Episode 20 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 20 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

بیوی نے بالوں کی ٹیڑھی چٹیا کرکے آگے ڈال رکھی تھی کھانا لگاتے ہوئے اس کی چٹیا Dining table (کھانے کی میز) پر لگ رہی تھی کہ کانوں میں آواز آئی تمہاری چٹیا اور بال کیوں sweep کر رہے ہیں۔ کھانے میں لگ سکتے ہیں۔ تم سے تو بال بھی سنبھالے نہیں جاتے۔
حالانکہ بال اچھی طرح سنبھالے ہوئے تھے اب صرف تالا لگانے کی کسر باقی تھی۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ انہیں سیل کرکے رکھا کرو۔
بیوی تنگ آ چکی تھی اس نے یہ کوشش ہی چھوڑ دی ایک دن اس کا اپنا دل چاہا کہ وہ آگے کے کچھ بالوں میں curles ڈال کر بال بنائے کیونکہ اسے خود چہرے پر لٹکتی لٹوں میں curles اچھے لگتے تھے۔ باقی بال اس نے Lock اور سیل کر دیئے تاکہ اعتراض نہ ہو مگر وہ ہوا جس کا امکان نہ تھا۔
خدا کی پناہ یہ تم نے کیا کیا؟
ایک تو تھکے ہارے گھر آؤ اور آتے ہی تمہارے چہرے پر یہ خوفناک چیزیں لٹکتی دیکھ کر واپس بھاگنے کو دل چاہ رہا ہے۔

(جاری ہے)

کتنا فالتو وقت ہے تمہارے پاس ان بے کار کاموں کیلئے شوہر نے دیکھتے ہی فرمایا۔۔۔۔۔
بیوی سمجھ گئی یہ زندگی ہے کہانی نہیں اس لئے یہ نسخہ شفا بخشنے والا نہیں بیوی مایوس ہو گئی۔ کچھ نہ آزمایا مگر ایک دن سوچا کہ پوچھوں تو سہی کہ آخر ان کو کیسے بال پسند ہیں تو انہوں نے جواب دیا تم کیا کرو گی پوچھ کر
پوچھ کر کرنا تو کچھ نہیں ویسے ہی پوچھ رہی ہوں۔
(بیوی نے جواب دیا)
کیوں آپ بتانا نہیں چاہتے؟
نہیں اس لئے کہ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں… شوہر نے بتایا
آپ مجھے بغیر فائدے کے بتا دیں… بیوی نے سوال کیا
ان کے جواب کے بعد مایوسی کا پہاڑ بیوی پر گر گیا۔
جواب تھا گھنگھریالے بال وہ بھی ایسے جو کہ قدرتی طور پر ہوں۔ Chemicals اور اوزار و مشنری سے کی گئی محنت میں خوبصورتی نہیں ہوتی۔
پسند بھی ایسی جو پوری نہ کی جا سکے صبر آ گیا کہ شوہر کا قصور نہ تھا پسند ہی لاحاصل تھی اس لئے ناکامی ہوئی۔ امید پیدا ہوئی کہ کوئی اور نسخہ ضرور عمل و اثر کر سکتا ہے۔
تازہ دم ہو کر پھر کوششیں شروع کی مگر وقفہ دے کر کہ کہیں انہیں احساس نہ ہو جائے کہ ان پر ”as a project“ کام کیا جا رہا ہے اور ان کی اصل باہر نہ آ سکے۔
بیوی کے مشاہدے میں محفوظ تھا بیویاں شوہر کو کوٹ پہناتی ہیں شاید اس کام میں مدد لے کر شوہر کو خوشی ہوتی ہے۔
وہ احسان مند ہوتا ہے یقینا کوٹ پہننا مشکل ہوتا ہوگا۔ تب ہی بیویاں یہ کام کرتی ہیں اور شوہر خوش ہوتے ہیں لہٰذا اس کارخیر میں حصہ لینے کا منصوبہ بنایا۔ صبح جب شوہر تیار ہو رہا تھا تو بیوی پاس بیٹھ گئی کہ کوٹ پہننے کا مرحلہ آئے تو مدد کرکے سرخرو ہو اور شوہر کے دل کی ملکہ بن جائے کہ اسے میری ضروریات کا کس قدر خیال ہے۔ ابھی خوش فہمیوں کا سلسلہ رکا نہ تھا کہ شوہر نے کہا کل میں نے laptop کام کرتے ہوئے study میں رکھ دیا تھا وہ لے آؤ بیوی وہ لینے چلی گئی واپس آنے تک شوہر خود ہی کوٹ پہن چکا تھا اور بیوی اس بشارتِ محبت دینے والی گھڑی سے محروم ہو چکی تھی۔
بیوی نے صبر کیا کہ چلو کوئی نہیں یہ تو روز روز کا کام ہے آج نہ سہی کل سہی۔ اگلے دن کا انتظار شروع ہو گیا اگلی صبح ساری امیدوں پر منوں اوس پڑ گئی جب دیکھا کہ شوہر نے پہننے کیلئے جرسی نکال رکھی ہے۔ مزید 48 گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ کیونکہ اگلے دن sunday (اتوار) تھا۔ پھر سوچا کہ سواموار کون سا دور ہے کوئی بات نہیں کیونکہ نسخے کی طاقت پر بہت زیادہ یقین تھا اور اس میں خدمت خلق کا عنصر بھی شامل تھا اسی لئے بے فکری ہو گئی۔
سوموار کو بیوی کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر شوہر نے پوچھا یہاں کیوں بیٹھی ہو آج ناشتہ نہیں کروانا کیا۔ بیوی نے جھٹ جواب دیا۔ ناشتہ! وہ تو میں نے تیار کر لیا ہے۔
کیا بنایا ہے (شوہر نے پوچھا)
آملیٹ… وغیرہ وغیرہ (بیوی نے بتایا)
آج تو میرا half fry egg کو دل چاہ رہا ہے جا کر وہ بنا دو آملیٹ کا تو بالکل موڈ نہیں ہے۔ (شوہر نے انکشاف کیا)۔
محبوراً (بیوی کو) اٹھ کر جانا پڑا اور وہ کوٹ پہنانے کی سعادت سے محروم رہ گئی اور سعادت بھی ایسی جو اس کے خیال میں Romance کی جنت کی بشارت لئے ہوئے تھی۔
اگلے دن اس نے صبح ناشتے میں دونوں طرح کے انڈے بنا لئے کہ وہ جو چاہے کھائیں دوسری قسم کا وہ خود کھا لے گی مگر آج کوٹ ضرور پہنا کر رہے گی۔ مگر کیا تھا کہ Door bell نے بے وقت آفت کی طرح سارا منصوبہ ناکام بنا دیا اسے خود ہی دروازے پر جانا پڑا اور پھر وہ مطلوبہ ساعت گزر گئی۔
محرومی مقدر ٹھہری۔
آئندہ روز Door bell کو بند کرکے دونوں قسم کے انڈے بنا کر ٹیبل پر لگا رہی تھی کہ شوہر جلدی تیار ہو کر چلے گئے کہ اس دن انہیں وقت مقررہ سے پہلے جانا تھا۔ ایک تو نسخہٴ محبت آزمانے کا موقع نہ ملا دوسرا دو دن سے مسلسل دو دو قسم کے انڈے کھانے پڑ رہے تھے۔
محبت اور توبہ حاصل کرنے کیلئے صبر اور محنت تو کرنا پڑتے ہیں۔
منزل کی قربت نے پھر ہمت دلائی ایک دن ایسا بھی آیا کہ کوئی چیز بھی اسے اس خدمت خلق میں خلل ہوتے ہوئے نظر نہ آ رہی تھی اور وہ خوشی کے ان احساسات سے لبریز تھی جو کہ شاید کھلاڑیوں کو Victory stand پر پاؤں رکھتے ہوئے محسوس ہو رہے ہوتے ہیں یا پھر جیت کا میڈل پہننے سے ایک لمحہ پہلے جوان کا حال ہوتا ہے۔ وہی اس بیوی کا تھا۔ انتہائی پرامیدی کے ساتھ کوٹ اٹھا کر شوہر کو پہنانے کیلئے پیچھے کھڑی ہوئی شوہر نے بازو پھیلا کر پہننے کی بجائے پورا مڑ کر کوٹ ہاتھ سے لے لیا اور خود پہن لیا۔
اس نسخے کے وجود میں آنے کیلئے دوسری پارٹی کا تعاون ضروری تھا۔ یہ نسخہ ابتدائے Romance کیلئے موزوں نہ تھا بلکہ بعد از ابتداء کیلئے تھا۔ جس کے ذریعے انتہا کے سفر پر رواں دواں ہوا جا سکتا تھا۔ بیوی کے ذہن میں خیالات کا یہ طوفان برپا تھا کہ شوہر نے پوچھا۔
تم یہ کیا کر رہی تھی؟
کچھ نہیں (بیوی بوکھلا گئی)
کوئی کام نہیں آج جو کوٹ لے کر پھیلائے کھڑی تھی۔
نہیں ایسا تو نہیں (بیوی نے تصحیح کی)
تو پھر… (شوہر نے دوبارہ سوال کیا)
کچھ بھی نہیں… (بیوی صفائی پیش کر رہی تھی)
کیا تم اس لئے تو یہاں بیٹھ کر انتظار نہیں کر رہی تھی کہ تم مجھے کوٹ پہنانا چاہ رہی تھی۔
بیوی شرمندگی چھپانے کی جہد مسلسل میں تھی لہٰذا اس نے کہا۔
”نہیں“
مگر اس کی ”نہیں“ اس کی ”ہاں“ سے زیادہ اس کے تاثرات شوہر تک پہنچا رہی تھی۔ (شرمندگی چھپائے نہ چھپ سکی)
شوہر سمجھ گیا۔
اس نے کہا دیکھو ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں میں نے کوٹ کوئی آج تو پہننا شروع نہیں کیا کہ خود نہ پہن سکوں اور دوسرے سکول جانے والے بچے میں اور بالغ دفتر جانے والے مرد میں کوئی تو فرق ہونا چاہئے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan