Episode 8 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 8 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

ایک اور قسم ہے والدین کی یعنی بچے کے ماں اور باپ کی۔ اس قسم کے والدین Confused ہوتے ہیں ان کے ہاں دونوں کو برابر حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک کی بھی اتنی طاقت نہیں ہوتی ہے کہ دوسرے کی پسند کے خلاف جائے۔ نہ ہی اتنا ظرف ہوتا ہے کہ اسے قبول کر لے۔ ایسے والدین جب کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ تو وہ بچے کے دونوں نام رکھ دیتے ہیں۔ یعنی ماں کی اور باپ کی پسند جمع ہو کر بچے کا جو نام رکھا جاتا ہے اس میں ساتھ والد کا نام نہیں لگا ہوتا۔
کیونکہ ایسا کرنے سے نام کی لمبائی کے حد سے تجاوز کرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
 ایسے والدین میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے اپنی نہیں منوا سکتا اور نہ ہی دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے سے یہ کہتا ہے کہ چلو اس بار آپ نام رکھ لیں اگلی بار میں فلاں فلاں نام رکھ لوں گا۔

(جاری ہے)

شاید انہیں موقع ملنے کا یقین نہیں ہوتا یا وہ انتظار نہیں کرنا چاہتے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ ان کے تعلقات کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے دونوں ہر دفعہ اتنے ہی Confuse ہوتے ہیں اور اگلے بچے کا نام بھی ڈبل رکھتے ہیں۔ یعنی دونوں کی پسند کا۔ والدین ایسے بچے کا نام ہمیشہ پکارتے بھی پورا ہیں۔ یعنی دونوں ناموں کے مجموعہ (ماں کی پسند+ باپ کی پسند) سے بچے کو مخاطب کیا جاتا ہے اور ایسے بچے کا کبھی کوئی Nick نیم (Name) نہیں ہوتا کیونکہ وہ بھی کوئی ایک نہیں ہو سکتا اور جو ایک نہ ہو وہ نِک Name نہیں ہوتا۔
لہٰذا ایسے والدین کا بچہ ہمیشہ نام کے دہرے بوجھ تلے دبا رہتا ہے اور والدین کا زیادہ وقت بچوں کو بلانے میں ضائع ہوتا ہے کیونکہ ڈبل نام سے پکارنا ہوتا ہے۔ جس میں دوگنا وقت لگتا ہے۔
بعض اوقات صورتحال بہت سنگین ہو جاتی ہے مگر جنہوں نے ہتھیار نہ ڈالنے ہوں کبھی نہیں ڈالتے اور ایسی ایسی فنکارانہ چالیں چلی جاتی ہیں کہ سب سے زیادہ مشکل پیدا کرنے والے سب سے زیادہ آسانی پیدا کرنے والے بن جاتے ہیں۔
مثلاً بچے کی دادی اور باپ کو اگر نام پسند ہے اور بچے کی والدہ کو وہ نام پسند نہیں جبکہ وہ اپنی مرضی کا کوئی اور نام رکھنا چاہتی ہے تو وہ شوہر کے بتائے گئے نام پر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ بچے کا نام رکھ دیا جاتا ہے چند روز بعد جب سب مل جل کر یہ خوشی منا چکے ہوتے ہیں تو والدہ ایک روز صبح اچانک ہڑبڑا کر اٹھتی ہے خاوند کو جگاتی ہے کہ میں نے بہت عجیب خواب دیکھا ہے خواب میں ایک بزرگ کہہ رہے تھے کہ تم نے یہ بچے کا کیا نام رکھ دیا اس کا نام تو فلاں فلاں ہونا چاہئے تھا۔
(ماں اپنی پسند کا نام بزرگ کے حوالے سے بتاتی ہے) تو پھر وہ شوہر کو بتاتی ہے کہ ان بزرگ سے میں نے کہا کہ یہ نام تو کبھی سنا نہیں۔ پھر کہتی ہے کہ ان بزرگ نے مجھے سفید آٹے جیسی چیز پر نام لکھ کر بتایا کہ اس نام کو ایسے لکھتے ہیں۔ یہی نام رکھو۔
خواب سن کر گھر والے اپنی پہنچ کے مطابق مشورہ کرتے ہیں۔ مختلف لوگ مختلف طرح کی رائے دیتے ہیں۔
بحرحال والدہ خاموش رہتی ہے وہ نام تبدیل کرنے کا مشورہ نہیں دیتی مگر باقی سب گھر والے بچے کا نام تبدیل کرنے کا سوچتے ہیں اور حفظ ما تقدم کے طور پر بچے کا نام بدل کر خواب والا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ماں نے اپنی ذہانت استعمال کرکے بغیر کسی کو ناراض کئے دوسروں سے اپنی خوشی و پسند کا نام اپنے بچے کا رکھوایا اور بہترین بیوی اور بہترین بہو کا ٹائٹل بھی حاصل کیا۔
کیونکہ کسی کے خواب ہیک (Hack) نہیں کئے جا سکتے۔
جب یہ (یعنی نام رکھنے کی) Authority بزرگوں کے پاس ہوتی ہے تب بھی طرح طرح کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ ننھیال والے چاہتے ہیں ان کی مرضی کا نام ہو۔ ددھیال والے چاہتے ہیں کہ ان کی پسند کو فوقیت دی جائے۔ زیادہ تر Cases میں ددھیال والے بچے کو اپنی property (پراپرٹی) سمجھتے ہیں اور وہ نام رکھ کر ننھیال والوں کو اطلاع کر دیتے ہیں۔
خاندان کے بزرگوں کو عزت دینے کیلئے یہ اختیار انہیں دیا جاتا ہے یا انہوں نے زبردستی حاصل کر رکھا ہوتا ہے اور بزرگ صاحب کا اس قدر اثر و رسوخ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ان کی پسند کو رد کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ بعض اوقات ان بزرگوں کے پاس طاقت و اختیارات تو بہت ہوتے ہیں مگر نام وہی stone age کے ان کے ذہن میں ہوتے ہیں اور وہ انہی میں سے کوئی نام نئے پیدا ہونے والے بچے کا رکھ دیتے ہیں۔
 
ایسے ایسے نام دیکھنے سننے میں آئے ہیں کہ ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ہے اور یقین نہیں آتا کہ اس دور میں بھی ایسے نام رکھے جا سکتے ہیں اور اس قدر اطاعت کی جا سکتی ہے کہ والدین نے بھی نہ سوچا۔ ان بچوں کیلئے ان کا نام ہمیشہ ان کے ماتھے پر لگے مزاحیہ کارٹون کی طرح ہوتا ہے۔ اس طرح پچھلی نسل کو عزت دیتے دیتے اگلی نسل تمام عمر کیلئے بے عزت کر دی جاتی ہے اس کے جواب میں یہ بھی سنا گیا کہ نام تو بدلا جا سکتا ہے مگر بزرگ نہیں۔
خاندان کے بزرگوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ بزرگ ہیں ان کا تجربہ ہے وہ سمجھداری سے نام رکھیں گے جبکہ والدین (بچے کے ماں باپ) کی سمجھداری پر شک کیا جاتا ہے حالانکہ اس پراڈکٹ (یعنی بچے) کی تیاری کیلئے (پیدائش کیلئے) تو ان والدین کے پاس تمام سمجھداری تھی مگر اگر وہ نام رکھیں گے اپنی پراڈکٹ کا تو اس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے اور اس پر بزرگ اور خاندان رسک لینے کو تیار نہیں ہوتے۔
خاندان کے بزرگ زیادہ دیر نہیں لگاتے نام رکھنے میں کیونکہ وہ چھان بین  تحقیق و تشریح کے چکر میں نہیں پڑتے اور نہ ہی کسی Excitement سے یا ذمہ داری سمجھ کر یہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ تو اکثر بچوں کے نام رکھنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اس لئے زیادہ دیر نہیں کرتے جو نام جی میں آئے بغیر مشورہ کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ دو سگی بہنوں کے بچوں کے ایک جیسے نام۔
وجہ صرف یہ تھی کہ نام ددھیالی بزرگوں نے رکھے ماں نے بہت شور مچایا کہ میری بہن کے بچے کا بھی یہی نام ہے مگر اس کی بات یہ کہہ کر رد کر دی گئی وہ اپنے والدین کا بچہ ہے یہ اپنے والدین کا، کیونکہ سننے کی عادت بہت کم بزرگوں کی ہوتی ہے۔ جب دونوں بہنیں اکٹھے میکے جاتیں تو مسئلہ پیدا ہو جاتا بچوں کو بلانے کا۔ نتیجتاً (نتیجہ کے طور پر) دونوں بچوں کے نام کے ساتھ چھوٹا اور بڑا لگا کر کام چلایا جاتا مگر اس گھر کے دوسرے بچوں نے ان کا مذاق بنانے کیلئے ان کے نام کی بجائے نمبر لگا دیئے۔
بڑے کو نمبر 1 اور چھوٹے کو نمبر 2 کہا جاتا جس سے لامحدود لڑائی شروع ہو جاتی۔ بچوں کی نانی اپنی دو بیٹیوں کو سسرال واپس بھیج دیتی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے بلکہ بہت پہلے۔ دونوں بہنوں نے تہیہ کیا کہ آئندہ وہ اپنے بچوں کے نام خود رکھیں گی بلکہ کسی کو بھی کسی کے بچے کا نام نہ رکھنے دیں گی۔
خاندان کے کچھ بزرگ بچوں کے جیسے کیسے نام رکھ کر آئندہ نام تبدیل نہ کرنے کی نصیحت و وصیت بھی کر دیتے ہیں۔
یعنی کہ وہ بچے پر نام پکی مہر کی طرح لگا دیتے ہیں۔ Signature with seal ایسا صرف اس لئے ہے کہ اختیار دینے کا رواج نہیں۔ قدرت کا عطا کردہ اختیار چھیننے کا رواج ہے۔ کیونکہ جو لذت چھیننے میں ہے وہ انہیں کسی اور طرح محسوس ہی نہیں ہوتی۔
ایک نسل ایسی بھی گزری ہے جو کہ بزرگوں کی عزت و اطاعت کرنے والی تھی۔ ان کے والدین نے ان کے بچوں کے نام رکھے ان کو یہ احساس دلاتے ہوئے کہ یہ صرف والدین کے والدین کا حق ہے۔
کیونکہ یہ ان کی نسل ہے جیسے ماں باپ سے یہ کہا جا رہا ہو کہ تمہارا کام صرف Production کی حد تک تھا۔ Ownership تمہاری نہیں۔ کیونکہ دادا، دادی اس دن کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ اس لئے بچوں کے نام صرف دادا، دادی رکھیں گے۔ بچوں کے والدین یہ حق دادا، دادی کو سونپ کر اس قربانی کا بدلہ اگلی نسل سے لینے کیلئے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ جب ان کو بھی بزرگی ملے گی اور اختیار ملے گا۔
مگر جب ان کی اولاد کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ اس نسل میں تو یہ حق بچے کے والدین کو مل چکا ہے اور وہ بچارے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے بچوں کے نام کسی اور نے رکھے کہ چلو ہم کسی اور کے بچوں کے نام رکھیں گے مگر بعد میں تمام عمر انتظار کے بعد سمجھ آئی کہ اپنے اپنے بچوں کے نام خود ہی رکھ لینے چاہئیں تھے۔ کوئی کہاں دوسروں کو اپنے بچوں کے نام رکھنے دیتا ہے۔
اس نسل کو پہلے والدین کی خاطر پھر اولاد کی محبت میں قربانی دینی پڑی۔ ٹھیک کہتے ہیں اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔
بعض بزرگ بچوں کے نام علم الاعداد سے نکال کر رکھتے ہیں۔ اکثر علم الاعداد سے نکالے گئے نام بہت Out Dated ہوتے ہیں۔ اسلامی نام تو یہ سمجھ کر بزرگوں کے کہنے پر مان لئے جاتے ہیں کہ چلو ثواب ملے گا یعنی Indirectly مجبوراً ثواب لیا جاتا ہے۔
مگر علم الاعداد میں نکلا ہوا بے تکا نام رکھنے پر مجبور ہونا بھی بہت مشکل۔ ایک بزرگ سپرپاور کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے پوتے کا نام علم الاعداد کے تحت بہادر خان تجویز کیا۔ تجویز کیا کرنا تھا رکھ دیا۔ والدین سپرپاور سے ٹکر لینے کی ہمت نہ رکھتے تو انہوں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ چلو بچے کا نام تو بدلا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ بزرگ ہیں آب حیات تو پی کر نہیں آئے بچے کے بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہو جائیں گے تو ہم بچے کا نام بدل دیں مگر والدین کے صبر کا امتحان تھا کہ بزرگ عمر خضر لکھوا کر آئے تھے۔
اسی اثناء میں بچہ بڑا ہو گیا۔ بچے کا نام بزرگ نے ”بہادر خان“ رکھا تھا بچے کو خود بھی یہ نام سخت ناپسند تھا۔ بچے نے والدین سے شکایت کی کہ یہ آپ نے میرا کیا نام رکھا ہے مجھے کوئی پہلوان تھوڑی بننا تھا۔ جو آپ نے یہ نام رکھ دیا۔ بچے کو کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ اس کے والدین اس کا نام تبدیل کرنے میں اس کے کام آنا تو درکنار اس کو ایسا سوچنے سے بھی منع کرنے لگتے ہیں۔
اگر ایسا ممکن ہوتا تو وہ کب کا یہ کام کر چکے ہوتے مگر بچے پر ایک ہی دھن سوار تھی۔ اس نے والدین کے سامنے تو ہتھیار ڈال دیئے مگر حقیقتاً ایسا نہ کیا۔ اس نے اپنے منصوبے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ بچے نے الٹی سیدھی حرکتیں شروع کر دی اس اچانک تبدیلی پر والدین پریشان ہوئے کبھی ایک ڈاکٹر کو دکھاتے کبھی دوسرے کو مگر نہ بیماری سمجھ آتی نہ بچہ ٹھیک ہوتا۔
آخر کار روحانی علاج سے مدد لینے کی کوشش کی گئی لڑکے نے اپنے دوست کے ذریعے روحانی معالج سے کہہ بھجوایا کہ وہ اس کے والدین کو بتائیں کہ یہ نام بھاری ہے اس بچے پر اس کو تبدیل کرنا اس کی صحت یابی کیلئے بہت ضروری ہے۔ اس طرح بچے کی صحت یابی کیلئے نام بدل دیا گیا اور سپرپاور کی زندگی میں ہی ان کی مرضی اور موجودگی میں یہ عظیم مشن مکمل کیا گیا۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan