Episode 46 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 46 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

اگلے روز نئے پروگرام پر عمل شروع ہوا۔ وقت مقررہ پر بس میں دفتر جاتے تو Subordirate کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑتی۔ وقت سے پہلے جاتے تو نائب قاصد اور چپڑاسیوں سے ملاقات ہو جاتی۔ لہٰذا آج فیصلہ کیا کہ وقت سے زیادہ پہلے دفتر جانے کے لیے نکل جائیں۔ تیار ہوئے اور نکل گئے۔ بس میں رش تھا مگر بہت زیادہ نہیں تمام سیٹوں پر لوگ بیٹھے تھے کہیں کہیں کوئی کوئی سیٹ خالی تھی۔
یہ صاحب بس میں سوار ہو کر نظر دوڑا رہے تھے خالی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کہ آواز آئی صاحب یہاں آ جائیں یہ جگہ خالی ہے۔ آج تو کم از کم ایسی کسی آواز کی توقع نہ تھی۔ آج تو کوئی گنجائش نہ تھی کہ کسی کا سامنا کرنا پڑے مگر دو لوگ اکٹھے ایک اٹل حقیقت کی طرح سامنے موجود تھے اور خالی جگہ پر صاحب کے بیٹھنے کے منتظر تھے۔

(جاری ہے)

کہیں اور فوری طور پر کوئی جگہ خالی نظر نہ آئی کہ صاحب ان کو نظر انداز کر کے وہاں جا کر بیٹھ جاتے۔

نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کے پاس بیٹھنا پڑا۔ ان کا سوال صاحب سے یہ تھا کہ آپ اتنی صبح صبح کہاں جا رہے ہیں کیونکہ وہ صاحب سے صرف اتنا ہی پوچھنے کی ہمت کر سکے۔ صاحب نے نئی داستان غم سنائی کہ گاڑی راستے میں خراب ہو گئی اسے وہیں چھوڑ کر آنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ ٹیکسی کوئی ملی نہیں اس لیے بس میں سوار ہو گیا۔ صاحب نے اپنی طرف سے مکمل فول پروف بیان دیا۔
کیونکہ اگر وہ کہتے کہ گاڑی صبح خراب ہو گئی تو تجویز آ سکتی تھی کہ لفٹ لے لیتے، ٹیکسی میں آ جاتے۔ مکینک بلوا لیتے وغیرہ وغیرہ۔ صاحب کی حکمت عملی چند لمحے کے لیے بھی ان حضرات پر اثر نہ کر سکی جب ان میں سے ایک فوراً بولا مگر صاحب اتنی جلدی کیا تھی ابھی تو بہت وقت تھا دفتر شروع ہونے میں۔ اتنی بڑی سی نئی گاڑی ہے آپ خواہ مخواہ سڑک پر چھوڑ آئے۔
آج تک تو سب نے صاحب سے ہمدردی کی تھی مگر یہ شخص گاڑی سے بھی ہمدردی کر رہا تھا صاحب کے مالی اور آرام کے نقصان دونوں پر تشویش کر کے بظاہر سب سے زیادہ Point Score کرنے والا شخص تو یہ تھا ہی لیکن صاحب کو لا جواب کرنے والا بھی پہلا ہی شخص تھا۔ اس بچارے کو کیا پتہ کہ گاڑی تو گھر پر کھڑی آرام کر رہی ہے صاحب یہاں ڈبل ڈبل ہمدردیاں سمیٹ رہا ہے۔ بحرحال صورت حال کو قابو میں لینے کے لیے صاحب نے جواب دیا کہ آج دفتر بہت ضروری جانا تھا کیونکہ ایک ضروری فائل جس پر صاحب کو کام کر کے آج بھیجنا تھا وہ کل دفتر میں بھول آئے تھے۔
صاحب یہ Pesudo Emergency (جھوٹی ایمرجنسی) کی کہانی سنا کر بے فکر ہونے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دوسرے حضرت جو کہ ابھی تک خاموش تھے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بولے ”صاحب میرا بھتیجا ٹیکسی چلاتا ہے (Taxi Driver ہے) میں آپ کو اس کا نمبر دیتا ہوں خدانخواستہ ایسا مسئلہ ہو جائے تو آپ اس کو فون کر کے بلا لیں وہ سارے کام چھوڑ کر سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچے گا۔ برخوردار ہے اپنا۔
شکایت نہ ہو گی آپ کو۔ اس طرح بسوں کے دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے آپ کو۔“ یہ شخص صاحب کی Good Book میں صرف جگہ بنانے کی نہیں بلکہ اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی کوشش کر چکا تھا۔ صاحل دل ہی دل میں شرمندگی کے سمندر میں غرق کہ یہ بچارے صاحب کے غم میں گھلے جا رہے ہیں۔Solutions اور Replacements پیش کر رہے ہیں۔ صاحب کے آرام کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کو تیار نظر آتے ہیں اور صاحب ہیں کہ بچت کرنے میں مصروف اور باقی کا وقت اس بچت کے لیے جھوٹ کی تیاری کرنے میں مگن۔
اس سب سے جسمانی تھکاوٹ تو ہو ہی رہی تھی مگر ذہنی تھکاوٹ جو کہ روزانہ بروقت نئے نئے Versions کے جھوٹ سوچنے اور بولنے سے ہو رہی تھی جسمانی تھکاوٹ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی۔ بحرحال گفتگو کا تسلسل کنڈیکٹر نے کرایہ مانگ کر توڑا آج صاحب نے پہلی مرتبہ کرایہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ اپنا کرایہ تو دینا ہی تھا مگر دوسرے دو حضرات (دونوں خاکروب کا) کا کرایہ بھی بخوشی ادا کر کے خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہے تھے کیونکہ آج انہوں نے لا شعوری طور پر پچھلے تمام قرضے چکا دئیے تھے اور مقبول حجِ اکبر کا سا اطمینان محسوس کر رہے تھے۔

آج کی واپسی روزانہ کی واپسی جیسی نہ تھی بلکہ آج تو صاحب کو ٹریک سوٹ جو کہ وہ صبح اپنے ساتھ لائے تھے پہن کر واپس پیدل جانا تھا تاکہ لوگ گزشتہ روز کی طرح واک کے Dress Code پر اعتراض نہ کریں۔ آج عوامی امنگوں اور دستور زمانہ کے مطابق باقاعدہ واک کا آغاز ہونا تھا۔ صاحب نے طے شدہ پروگرام کے مطابق ٹریک سوٹ پہنا اور جو سوٹ وہ صبح دفتر پہن کر آئے تھے اسے بریف کیس میں رکھ کر ساتھ لیا۔
واک کا یہ Two in one package بہت سی فکروں سے آزادی کا ضامن نظر آتا تھا۔ یعنی مال اور صحت کی بچت بیک وقت ہو رہی تھی۔ ابھی مکمل طور پر یہ صاحب بے فکر ہو کر خوش نہ ہوئے تھے کہ ایک گاڑی قریب آ کر رکی اور گاڑی میں سوار حضرت نے ان صاحب سے پوچھا۔
کیا ہو رہا ہے آج؟
کیا اسے نظر نہیں آ رہا کیا ہو رہا ہے؟ (دان صاحب نے گاڑی والے حضرت کے سوال کا جواب دینے کی بجائے دوبارہ اپنا محاسبہ کیا۔
ٹریک سوٹ پہنا ہوا تھا پاؤں میں جاگرز تھے وغیرہ وغیرہ اور قدم تھے کہ نوٹ پاتھ پر جمے ہوئے۔ اب بھی حضرت کو کیوں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے)۔
واک ہو رہی ہے (مجبوراً جواب دینا پڑا… پتہ نہیں لوگ اتنے بھولے کیوں بن جاتے ہیں) 
بریف کیس اٹھا کر!(اب اس کی وجہ حیرت سمجھ میں آئی) ساتھ ہی یہ سوال بھی سنائی دیا۔
 
اتنی جلدی کیا تھی؟
بہت مشکل سے خود کو وہ صاحب یہ جواب دینے سے روک پائے کہ دل چاہ رہا تھا کہ بریف کیس ہاتھ میں لے کر واک کروں وہ بھی بغیر تاخیر کے۔ مگر ایسے سوال اور ان جیسے مزید سوالات سے بچنے کا طریقہ جو اب دینا نہیں بلکہ جان بچا کر موضوع گفتگو بدل دیتا تھا لہٰذا ان صاحب نے کہا!
اچھا چھوڑو بریف کیس اور واک کو تم بتاؤ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
پہلی مرتبہ تیر ٹھیک نشانے پر لگا۔
کامیابی حاصل ہوئی اور وہ صاحب ایک آدھ بات کر کے چلتے بنے۔ دوبارہ واک کا تسلسل جوش و خروش سے برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔
تھوڑی دور ہی گئے تھے ایک موٹر سائیکل پاس آ کر رکا۔ صاحب بریف کیس کیوں اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہیں تھک جائیں گے میں آپ کے گھر کی طرف جا رہا ہوں لائیں مجھے دیں یہ بریف کیس میں گھر میں پکڑا دوں گا۔ صاحب نے اصرار کیا بریف کیس ہاتھ میں پکڑے رکھنے پر مگر موٹر سائیکل سوار صاحب کے ساتھ یہ نا انصافی برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔
لہٰذا وہ موٹر سائیکل سوار کامیاب ہو گئے اور بریف کیس صاحب کے گھر پہنچا کر خود کو آج خدمت خلق اور اخلاق حسنہ کے بلند ترین مقام پر فائز تصور کرنے لگے۔
واک، صاحب اور بریف کیس کی Triangle کے ساتھ یہ سلوک ہو گا اور لوگ اس پر طرح طرح کی انگلیاں اٹھائیں گے اس کی خبر تو ان صاحب کے فرشتوں کو بھی نہ تھی۔ بحرحال لوگوں کا تو کام ہی باتیں بنانا ہوتا ہے۔
بچت کرنے کی قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے مگر اس طرح قسطوں میں گھر پہنچوں گا یعنی سامان پہلے خود بعد میں وہ بھی حلیہ سے بے حلیہ ہو کر (ٹریک سوٹ اور دوسری اشیاء کی وجہ سے) حال سے بے حال ہو کر (لمبی واک سے ہونے والی تھکاوٹ اور لوگوں کی دی گئی ذہنی تھکاوٹ کی وجہ سے) بریف کیس اور سارا دن بولے گئے جھوٹ کا اثر اور وزن طبیعت پر اس سب کے علاوہ تھا۔
اسی دن رات کو یہ صاحب ایک دوکان سے (جو کہ گھر کے قریب واقع مارکیٹ میں تھی) دہی خرید کر واپس آ رہے تھے کہ گزشتہ روز دورانِ واک ملنے والے حضرت سے ملاقات ہو گئی۔ علیک سلیک کے بعد ہاتھ میں پکڑا ہوا دہی دیکھ کر کہنے لگے۔
”آپ کا ملازم چھٹی پر تھا تو ہمارے ملازم سے کہہ دیتے وہ دہی لے کر پکڑا دیتا۔ کیا ضرورت تھی خود آنے کی۔ ویسے بھی آپ واک کر کے تھکے ہوئے ہونگے“ ان صاحبِ دہی وواک نے جواب دیا۔
”نہیں میں صرف دہی لینے نہیں بلکہ نماز پڑھنے آیا تھا مسجد میں۔ نماز تو ملازم میری جگہ نہیں پڑھ سکتا اور واک کرنے سے نماز معاف نہیں ہو جاتی اور نہ ہی باجماعت ادا کرنے سے رخصت حاصل نہیں ہو جاتی ہے۔ اور آپ بتائیں آپ کیسے ادھر آئے…“
حد ہو گئی اب دہی بھی خود نہ خرید سکتے تھے۔ دہی خریدنے کے لیے بھی ملازم رکھا جائے۔ یہ سمجھ رہے تھے کہ ملازم چھٹی پر ہے ان کو کیا معلوم کہ ملازم کی خدمات تو کبھی حاصل ہی نہیں کی گئیں۔
بجٹ میں گاڑی کے پٹرول کی گنجائش نہ نکل رہی تھی یہ ملازم کا رونا رو رہے تھے۔ شکر ادا کیا اس بات پر کہ ان حضرت نے ملازم کے بارے میں نہ پوچھا۔ خود ہی اس کو Appoint کیا اور خود ہی چھٹی پر بھیج دیا۔ بہت رشک آیا صاحب کو حضرت ملاقات کی خوش گمانی پر اور احسان انہوں نے یہ کیا کہ صاحب کو مزید جھوٹ تیار کرنے کی زحمت نہ دی۔ یہی وجہ تھی کہ بائیں کندھے پر رہائش پذیر فرشتہ بھی شکر گزار تھا کیونکہ وہ بھی تھک کر آرام کر رہا تھا اور اٹھ کر دوبارہ کام کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔
اس کے آرام میں خلل وارد ہونے کے تمام دروازے بند کر کے اللہ کی نوری و خاکی مخلوق پر احسان عظیم کیا گیا تھا۔
ان صاحب کو بہت غصہ آیا۔ ایک تو تمام دن جس مشکل میں گزارا تھا اس کا اثر تھا اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ آخری ملاقات… دل چاہتا تھا نقاب کرنا شروع کر دیں اگر ان کے بس میں ہوتا تو پردہ کرنے لگتے مگر مرد ہو کر ایسا بھی نہ کر سکتے تھے۔
صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ تمام منصوبے فلاپ ہو چکے تھے۔ واک کرنے کا بھی اور Public Transport میں سفر کر کے بچت کرنے کا بھی۔
اس ساری Exercise سے صرف ایک بات سمجھ آئی کہ یا تو پیسہ بچ سکتا ہے یا عزت۔ عزت گنوا کر پیسہ تو بچایا جا سکتا ہے مگر کیا فائدہ ایسے پیسے کا کیونکہ پیسے سے عزت و وقار نہیں خریدا جا سکتا۔
زمانے کو دھوکا دیتے دیتے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بھرم قائم رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے جیسا کہ ان صاحب کے ساتھ ہوا۔
زندگی اپنی حیثیت کے مطابق گزارنی چاہیے۔ ورنہ وہی ہوتا ہے جو ان صاحب کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ پہلے یہ زمانے کو دھوکہ دے رہے تھے پھر وہی زمانہ آگے چل کر ان کا احتساب کر رہا ہے اور انہیں یاد دلا رہا ہے اور Guide کر رہا ہے کہ ان کو کیا زیب دیتا ہے کیا نہیں، انکی زندگی کیسی ہونی چاہیے، کیسی نہیں۔ زمانے کو یہ موقع یہ اختیار خود انہوں نے دیا۔ مشکل میں تو یہ خود ہی پڑے نا۔ اب آمدن بڑھا نہیں سکتے تھے۔ لائف اسٹائل بدل نہیں سکتے۔ لہٰذا زندگی کنجوسی سے بخیلی پر منتقل ہو گئی۔ اپنے کیے کی سزا خود ہی بھگتنی پڑتی ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan