹنے کی پوری کوشش کی۔ Transport کا کاروبار کرنے والوں نے گاڑیوں میں سلنڈروں کی تعداد بڑھا دی۔ جتنے دن کا ناغہ ہوتا اتنے ہی سلنڈر گاڑی میں لگے ہوتے تاکہ تنگی محسوس نہ ہو بلکہ زیادہ مزہ آنے لگا کہ پیسے تو ناغہ کی وجہ سے پٹرول کے لیتے اور چلاتے CNG پر۔

(جاری ہے)

مگر حکومت نے مزید محبت کا مظاہرہ کرکے عوام کو Relaxation کا کچھ وقت دینے کیلئے CNG سٹیشنوں کی تعداد محدود کر دی جن پر CNG ملتی تھی بحرحال اب عوام کی سب سے بڑی مصروفیت CNG کی لائن میں لگنا ہے۔


 Candle light ڈنر کرنے والی لاڈلی عوام کا معیار زندگی ان سب مندرجہ بالا حالات میں بدلتے بدلتے صرف Candle light روٹی تک رہ گیا اور جب گھریلو صارفین کیلئے Gas کی load shedding کر دی جاتی ہے تو یہ روٹی بھی غائب ہو جاتی ہے۔ صرف Candle light رہ جاتی ہے۔ عوام نادان ہے سمجھتی نہیں یہ کام بھی انہی کے فائدے کیلئے کیا گیا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ روٹی روزانہ کھائی جائے روزانہ روٹی کھانا موٹاپے کا باعث ہے۔
کیونکہ اس میں Carbohydrates ہوتے ہیں۔ اس لئے موٹاپے سے قوم کو بچانے کیلئے یہ انتظام کیا گیا تاکہ وہ مستقبل میں موٹاپے سے ہونے والی بیماریوں شوگر  بلڈپریشر اور دل کے امراض سے محفوظ رہ سکیں۔ کیونکہ روزگار ختم ہونے سے Activity تو عوام کی پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ 
اس پر اگر روزانہ روٹی کھائی جائے گی تو خود سوچیں وزن کہاں کا کہاں پہنچ جائے گا۔
یعنی کہ Calories روزانہ Burn نہ کی جائیں او روٹی کے Carbohydrates روزانہ لئے جائیں۔ بہت خطرناک Combination تھا یہ۔ اس لئے حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ روٹی کم کر دی جاتی اور ضروری تو نہیں انسان روزانہ روٹی کھائے مقصد تو Candle light میں بیٹھ کر محبوب کے ساتھ کھاتے ہوئے اس ماحول کو Enjoy کرنا ہی ہے نا تو آپ بھنے ہوئے چنے کھا لیں، Popcorns کھا لیں۔
یہ فیصلہ حکومت نے آپ پر چھوڑا ہے۔ جیسے آپ کی پسند (جو آپ کی جیب اجازت دے) کیونکہ واحد چیز جس سے حکومت کبھی غافل نہیں ہوتی وہ ہے آپ کی پسند۔ پتہ لگا جمہوری حکومتوں کے انداز بھی جمہوری ہوتے ہیں ہر معاملے میں خاص طور پر عوام کے معاملے میں۔
عوام کو شکر ادا کرنا چاہئے تھا کہ کھانا ضروری ہے اور روزانہ اچھے ماحول میں یعنی امیروں کے ماحول، Candle light میں کھا کر ہی سوتے ہیں چاہے کچھ بھی کھائیں چنے یا Popcorns مگر عوام کو احساس ہو تو شکر ادا کرے نا۔
ناشکری کرنے والی اس قوم سے مزید جو نعمتیں چھن گئیں وہ ماحول میں تحفظ چھن گیا۔ ملک میں جگہ جگہ مختلف طریقوں سے انسان مر رہے ہیں اور ہر انسان بے یقینی اور خوف کا شکار ہے اب کھانے کو چنے مل بھی جائیں تو Candle light کے ماحول سے سکون رخصت ہو گیا ہے عدم تحفظ اور خوف نے Candle اور Candle lightکو گھیر لیا ہے۔
 بھوکے پیٹ نہ سہی کھا کر بھی سوئیں تو خوف میں سوتے ہیں کہ صبح دیکھنا نصیب ہو گی یا نہیں اور اگر دیکھنا نصیب ہو گی تو کیسی صبح اور کیسا دن ہوگا۔
اب یہ عوام صرف Candle light کے ماحول کو بھی نہ تو ڈنر کے ساتھ نہ چنوں کے ساتھ اور نہ ہی ان سب کے بغیر Enjoy کر سکتی ہے۔ بلکہ اب تو روشنی چاہے وہ Candle ہی کی کیوں نہ ہوں خوفزدہ کرتی ہے۔ کیونکہ خوف قوم کے اندر سرایت کر گیا ہے۔ عدم تحفظ اور روز روز کے واقعات نے بری طرح قوم کے اعصاب کو تباہ کر دیا ہے۔
اب قدر آئی اس وقت کی جب حکومت نے Candle light ڈنر کا تحفہ دیا تھا جب سب کچھ تھا Candle بھی، Candle lightبھی، محبوب بھی، ڈنر بھی، پھول اور ماحول بھی اور تو اور سب سے بڑھ کر ماحول میں تحفظ بھی۔
ون سے کھانا کھاتے تھے من پسند وہ بھی Candle light میں اور Romantic ماحول میں۔ پہلے ڈنر رخصت ہوا پھر ماحول میں تحفظ اس کے بعد Candle اور Candle light، اب محبوب کی رخصتی کا وقت ہے جس قدر تیزی سے روز انسان مر رہے ہیں اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ روزانہ کتنے محبوب مر رہے ہیں۔
دیکھا صرف ایک نعمت (یعنی Candle light ڈنر کی جو کہ حکومت نے بہت محنت سے مہیا کی تھی) کی ناشکری سے معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا کہ آج محبوب کی جان خطرے میں ہے تو اس کا مطلب ہے باقی تمام مصیبتیں بھی ہمارے اپنے ہی ہاتھوں کی لائی ہوئی ہیں کیونکہ روزانہ اتنی ناشکریاں کرتے ہیں۔
سارا قصور ہماری تباہی میں ہماری ناشکری کا ہے۔ شکر کرنے سے اطمینان آتا ہے جبکہ ناشکری کرنے سے حرص بڑھتی ہے، نیت نہیں بھرتی اور ناشکری باعث نعمت بڑھنے کی بجائے کم ہو جاتی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ شکر ادا کرنے سے نعمت کی supply قدرت کی طرف بڑھا دی جاتی ہے۔
قصور حکمرانوں کا نہیں کہ انہوں نے Candle light ڈنر کا تحفہ دینے کی بجائے بجلی کی پیداوار کیوں نہ بڑھائی۔
کیونکہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کئے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران ہمارا Reflection ہیں۔ کیونکہ جیسا دودھ کا رنگ ہوتا ہے ویسا ہی دودھ پر آنے والی بالائی کا رنگ ہوتا ہے۔ گائے کا دودھ ہلکا پیلا ہوتا ہے تو اس دودھ کی بالائی کا رنگ بھی ہلکا پیلا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟
لہٰذا فکر کرنے کی بجائے یہ سوچیں کہ اب کرنا کیا ہے۔ خطرہ تو ان حالات میں محبوب سے ہاتھ دھونے کا ہے محبوب کی موجودگی کی نعمت کا شکر ادا کریں تو یہ نعمت چھننے کا خطرہ ٹل جائے گا۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan