Episode 11 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 11 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

پروڈکشن کمپنی کی تنگدستی صرف فنکاروں کی حد تک ہی نہیں بلکہ گھر ، Buildings اور فرنیچر کا اس سے بھی زیادہ برا حال ہے۔ ایک گھر کو ایک ڈرامے میں England میں واقع  نیشنلٹی ہولڈر Citizens کا گھر دکھایا جاتا ہے جبکہ اسی گھر کو انہی دنوں چلنے والے دوسرے ڈرامے میں پاکستان میں واقع پاکستانی مکینوں کا گھر دکھایا جاتا ہے۔ ذرا برابر بھی تبدیلی نہیں کی جاتی ہے۔
نہ ہی سیٹ میں نہ کشنز میں  نہ ذرا سا مختلف Angle سے شوٹ کرتے ہیں کیونکہ ان کاموں کیلئے سوچ اور وقت چاہئے جبکہ یہ دونوں چیزیں ان کے پاس نہیں۔ کہانی England ایئر پورٹ کی ہوتی ہے۔ شوٹ ترکی کے ایئر پورٹ پر کرکے ناظرین کو England ایئر پورٹ کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک گھر کو ایک ڈرامے میں امیر ترین آدمی کا گھر دکھایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اس گھر کو دوسرے ڈرامے میں اسی سیٹنگ کے ساتھ متوسط طبقے کا گھر دکھایا جاتا ہے۔

پھر تیسرے ڈرامے میں اسی گھر کو کسی سیاستدان کا آبائی گھر اندرون سندھ میں واقع دکھا دیا جاتا ہے۔ وہی دو چار گھر بار بار ہر ڈرامے میں دیکھ کر گھروں کی Railing کا ڈیزائن  کھڑکیاں  دیوان  پردے سب کچھ اتنا ازبر ہو گیا ہے کہ اب اگر وہ کسی بھی Angle سے کسی بھی Setting کے ساتھ اس گھر میں شوٹ کریں تو ناظرین ایک سکینڈ کے ہزارویں حصے میں پہچان جاتے ہیں کہ پھر وہی ڈرامے والا گھر۔
اب تو گھروں میں رکھا فرنیچر  دیواروں پر لگی Wall hangings بستروں پر بچھی بیڈ شیٹس (Bed sheats) تک یاد ہو گئی ہیں۔ یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ کس ڈرامے میں کونسی Wall hanging کمرے کی کونسی دیوار پر لگی تھی۔ داخلی دروازے سے لیکر کچن  باتھ روم  کمرے اور Living room تک اس قدر یاد ہو گئے ہیں کہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے لگتا ہے یہ سب واقعی ڈرامہ کر رہے ہیں (یعنی حقیقت کا گمان نہیں گزرتا) اور ”ہمارے“ گھر میں پھر رہے ہیں۔
(روزانہ 10 بار 10 ڈراموں وہی گھر دیکھ دیکھ کر وہ گھر اپنے گھر لگنے لگتے ہیں)
فرنیچر کے سٹائل اور ڈیزائن کا نقش یاداشت میں اس قدر اچھا محفوظ ہو گیا ہے کہ آنکھیں بند کرکے کاغذ پر Draw کیا جا سکتا ناظرین کی نظریں تھک گئی ہیں۔ اس قدر ہر چیز میں یکسانیت ہے کہ Toxicity ہونے لگی ہے۔
کمپنی نے تبدیلی نہ کرنے کی تو قسم کھا رکھی ہے۔ وہی اداکار Serious , Tragedy ڈرامے میں اور وہی پوری کی پوری فوج کامیڈی ڈرامے میں۔
اپنی طرف سے انہوں نے یہ بڑا احسان کیا چند ایک فنکاروں کو وگ لگا دی جس سے وہ پہلے سے بھی زیادہ ناقابل برداشت ہو گئے اور ڈرامے کا ذائقہ بالکل اس طرح اور اتنا بدمزہ ہو گیا جیسے بے لذت کھانے میں کنکر ڈال دیئے ہوں۔
عوام و ناظرین کی یاداشت ٹیسٹ کرنے کیلئے ایک سوال پر Poling کروائی گئی کہ آج کل اس کمپنی کی اداکارہ جو کہ ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں کہ چہرے پر کتنے تل ہیں  دائیں گال پر کتنے اور بائیں پر کتنے ہیں تو عوام نے %100 صحیح جواب دیئے کہ کل تین تل ہیں دائیں گال پر دو اور بائیں پر ایک اور دونوں تلوں کا فاصلہ بھی ناظرین نظروں سے ناپ چکے ہیں جبکہ ان کے شوہر سے پوچھا گیا تو ان کا جواب غلط نکلا اور شرمندگی چھپانے کیلئے وہ کہنے لگے اصل میں شادی کے فوراً بعد ہی انہوں شوبز جوائن کر لیا اس کے بعد ان کا زیادہ وقت سیٹ پر گزرتا ہے اور میرا ان کے انتظار میں۔
اگر عوام میں آنکھیں بند کرکے فنکاروں کے Sketch اور پوٹریٹ بنانے کا مقابلہ کروایا جائے (اس کمپنی کے فنکاروں کا) تو یہ پورٹریٹ اور Sketch آنکھیں کھول کر سامنے بٹھا کر بنائے گئے Sketches اور پورٹریٹ سے زیادہ خوب صورت ہونگے کیونکہ ماڈل کسی پینٹر کے سامنے اتنی دیر نہیں بیٹھ سکتا جتنی دیر یہ (اس کمپنی کے) فنکار عوام کی نظروں کے سامنے رہتے ہیں۔
اس کمپنی کا مسئلہ عجلت اور بے صبری ہے جو کہ ان کے نام سے بھی ظاہر ہے۔ انہوں نے اپنا نام پورا نہیں رکھا حروف کے تہجی کے الفاظ وہ بھی صرف پہلے دو کیونکہ اس میں بھی وقت ضائع ہوتا۔ جتنی دیر میں مکمل بامقصد نام سوچتے اتنی دیر میں تو وہ ایک ڈرامہ بنا کر بیچ لیتے۔ وہ Entertain کرنے کی بجائے بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور لگتا ہے وہ ڈرامے بناتے وقت یہ سوچتے ہیں جیسے ناظرین ٹائم  space اور person میں Orientation کھو چکے ہیں۔
بس بے فکری سے بنائے جاؤ اور بیچے جاؤ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ Time, space and person میں Orientation کھو چکے ہیں عجلت میں ڈرامے بناتے بناتے۔
ان کا کام اور کام کرنے کا انداز دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگ ٹھنڈا کرکے آرام سے کھانے والی بات پر یقین نہیں رکھتے اسی لئے عجلت میں بغیر چبائے نگل رہے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ اس قدر گرم کھانا کھانے سے ان کا منہ نہیں جل رہا یا اتنا جل چکا ہے کہ اب احساس باقی نہیں رہا یا شدید پیسے کے لالچ نے یہ حس مار دی ہے اور دولت کے انبار کے سامنے منہ جلنا اہمیت نہیں رکھتا۔
بحرحال ان کا منہ جلنے کا تو پتہ نہیں (وہ جانیں ان کا منہ جانے یا شاید وہ ساتھ ساتھ علاج کرواتے رہتے ہوں… واللہ عالم) مگر ناظرین کی نظروں کا پتہ ہے کہ وہ جل چکی ہیں۔ یکسانیت بھرے ڈراموں اور ماحول نے عوام کو اتنا بے زار کر دیا ہے کہ اس اثناء میں جب مختلف نئے چہروں کے ساتھ مختلف نئی Buildings اور جگہوں پر بننے والا مختلف Director اور حتی کہ مختلف نئے writer کا پہلا ڈرامہ سیریل جو کہ 2011ء کے آخر اور 2012ء کے شروع میں چلا تو انہوں نے اس سیریل کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور یہ سارے گزشتہ ریکارڈ توڑ کر عوام کے دلوں کو چھونے والی Block buster سیریل کہلائی۔
ایسے لگا جیسے کسی نے ناظرین کے گزشتہ جلے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو۔ نظروں کو ٹھنڈک اور طراوت ملی۔ ناظرین کو قرار، سکون اور طمانیت کا احساس ملا کیونکہ برسوں کی پیاس جو بجھی تھی۔ ناظرین مدتوں سے اس تبدیلی کے منتظر تھے جس کا ثبوت تبدیلی ملنے پر ان کی ستائش نے دیا۔
یکسانیت سے Toxicated ماحول اس ڈرامے کی کامیابی کی وجہ بنا یعنی ماحول میں انڈسٹری میں موجود weakness اس سیریل کی strength بنی اور یہی strength اس کی کامیابی کی وجہ بنی۔
کاش کوئی اس کمپنی کا مخلص ہو جو انہیں سمجھا دے slow & steady wins the race اگر ایسا نہیں کر سکتے تو rule of survival پر عمل کرکے دیکھیں اگر survive کرنا چاہتے ہیں جو کہ یہ ہے Keep on learning & changing with time۔ کیونکہ زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں اگر ایسا بھی نہیں کرتے تو ناظرین کا درد محسوس کرتے ہوئے دعا دل سے نکلتی ہے اور اوپر جاتی محسوس ہوتی ہے۔
دعا یہ ہے کہ Production کمپنی کی کمائی سے یہ لوگ اتنے امیر ہو جائیں کہ اپنا چینل کھول سکیں اور صرف اس پر اپنے ڈرامے چلائیں۔ عوام کو یہ چینل دیکھنا ہو تو دیکھیں ورنہ نہیں۔ اللہ کرے وہ دن جلد آئے تاکہ ناظرین اپنے Remote control سے وہ چینل تبدیل کر سکیں اور اس کمپنی کے ڈراموں کو مختلف چینلز پر لگا دیکھ کر ہونے والے side effects سے نجات پا سکیں۔ (آمین)

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan