Episode 9 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 9 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

بعض اوقات یہ اہم فریضہ (نام رکھنے کا) صرف اور صرف پیرو مرشد کے کہنے پر سرانجام دیا جاتا ہے۔ بچے کا نام پیرو مرشد سے خیرو برکت کیلئے رکھوایا جاتا ہے۔ کیسا ہی عجیب نام کیوں نہ بتائے مرشد عقیدت سے رکھا جاتا ہے اور کسی دوسرے کو بھی اس پر ناپسندیدگی یا حیرت کا اظہار نہیں کرنے دیا جاتا کیونکہ ایسا کرنے سے نام میں سے برکت رخصت ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
ایسے نام رکھ کر اور رکھوا کر بچے کو ساری عمر کیلئے محفوظ تصور کیا جاتا ہے یعنی وہ مزے سے زندگی گزارے اور عمل کیلئے پریشان نہ ہو کیونکہ نام کی برکت و خیر کو اس کی زندگی کیلئے کافی سمجھا جاتا ہے۔ نام سے قلعے کا کام لینے کا یہ انوکھا طریقہ ہے۔
کبھی کبھی کسی جوڑے کے ہاں اولاد ہونے میں تاخیر ہو جائے تو علاج کروایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اس علاج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کا نام علاج کرنے والا تجویز کرتا ہے اور من و عن وہی نام رکھا جاتا ہے۔

جیسے اولاد آئی ہی نام کی بدولت ہے نام نہ رکھا گیا تو خدا نخواستہ واپسی کا خطرہ ہے۔ نام رکھے جاتے ہیں علاج کرنے والے کی پسند کے۔ پیدا کرنے والے کی پسند کے نہیں۔
نام رکھنے کا ایک طریقہ ایسا بھی ہے جس میں کسی کو بھی زحمت نہیں کرنی پڑتی نہ ہی نام رکھنے کی نہ ہی ڈھونڈنے کی۔ پیدا ہونے والے بچے کا نام پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے یہ طریقہ نسلی طریقہ کہلاتا ہے۔
اس میں Auto setting ہوئی ہوتی ہے۔ بچوں کے نام دادا، پردادا یا بزرگوں کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں۔ بچوں کی قسمت کہ انکی باری کس کس نام پر آتی ہے۔ اس طرح دو چار نام ہی صدیوں تک چلتے رہتے ہیں۔ نام وہی صرف لوگ بدلتے رہتے ہیں۔ صرف ایک نام سے خاندان کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت سب کو اپنے پوتے پوتیوں کے نام بھی پتہ ہوتے ہیں۔ کافی بڑا کام ہے جو کہ ہو چکا آئندہ کئی نسلوں تک۔
اس میں تبدیلی کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ دادا پوتا کے نام بیک وقت ایک سے ہو جائیں اور کہیں اکٹھے استعمال کرنے ہوں تو ان کے ساتھ جونیئر، سینئر لگا کر کام چلایا جاتا ہے۔ خاندان کے تاج محل کا نگینہ بننے کیلئے یہ سب ضروری ہے ورنہ اس بچے کی حیثیت عام سے کنکر کی سی ہو۔ خاندان سے جڑے ہوئے فائدے لینے کیلئے نئے بچے کو نام کے پرانے ہولڈر میں لگا دیا جاتا ہے۔
بلب فیوز ہو جائے تو پرانے ہی ہولڈر میں نیا بلب لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح خاندانی نام کے ہولڈر سے فائدہ اٹھانے کیلئے نیا بچہ اس میں لگا دیا جاتا ہے کیونکہ نام کی تو کوئی Date of expiry نہیں ہوتی۔ Expire تو صرف انسان ہوتے ہیں یہ واحد نظام ہے جہاں فوت شدہ بزرگوں سے پیدا ہوتے ہی فائدہ ملنا شروع ہو جاتا ورنہ تو بچوں کو بزرگوں کے ایصال ثواب کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔
بحرحال نام لیز پر دیئے جانے کا یہ خاندانی کاروبار بہت Transparent ہوتا ہے۔ اس میں دھاندلی کا کوئی امکان نہیں۔ اس میں سب کو پتہ ہوتا ہے کہ آئندہ کون سے نام لیز پر دیئے جائیں گے۔
کبھی کبھی نام رکھنے کا فریضہ میڈیا بھی انجام دیتا ہے بچوں کے نام ماں باپ مقبول ڈراموں کے ہیرو، ہیروئن کے ناموں پر ڈراموں اور کرداروں سے متاثر ہو کر رکھ دیتے ہیں۔
کھلاڑیوں کے ناموں پر بھی لوگ بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ والدین بچوں کو بچپن میں ہی ہیرو تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے طریقہ سے بچوں کے نام سے ان کے سن پیدائش میں لگنے والے ڈراموں اور ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر ایسے ناموں کے مطلب و معانی وغیرہ والدین کو معلوم نہیں ہوتے کیونکہ اس کی کوشش ہی نہیں کی گئی ہوتی ایسے نام تو صرف ظاہر سے متاثر ہو کر رکھے گئے ہوتے ہیں۔
اگر اس چیز پر غور کیا جائے تو میڈیا کی طاقت کا اور اس کے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر اثر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کچھ نام کسی کے بھی کہنے پر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر نے کہہ دیا  نرس نے کہہ دیا وغیرہ فلاں فلاں نے بتایا فلاں سے پوچھا وغیرہ۔ بینظیر کی وفات کے دن پیدا ہونے والی چند بچیوں کے نام بینظیر رکھے گئے۔
نرسوں کو دوائیاں، دائیوں کو گھٹیاں دیتے تو سنا تھا مگر Part time جاب کے طور پر یہ لوگ نام بھی دیتے ہیں بچوں کو۔
ایسی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے مگر ہے۔
ایک اور بھی مروجہ طریقہ ہے نام رکھنے کا۔ وہ ہے مرحومین کے ناموں پر بچوں کے نام رکھنا۔ بچے کی قسمت ہے کہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے کون دنیا سے رخصت ہوا۔ بچے کے والدین کو مرحوم سے کس قدر محبت تھی اور یہ والدین کس قدر اس محبت کا اظہار چاہتے ہیں۔ کئی دفعہ تو پورا بچہ اس محبت کی نذر کر دیا جاتا ہے۔
یعنی من و عن وہی نام رکھ دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ بالکل وہی نام نہیں رکھنا چاہئے۔ ایسی صورت میں آدھا نام رکھ دیا جاتا ہے یعنی مرحوم کا نام Sur name کے طور پر لگایا جاتا ہے Real name کے ساتھ۔ اس طرح آدھا بچہ اپنا رہنے دیا جاتا ہے اور آدھا کسی اور کا کر دیا جاتا ہے۔ اسی صورت میں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ Sur name مرحوم کا ہوتا ہے۔
ولدیت اصلی باپ کی ہوتی ہے۔ لوگ Sur name کو والد کا نام سمجھتے ہیں مگر جب والد کے خانے میں بالکل مختلف نام لکھا دیکھتے ہیں تو کش مکش کا شکار ہو جاتے ہیں اور شک کرنے لگتے ہیں کہ شاید یہ بچہ Adopted ہے۔
اس طرح مرحوم کے ساتھ کیا گیا یہ اظہار محبت بچے کی ولدیت اور حقیقت میں شک پیدا کرتا ہے۔ آدھے لوگ اس کو مرحوم کا بچہ اور آدھے اصلی والد کا بچہ سمجھتے ہیں۔
صرف نام رکھ کر حقِ محبت کی ادائیگی کا میڈل لینے والے جذبات میں ان مسائل کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ کسی کا نام دنیا میں رکھتے رکھتے اپنا گنوا دیتے ہیں۔ مگر شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اپنا نام لئے تو وہ خود دنیا میں موجود ہیں۔ اس جھنڈے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ نومولود کو مرحوم کے نام کا جھنڈا پکڑا دیتے ہیں۔ بچے کو اضافی ذمہ داری تمام عمر لوگوں کو Confusion سے نکالے کی سونپ دی جاتی ہے۔
یعنی فلاں میرے والد صاحب ہیں اور فلاں میرے والد صاحب کے مرحوم عزیز تھے۔ جن سے اظہار محبت کیلئے میرے نام کا یہ حشر ہوا۔ بچے نے جس شخص کو دیکھا نہیں اس کی محبت و نام پر قربان ہونا سمجھ نہیں آتا یعنی آپ نے کیوں اپنی پراڈکٹ پر Tag کسی اور کمپنی کا لگایا۔
دوسرا Strong factor بچے کا نام رکھنے میں بچے کے والدین کا خاندان مقام ہے۔ بہن بھائیوں میں بچے کے والدین کس نمبر کی سیڑھی پر کھڑے ہیں۔
خاندان کے سب سے بڑے بچے کی شادی کے بعد پیدا ہونے والی اولاد اگلی نسل کا پہلا بچہ ہوتا ہے۔ ایسے بچے کا نام عموماً بہت Excitement سے، بہت تحقیق کے بعد بہت مشوروں سے بہت سے لوگوں کو خوش کرکے رکھا جاتا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام عوامل کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بزرگوں کا اختیار کم ہو جاتا ہے۔ خاندانی پابندیاں ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔ چھوٹے بھائی کی شادی تک سب کے جذبات ٹھنڈے ہو چکے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں سب سے چھوٹے جوڑے کو مکمل داخلی خود مختاری حاصل ہوتی ہے۔ اگر تھوڑی بہت کسر رہ ہی گئی ہوتی ہے تو وہ اس کو چھین لیتے ہیں کیونکہ خاندان میں ہونے والی بغاوتیں دیکھ کر Confident تو پہلے ہی بہت ہو چکے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر بزرگ ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ بحرحال اس جوڑے کو وہ تمام آزادی اور اختیار حاصل ہوتا ہے جس کیلئے بڑا جوڑا حسرت سینے میں لئے تمام زندگی گزار دیتا ہے۔
لہٰذا چھوٹے والدین کے زمانے میں بچے کا نام رکھنے سے پہلے کسی سے پوچھنے کا، مشورہ کرنے کا، رواج ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
تیسرا Storng factor نومولود بچے کا اپنے بہن بھائیوں میں نمبر ہے۔ پہلے بچے کا نام جوش و خروش سے رکھا جاتا ہے۔ شدید خواہش پوری کی جاتی ہے۔ اس کے بعد خواہش، پھر پسند کے تحت اگلے آنے والے بچوں کے نام رکھے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہے تو دوسروں کے کہنے پر بھی بچوں کے نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔
فیملی پلاننگ والوں کے پرزور اصرار پر بھی بچے پیدا کرنے بند نہیں کئے جاتے۔ مگر دوسروں کے صرف اور صرف کہنے پر نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔
کچھ خاندانوں میں سلسلہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ایک آدھ بچے کا نام (پہلے یا دوسرے کا) شوق سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد تو تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ گزار کر لیا جاتا ہے۔ بھائی کے بعد بہن پیدا ہوئی تو بھائی کے نام کے ساتھ ہی ”ہ“ لگا کر بہن کا نام رکھ جاتا ہے۔
مذکر ناموں کو مونث بنا کر گزارا کرنے کے اس فارمولے سے اردگرد کے لوگ اکتا جاتے ہیں۔ مگر نام رکھنے والے نہیں۔ لگتا ہے جیسے یہ والدین بچوں کے نام رکھنے کی بجائے زندگی کے امتحان میں آنے والا
Change the Gender
کا سوال حل کر رہے ہوں۔
بچوں کی لگاتار پیدائش سے وسائل کی کمی کا تو امکان ہوتا ہے مگر ناموں کی کمی کی وجہ سمجھ نہیں آتی حالانکہ اس پر تو (نام بدل بدل کر رکھنے پر) خرچ نہیں آتا۔
شاید ایسا کرنے والے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ انداز بچت (ناموں کی بچت) مستقبل کی خوشحالی کا ضامن نہیں۔ مستقبل میں خوشحالی بچوں نے نہیں والدین نے لانی ہے۔
بے مول، مفت کی چیز (نام) اپنے بچے کو عمر بھر کیلئے عطا کرنے پر والدین کا یہ حال ہے اگر خرید کر یا خرچ کرکے یہ کام کرنا پڑتاتو ایسے والدین بچوں کے نام رکھنے کی بجائے نمبر رکھ دیتے بچہ نمبر 1  بچہ نمبر 2 وغیرہ وغیرہ۔
نام رکھنا بھی معاشرتی جوا ہے۔ جو کہ ہر بچے کے ساتھ کھیلا جاتا ہے اور کھیلتے بھی دوسرے لوگ ہیں۔ یہ وہ حلال ترین جو اپنے جو کہ بچہ اپنی مرضی کے بغیر کھیلتا ہے۔ اس کا گناہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں مزہ نہیں آتا بلکہ Risk ہے کہ بچے کو بڑے ہو کر اپنا نام کیسا لگتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو معاشرے میں نام کے اس Lable کے ساتھ کیسا محسوس کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بحرحال نام رکھنا ذمہ داری ہے نہ ہی اس کو عذاب بنائیں نہ مجبوری۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan